1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Aseer e Khauf (2)

Aseer e Khauf (2)

اسیرِ ِخوف(2)

" زیبی! تم جلدی سے oximeterلاکر دے دو۔ پتہ نہیں کہاں رکھ کر بھول گئی۔ "

اچھا! ابھی لائی! میں تیزی سے oximeterکی تلاش میں بھاگی اور ماما کو لا کر پکڑادیا۔

" ماما! اسپتال فون کردوں، ایمبولینس بلالیں؟"

" قطعی نہیں زیبی! تمہیں پتہ ہے ناں وہ آئسولیٹ کردیں گے۔ میں شکیل کے بنا کیسے رہوں گی اور گھر میں مکمل خیال اور علاج ممکن ہے تو اسپتال کیوں جائیں؟"

ماما اندر کمرے میں جاچکی تھیں۔ میرا بڑا دل چاہ رہا تھا کہ میں دور ہی سے سہی پاپا کو کسی جھری سے ہی ایک نظر دیکھ لوں مگر ماما نے سختی سے ہدایت کی ہوئی تھی کہ میں اور فاری کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہ یہ وائرس انتہائی متعدی ہے اور پھر بیڈ روم کا بند دروازہ اور کھڑکیوں پر دبیز پردے مجھے کمرے کے احوال سے بے خبر رکھ رہے تھے۔

" ماما، آپ پاپا کے ساتھ کمرے میں کیسے رہ رہی ہیں؟ آپ کم از کم اپنا کمرہ تو الگ کرلیں۔ ہم سب مل کر ان کا خیال رکھیں گے مگر ان کو مکمل quarantineکرنا ہوگا۔ "

پاپا کا ٹیسٹ مثبت آنے پر میں نے ماما پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔

" زیب النساء مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ ساری عمر تمہارے پاپا سے کبھی الگ نہیں ہوئی تو اس حالت میں کیسے ان کو چھوڑ دوں؟ ویسے بھی میں نے ڈبل ماسک، گلوز سمیت تمام ایس او پیز کا خیال رکھا ہوا ہے"

"پھر بھی ماما! یہ وبا آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اور پاپا بھی تو اصرار کررہے ہیں کہ آپ کمرہ تبدیل کرلیں۔ " اب کی بار فاران نے ماما کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

" فاران! میں نے کہہ دیا ناں کہ کچھ نہیں ہوگا مجھے۔ اب مزید بحث نہیں "۔

اور ہم دونوں منہ بسور کر رہ گئے تھے۔ ہمارے بس میں صرف یہی تھا کہ ہم دونوں اس وبا سے بچنے کی اپنی پوری کوشش کریں اور وہ ہم کر رہے تھے۔

شہر بھر میں وبا کے شکار افراد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ فاران اور میں تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی تھے۔ آخرکار پاپا بھی لپیٹ میں آ گئے۔ اور ماما، وہ ان کے قرنطینہ میں بھی ان کی ساتھی بن گئیں۔ آج پاپا کو quarantineمیں گئے پانچواں دن تھا۔ میں ہر دم ان کی صحت یابی اور ماما کی حفاظت کی دعا کرتی۔ ماما ایک شدید anxiety disorderایگورا فوبیا کی مریض تھیں۔ اس ڈس آرڈر کے مریض گھر سے باہر اکیلے نکلنے، کھلی اور بند جگہوں، تنہا ہوجانے اور اسی طرح مختلف، مخصوص حالات میں شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کے والد اور بعد ازاں والدہ کی بھی دل کے دورے سے ہونے والی موت نے اس خوف کو ان کے لاشعور میں پختہ کردیا تھا کہ وہ بھی موروثی طور پر دل کی بیماری کا شکار ہیں۔ پاپا کی دنیا ہی ان کے گرد گھومتی تھی۔ پاپا نے ان کا بہت علاج کروایا۔ وہ مسلسل anti depressantsاور anti anxietyادویات کا استعمال کرتی تھیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں ان کے کئی panic attacksشامل ہیں۔ ان کو ٹھنڈے پسینے آنے لگتے، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی اور بے ہوش ہوکر گرجاتیں۔ پاپا اسپتال لے کر بھاگتے۔ ای سی جی اور دیگر ٹیسٹ نارمل آتے، وہ ہمیشہ panic attackہی ہوتا، لیکن ان کو لگتا تھا کہ ان کو کبھی بھی ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے۔

