1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Aseer e Khauf (1)

Aseer e Khauf (1)

اسیرِ خوف(1)

" زیبی! بیٹا پاپا کیلئے سوپ بنادو۔ " ماما نے مجھے تیسری مرتبہ آ واز دے کر کہا، وہ نومبر کی ایک اداس، تھکی ماندی سہ پہر تھی اور میں چائے کا مگ ہاتھ میں لئے جانے کب سے سوچوں میں گم بیٹھی تھی کہ ماما کی آ واز سنائی ہی نہ دی۔ انٹر کے امتحانات کے بعد میرے شب وروز آج کل گھر پہ ہی بسر ہورہے تھے۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے گیارہ سالہ فاران بھی گھر پہ ہی ہوتا تھا۔ " شور مت کرو، کتنی دفعہ منع کیا ہے، پاپا کی ابھی ابھی آ نکھ لگی ہے"۔

امی اب دالان میں بال کو دیوار پر مار مار کر کھیلتے فاری کو ڈانٹ رہی تھیں۔ میں آہستگی سے اٹھی اور کپ اٹھا کر کچن میں جانے لگی۔ " فاری! تم چاہو تو میرے ساتھ کچن میں آ جاؤ۔ " میں نے دھیرے سے کہا، فاران منہ بسورتا میرے پیچھے چلنے لگا۔ امی واپس پاپا کے کمرے میں جاچکی تھیں۔ اس مختصر سی ہلچل کے بعد صمدانی ولاءپھر سے اداسی اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر سوگیا۔

" آپی! پاپا کب ٹھیک ہوں گے؟ فاری نے کاؤنٹر پر اچھل کر بیٹھتے ہوئے مجھ سے پوچھا"۔

" دیکھو۔ انشاء اللہ جلد ہی۔ اللہ بہتری کرے گا۔ "

" آپی۔ کیا ماما ہماری سگی ماما نہیں؟ "

" یہ کس نے کہا تم سے۔ کیوں فالتو باتیں سوچتے رہتے ہو؟ "میں نے فاری کو گھورا۔

" پھر وہ ہم سے گھلتی ملتی کیوں نہیں، محبت کا اظہار نہیں کرتیں، اور ماؤں کی طرح ہمارے لئے فکر مند نہیں ہوتیں۔ وہ صرف پاپا ہی کیلئے پریشان ہوتی ہیں۔ ان کی priority listمیں ہم اتنا نیچے کیوں ہیں؟ "

فاری کے سوالات کا سلسلہ پھر سے دراز ہوگیا تھا۔

" فاران! جان! وہ بیمار ہیں، کئی مرتبہ سمجھا چکی ہوں، وہ ہمیں توجہ نہیں دے پاتیں، البتہ ہمیں ان کو توجہ دینا ہوگی۔ "

" مگر پاپا۔ پاپا پر تو وہ جان چھڑکتی ہیں ان کا خیال بھی رکھتی ہیں۔ پھر ہمارا احساس کیوں نہیں ؟ "

اب کی بار میرے پاس اس کے لئے کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ماما نے کبھی مجھے یا فاران کو گلے لگا کر، پیار کیا ہو۔ جب تک نینی زندہ رہیں، یہ جذباتی کمی کسی حد تک پوری ہوئی۔ نینی کے انتقال کے وقت میں دس سال اور فاران پانچ سال کا تھا۔ فاری کو نینی اور ان کی شفقت کافی حد تک یاد تھی جبکہ میرا تو سارا بچپن ہی ان کی محبت کی حرارت کے سنگ گزرا تھا۔ نینی! میری پیاری نانی ماں ! مجھے مامتا کے روپ سے آشنا کروانے والی۔ سوچتی ہوں اگر نانی ماں نہ ہوتیں تو ہمارا بچپن کتنا سرد، منجمد اور ویران ہوتا؟

وہ ہماری زندگی میں ہلکی ہلکی حرارت دینے والا چراغِ سحری تھیں۔ اسی احساس نے مجھے فاران کے لئے بہت کم عمری سے ہی حساس بنادیا تھا، میں حتی المقدور اس کا خیال رکھتی، اس سے لاڈ جتاتی، اور ماما کے سرد رویے کی تلافی کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی۔ اسی لئے فاران بھی مجھ سے شروع ہی سے ایک خاص لگاؤ رکھتا تھا۔ اور سچ پوچھیں تو ہم دونوں کا ایک دوسرے کے سوا تھا ہی کون؟

ماما! صباحت شکیل! ان دیکھے وسوسوں، خوف اور ہراس کا شکار! میں مانتی ہوں کہ وہ بیمار تھیں مگر اتنی نہیں کہ اپنی کائنات کے دو بے نام سیاروں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے سورج کے مدار پر گردش کریں۔

پاپا! شکیل صمدانی! وہ مدہم پڑتا سورج جو اپنی مدہم توانائی صرف قریبی سیارے تک محدود رکھتا ہے۔ اور کہیں دور، دو ٹھٹھرتے سیارے روشنی اور حرارت کیلئے ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔

میں چھوٹی سی تھی جب نینی نے مجھے بہت سی تلخ حقیقتوں سے روشناس کروادیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں بہادر بنوں اور زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کروں اسی لیے انہوں نے مجھے میری عمر سے بڑی باتیں بھی بتا دی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ وہ تاعمر میرے ساتھ نہیں رہ سکتیں اس لیے انہوں نے مجھے اپنے آپ اور فاران کو سنبھالنے کے گر سکھا دیے تھے۔ میری زندگی کے شروع کے دس سال زیادہ تر نینی کے گھر ہی گزرے تھے فاری مجھ سے پانچ برس چھوٹا تھا وہ بھی زیادہ تر میرے ساتھ ہی ہوتا تھا، نینی دھیمے دھیمے لہجے میں بولنے والی سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ ان کی آواز کی بازگشت آج بھی مجھے اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔

