1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Akhri Station

Akhri Station

آخری اسٹیشن

ٹرین نے وسل دی اور پلیٹ فارم پر رینگنا شروع کردیا۔ بوڑھے خیر دین نے ایک الوداعی نگاہ باہر کھڑے ہجوم پر ڈالی اور آنکھیں موند کر سر ٹکالیا۔ جام پور کے اسٹیشن کو رفتہ رفتہ ٹرین پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ایک لمبا سفر خیر دین کا منتظر تھا۔ جس کی منزل آخری اسٹیشن تھی۔ یادوں کے پردے پر ایک مسکراتی، چھیل چھبیلی، شرمیلی سی شبہیہ اُبھری۔ خیر دین مسکرایا، یہ سلمیٰ تھی۔ اس کی شریکِ حیات۔ شادی کے اوائل دنوں میں وہ کتنا شرمائی لجائی رہتی تھی، پھر آہستہ آہستہ زندگی کے جھمیلوں اور یکے بہ دیگرے دو بچوں کی پیدائش کے بعد اس کی مسکراہٹ گم ہی ہوگئی تھی مگر محبت ہمیشہ جوان رہی۔

جام پور کا چھوٹا سا گھر، نذیر اور سفیر، ان کے آنگن کے دو پھول اور ان کی خوشیوں بھری زندگی۔ خیر دین کو بھلا زندگی سے اور کیا چاہیئے تھا؟ وہ تو ویسے بھی بڑا شکرگزار سا بندہ تھا۔ جام پور کے ریلوے اسٹیشن کا ماسٹر تھا، اچھا گزارہ ہوجاتا تھا۔ اور قناعت پسند بندے کی تو اچھی گزر ہو ہی جاتی ہے۔ خیر دین کی بھی ہورہی تھی۔ ٹرین اب تیزی سے منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ باہر بادل خوب گھر گھر کر آرہے تھے۔ لگتا ہے خوب زور کا مینہ برسے گا۔ خیر دین نے سوچا اور سوچا تو فاخر نے بھی یہی تھا، فاخر، خیر دین کا دس سالہ پوتا، نذیر کا بیٹا، اپنے دادا کے سفر پر اسے الوداع کہنے آیا تھا۔ جب سے فاخر نے ہوش سنبھالا تھا، خیرو دادا کو ریل سے منسلک دیکھا تھا۔

ریل، خیر دین کا عشق اور جام پور کا چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن، اس کی کل کائنات!" دادا نے ساری زندگی ٹرین اور اس کے سفر کے گرد گزاردی، مگر آخری اسٹیشن تک کبھی نہیں گیا، اور آج جارہا ہے تو دل کتنا اداس ہے۔ " فاخر نے ٹھنڈی سانس بھر کے سوچا اور آسمان کی طرف نظر کی، بارش کسی بھی لمحے برسنے کو تھی۔ " کیا تھا جو سفیر چاچو یوں اچانک دوسرے شہر کوچ نہ کرتے؟ وہ بھی دور دراز۔ " فاخر نے پھر کڑھ کر سوچا۔ مگر خیر دین پر سکون تھا۔ اس کی روح شانت تھی۔

اندر باہر ٹھنڈ ہی ٹھنڈ! " سفیر پتر کو بھی جانے کی اتنی جلدی تھی، بلکہ اس کا بھی کیا قصور؟ سرکار کا حکم آجائے تو سرتابی کی کیا مجال۔ بس آنا ََفاناََ سامان باندھا اور روانہ۔ "خیر دین نے آنکھیں موندے موندے سوچا، " چل اب خیر ہے خیر دین، سلمیٰ بھی اس کے پیچھے گئی تو میں بھی چلا "بادل بوجھ اٹھائے اٹھائے تھک گئے تو بوندوں کو زمین کی راہ دکھائی، بوندا باندی میں بھیگتا فاخر آہستہ آہستہ ٹرین کو دور ہوتے دیکھ رہا تھا۔

" وہ دن کتنا اچھا تھا، کتنا مزہ آیا تھا ناں جب سفیر چاچو کی نوکری لگی تھی اور وہ سب کیلئے مٹھائی اور اس کا پسندیدہ تکہ سیخ کباب لایا تھا۔ دادا اور دادو سفیر چاچو کی دلہن لانے کی باتیں کرتے رہے۔ ابا بھی خوش تھا اور بہت دن بعد ماں کا موڈ بھی سب کے ساتھ خوشگوار تھا۔ اور چند دن بعد ہی چاچو کی روانگی کا پروانہ آگیا۔ "

بارش کی بوندوں اور فاخر کے خیالات کا بہاؤ تیز ہوچلا تھا۔ " دادو چاچو کے جانے کے بعد کتنے دن تک بولائی بولائی پھرتی تھیں۔ ماں سے نوک جھونک بھی بھول گئیں تھیں۔ " فاخر کچھ نہیں بھولا تھا۔ سب یاد تھا اسے۔ اور یاد تو خیر دین کو بھی اپنی پوری زندگی کی فلم آرہی تھی۔ " آلو کے پراٹھے، گاجر کا حلوہ، سرسوں کا ساگ اور، اور جانے کیا کیا؟ ذائقہ تو تیرے ہی ہاتھ میں تھا سلمیٰ " خیر دین کو سوچوں کے سوا کام ہی کیا تھا؟" بس اپنے لاڈلے کی فکر ہے، سفیر کی تنہائی کا خیال کرکے اس کے پیچھے تو بھی اس کے شہر چلی گئی، اور میں ؟ میرا کیا؟

کبھی سوچا تو نے؟ وہ تیری بہو، نذیر کی بیوی، دو وقت روٹی دے کے دس دفعہ بڑبڑاتی ہے، بس آنے دے مجھے بھی ایک بار، پوچھوں گا تجھ سے۔ " خیر دین نے ایک بار پھر شکووں کی پٹاری کھولی۔ فاخر اب بارش میں چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ خیر دین کی منزل بھی قریب تھی۔ آخری اسٹیشن آنے ہی والا تھا۔ بارش تھم چکی تھی لیکن ہر طرف کیچڑ اور پانی کھڑا تھا۔ خیر دین خوش تھا، وہ خوش تھا کہ سفیر اور سلمیٰ سے ملاقات ہوگی۔ جام پور کے باہر بنے شہر خموشاں کے مکینوں نے بانہیں پھیلا کر خیر دین کا استقبال کیا۔

بیٹے اور بیوی کے برابر بنی قبر ہی چار کاندھوں پر سوار خیرو کی آخری منزل تھی۔ بارش تھم چکی تھی لیکن قبرستان میں باپ کے پاس کھڑے فاخر کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ جام پور سے نکلی تیز گام ایکسپریس آخری اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھی۔

Check Also

Dard e Dil Ke Wastay

By Sanober Nazir