وہ گھر سے نکلنے سے ہر ممکن گریز کرتیں، چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی پاپا پر مکمل انحصار کرتیں، کسی بھی ایسی جگہ جانے سے گریز کرتی جہاں سے ایمرجنسی کی صورت میں نکلنا ممکن نہ ہو۔ ایگورا فوبیا نے ان کی سماجی زندگی شدید متاثر کی تھی۔ وہ دنیا کے ان اڑسٹھ ملین لوگوں میں سے ایک تھیں جو ایگورا فوبیا کا شکار ہوکر دنیا سے کٹ جاتے ہیں اور خوف کے سائے تلے زندگی بسر کرتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہم یعنی میں، فاران، ماما، پاپا ایک خاندان کے طور پر کبھی شاپنگ کرنے اکٹھے کسی مال یا مارکیٹ گئے ہوں، ماما کو کھلی جگہوں سے بھی خوف آتا تھا اور بند جگہوں سے بھی۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ماما کی سائیکلوجسٹ سے اپائنٹمنٹ تھا۔ میں اور فاری بھی ضد کرکے ساتھ ہولئے۔ ورنہ ہم دونوں عام طور پر گھر پہ ہی رہتے تھے۔ میری عمر اس وقت بارہ سال ہوگی۔ ماما گھر سے باہر اکیلے قطعی نہیں نکلتی تھیں انہیں اپنے comfort zoneمیں ہی رہنا پسند تھا۔ اس دن بھی مجبوری میں سائیکلوجسٹ کے پاس جانا تھا کہ دوائیوں کے ضمنی اثرات ماما کو پریشان کر رہے تھے۔ وہ ویک اینڈ تھا اور میرا اور فاری کا ارادہ تھا کہ پاپا سے کہہ کر واپسی پر آئس کریم کھائیں گے۔

پاپا کوشش کرتے تھے کہ گاڑی کم رش والی جگہوں سے نکالیں، مگر اس دن کسی جلوس کی وجہ سے اکثر راستے بند تھے اور ہم بد ترین ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ ماما کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی ہے۔ پاپا ماما کو تسلی دے رہے تھے مگر وہ پسینے میں شرابور ہوگئیں۔

" شکیل جلدی یہاں سے نکلو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ گھبراہٹ ہورہی ہے۔ اگر یہاں مجھے ہارٹ اٹیک ہوگیا تو اسپتال بھی نہیں پہنچ سکوں گی اور یہیں دم توڑ دوں گی۔ "

" کچھ نہیں ہوگا صباحت۔ کیسی باتیں کر رہی ہو؟"

لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ماما کی گھبراہٹ بڑھتی گئی اور وہ بے ہوش ہوگئیں۔ جیسے تیسے کرکے ٹریفک بحال ہوا، اور ہم اسپتال پہنچ سکے۔ ان کا دشمن ایک ہی تھا۔ ایگورا فوبیا۔

آج پاپا کو قرنطینہ میں گئے چھٹا دن تھا۔ میں ان سے ویڈیو کال پر بات کرلیتی تھی۔ کمرے میں تو ماما نے سختی سے داخلہ بند کر رکھا تھا، خود صرف کسی خاص ضرورت سے ہی باہر آتیں۔ اس وقت بھی میں نے پاپا کو کال لگائی۔ ماما شاید اس وقت واش روم میں تھیں۔

" پاپا آپ کی طبعیت کیسی ہے؟ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟"

" نہیں زیبی! بس تم اپنا اور فاران کا خاص خیال رکھو۔ ہر ممکن احتیاط کرو۔ ماما سے بھی فاصلے پر رہا کرو۔ "

" جی پاپا۔ میں احتیاط کر رہی ہوں "میں نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

" زیب! ڈاکٹر صالحہ کو کال کرکے اپنی ماں کی حالت کے بارے میں مشورہ کرلو۔ وہ وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔ مجھے اکیلا چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں۔"

" جی بہتر پاپا! میں فون کرلیتی ہوں، اور آپ کے ڈاکٹر سے بھی آن لائن ایڈوائس لے لوں؟"

" نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔ میں رابطے میں ہوں اور تمام ادویات وقت پر لے رہا ہوں۔ "

مختصر بات چیت کے بعد میں نے فون فاران کو تھمایا اور ڈاکٹر صالحہ کو کال کرنے چل دی۔

" زیب النساء! میں نے اس وبا کی ابتداء میں ہی بتا دیا تھا کہ اس سال ایگورا فوبیا کے مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور جو پہلے ہی اس مرض کا شکار ہیں ان کے مرض کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان حالات میں جب ہر شخص ہی انجانے خوف کا شکار ہے اور سب گھروں میں ہی محصور ہیں، باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں تو ایسی صورت میں اس فوبیا کے شکار لوگوں کا مزید panicہوجانا قدرتی سی بات ہے۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ مسز صباحت اپنے شوہر جو وبا کا شکار ہیں ان ہی کے ساتھ quarantineہیں۔

یہ کافی تشویش ناک بات ہے اس کا مطلب ہے ان کو کوئی خوف یا تشویش جکڑے ہوئے ہے کہ وہ صمدانی صاحب کو تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں۔ یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ ایسے مریض کسی ایک فرد پر overly dependentہوجاتے ہیں مگر اس حالت میں ہر صورت ان کو وبا کے شکار فرد سے دور رہنا چاہئے۔ I strongly recommend you to make her visit at clinic۔ آپ سمجھ رہی ہیں ناں زیب النساء؟" ڈاکٹر صالحہ کی گفتگو جاری تھی مگر میں سب سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ ماما کو سمجھانا کم از کم میرے بس کا روگ نہیں تھا۔

Check Also

Lebanon, Arab Ki Wahid Esaayi Riyasat

By Mansoor Nadeem