" زیب! بیٹا زندگی میں کبھی کسی چیز کو اپنے حواس پر سوار مت کرنا۔ شاید یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا، مگر اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا قید جسمانی ہو، روحانی یا نفسیاتی انسان کھو کھلا کر دیتی ہے۔ سب صلاحیتیں کھا جاتی ہے۔ نینی دھیرے دھیرے بولتی چلی جاتیں اور میں حیرت سے ان کے پاس لیٹی ان کی باتیں سنا کرتی۔ اس وقت میری عمر نو برس رہی ہوگی جب مجھے نانی ماں کی زبانی بہت سی باتوں کا ادراک ہوا۔ میرے ماں باپ نے اپنے اپنے خاندان سے بغاوت کرکے، اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف چھپ کر نکاح کرلیا تھا۔

نہ ماما نے اپنے چچا زاد سے منگنی کی پروا کی اور نہ بابا نے ذات برادری اور خاندانی رسوم و رواج کی۔ اس کے نتیجے میں دونوں کو خاندان کی طرف سے مکمل بائیکاٹ سہنا پڑا۔ اس وقت ان کی طوفانی محبت ہر قسم کے نتائج اور نفع نقصان سے بے پروا تھی۔ البتہ جب ماما کے والد کو نکاح کی خبر سے ہارٹ اٹیک ہوا، جو ان کی جان ہی لے گیا تو ماما کو بھی اس وقت پہلا panic attackہوا۔ نینی اور ماما کے دونوں بھائیوں نے ان سے ہر ناطہ توڑ کر گھر کے دروازے ان پر ہمیشہ کےلئے بند کرلیے۔ پاپا کے خاندان نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

سو ماما پاپا نے ایک نسبتاً غیر آباد علاقے میں اپنی چھوٹی سی دنیا الگ تھلگ بسالی۔ شروع کے کچھ سال تو پاپا کو اپنے خاندان سے شدید جانی خطرات بھی لاحق رہے جن سے وہ کبھی پوری طرح آزاد نہ ہوسکے۔ یہاں صرف وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ذات کا محور تھے۔ کسی تیسرے کی ان کی زندگی میں گنجائش نہ تھی۔ حتیٰ کہ شادی کے پانچ سال بعد ہونے والی پہلی اولاد، میں، زیب النسا بھی نہیں۔ " تمہاری ماما اس وقت تنہا تھیں۔ کچھ وقت کے دھارے، کچھ خون کی کشش اور کچھ اصل سے زیادہ سود کی چاہت نے ہمارے رشتے پر جمی برف پگھلادی، اور رفتہ رفتہ صباحت سے تعلق کی ڈور پھر سے جڑ گئی۔

تمہاری ماں اس وقت کچھ post partumاور کچھ اعصابی کمزوری کی وجہ سے بہت مجبور ہوگئی تھی۔ وہ ہر وقت روتی رہتی، اپنے والد کی موت کا ذمہ دار بھی خود کو ٹھہراتی۔ گھر سے باہر نکلنے سے شدید خوفزدہ رہتی۔ لیکن بہرحال اس کی اور شکیل صمدانی کی محبت تب بھی روز اول کی طرح تازہ تھی۔ میں اس کی حالت کے پیشِ نظر تمہیں اپنے گھر لے آئی۔ اس وقت تک میرے دونوں بیٹے بھی بیرونِ ملک سیٹل ہوچکے تھے اور میں گھر میں ملازموں کے ساتھ تنہا ہی ہوتی تھی۔ "

نینی کی بے نقاب کی گئی سچائیاں اور ماضی بہت تکلیف دہ تھا مگر اس سے مفر ممکن نہیں تھا۔ " بس! پھر تم اور تمہارے پانچ سال بعد آنے والا فاران زیادہ تر میرے ہی پاس رہے، صباحت باہر نہیں نکلتی تھی اور شکیل کے آنے کے بعد اس کا سارا وقت اسی کیلئے مختص ہوتا۔ اس کی کائنات میں کسی تیسرے کی گنجائش کبھی رہی ہی نہیں۔ لیکن اس میں اس کا بھی اتنا قصور نہیں، وہ Agoraphobia کا شکار ہے۔ تم دونوں اسے معاف کردینا۔ "

ایگورا فوبیا سے میری پہلی آشنائی نینی کے ذریعے ہی ہوئی اور پھر ہمیشہ ہی وہ میرے مقابل رہا۔ نینی کی باتیں سنتے سنتے فاری تو ہمیشہ سوجایا کرتا مگر میں گھنٹوں سوچا کرتی۔ پتہ نہیں نینی نے یہ سب ہمیں بتا کر اچھا کیا یا برا؟ میں کبھی فیصلہ نہیں کرپائی۔ لیکن ان کی محبت ساری تشنگیاں بھلا ضرور دیتی۔ پاپا کے کھانسنے کی آواز سے میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ ماما گھبرائی ہوئی سی ان کے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں " ماما! کیا ہوا طبیعت زیادہ خراب ہے کیا پاپا کی؟ " میں نے فکر مندی سے پوچھا۔

Check Also

Dard e Dil Ke Wastay

By Sanober Nazir