1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Aseer e Khauf (3)

Aseer e Khauf (3)

اسیرِِ خوف(3)

فاران کو پاپا کے حوالے سے ہدایات دے کر میں نےاوبر کو کلینک جانے کیلئےکال کرلیا۔ بھلا ہو اس سہولت کا کہ ماما کسی بھی قسم کے پبلک ٹرانسپورٹ میں جانے سے شدید خوفزدہ ہوجاتی تھیں شروع میں پاپا کے پاس ذاتی گاڑی بھی نہیں تھی، تو ماما باہر نکلنے سے ہر ممکن گریز کرتیں۔ وہ ہمیشہ باہر پاپا کے ساتھ ہی جایا کرتیں۔ یہ دوسری دفعہ تھا کہ وہ صرف میرے ساتھ کہیں باہر جارہی تھیں۔ مجھے پہلی دفعہ کا تجربہ یاد آگیا جو خاصا ناخوشگوار تھا۔

مجھے یاد تھا کہ دو سال پہلے وہ میرے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ فارم جمع کروانے کا موقع تھا۔ پاپا شام کو گھر آ یا کرتے اور وہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ لا محالہ مجھے ماما کو راضی کرنا پڑا کہ وہ میرے ساتھ کالج چلیں۔ شکر کہ کالج گھر سے قریب ہی تھا تو ہم پیدل ہی پہنچ گئے۔ داخلہ فارم جمع کروانے والوں کی طویل قطار تھی، میں قطار میں لگ گئی اور ماما کو قریبی بینچ پر بٹھا دیا۔ گرمی میں کھڑے کھڑے بیس منٹ گزر گئے تھے اور میرا پیاس سے برا حال تھا۔

" ماما! آپ بس پانچ منٹ میری جگہ کھڑی ہوجائیں میں ابھی دو سافٹ ڈرنکس لے کر آتی ہوں۔ میں نے ماما کو قطار میں کھڑا کیا اور کینٹین کی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں رش کی وجہ سے دس منٹ لگ گئے، واپس آئی تو ماما کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وہ کانپ رہی تھیں اور پسینے میں شرابور تھیں۔ میں نے ان کو جلدی سے بینچ پر بٹھایا اور سافٹ ڈرنک پلایا۔ اس دن مجھے علم ہوا کہ انکو قطار میں کھڑے ہونے سے بھی خوف آتا ہے۔ تیز سورج ہمارے سر پہ چمک رہا تھا مگر ہماری زندگی کے سورج پر ایگورا فوبیا نے سدا کا گرہن لگایا ہوا تھا۔ باہر اوبر آچکی تھی۔ میں سہمی ہوئی ماما کو لے کر ڈاکٹر صالحہ کے کلینک پہنچ گئی۔

ڈاکٹر نے کچھ دواؤں میں ردوبدل کیا، کچھ ضروری ہدایات دیں، ساتھ ہی ہم سب خاص کر ماما کو وائرس کا تشخیصی ٹیسٹ کروانے کی تاکید کی۔ ڈاکٹر صالحہ کا کلینک گراؤنڈ فلور پر کسی توسیعی کام کی وجہ سے اسپتال کی دوسری منزل پر منتقل ہوگیا تھا۔ ماما نے آتے وقت سیڑھیوں کا استعمال کیا تھا۔ بقول انکے لفٹ میں طبعیت خراب ہو جائے گی۔ واپسی پر میں نے محسوس کیا کہ وہ نڈھال سی ہیں۔ تھکی، تھکی پژمردہ۔ میں نے لفٹ کی طرف قدم بڑھادئیے۔ وہ شاید کچھ غائب دماغی کی کیفیت میں تھیں کہ مان گئیں اور لفٹ میں داخل ہوگئیں۔ جیسے ہی آپریٹر نے بٹن پریس کیا اور لفٹ نے حرکت کی ماما گھبرا گئیں۔

" روکو۔ روکو۔ ! باہر نکلو زیب النساء۔ میرا دم گھٹ جائے گا۔ " ماما کی دہائیاں جاری تھیں۔

" ماما۔ کچھ نہیں ہوگا، بس دو فلورز ہی تو ہیں "

اور چند ہی لمحوں میں لفٹ گراؤنڈ سے آلگی۔ میں جلدی سے لے کر ماما کو لے کر باہر نکلی اور باہر منتظر اوبر میں سوار ہوگئی۔ ماما کی حالت غیر ہورہی تھی۔ خدا خدا کرکے گھر آیا اور ماما اندر بستر پر ڈھیر ہوگئیں۔

" ماما کھانا کھالیں، پھر دوا دے دیتی ہوں " میں نے ان کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔ کھانے اور دوا کے بعد ماما اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھ گئیں۔

" ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ یہیں میرے بیڈروم میں رک جائیں۔ " میں نے مشورہ دیا۔

" نہیں اب میں ٹھیک ہوں " وہ مختصر جواب دے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ میں نے ٹھنڈی سانس بڑھی اور فاری کو کھانا دینےاُٹھ گئی۔

رات کتنی بھی طویل ہو آخر کٹ ہی جاتی ہے۔ سورج نے اپنی کرنوں کا لشکر آسمان پر اتارا تو اندھیرے کو بھاگتے ہی بنی۔ آج کی صبح کتنی خاموش اور ویران لگ رہی ہے۔ وینٹی لیٹر پر آس اور نراس کے درمیان جھولتے مریض کی طرح۔ میں نے فالتو خیالات کو جھٹکا اور ناشتہ بنانے چل دی۔ مگر جب خلافِ معمول ماما کمرے سے نہیں نکلیں تو میں نے دروازہ بجایا۔ کافی دیر بعد ماما کی ماسک تلے چھپی صورت نظر آئی۔ وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھیں۔

" ماما۔ کیا ہوا آپ کو؟" میں نے آ گے بڑھ کر ان کو چھونا چاہا۔

" زیبی! مجھے ہاتھ نہیں لگانا۔ مجھے بخار ہے۔ ساری علامات بھی وائرس کی ہی ہیں۔ تم اور فاران ہمارے قریب بھی نہ آنا۔ ناشتہ، کھانا اور دوسری ضروریات میں کال پر بتادوں گی وہ باہر رکھ جانا۔ میرا خیال ہے تشخیصی ٹیسٹ کی بھی ضرورت نہیں، میں یقیناً پازیٹو ہی ہوں۔ "

" اوہ خدایا" میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔

" ماما کتنا سمجھایا تھا آپ کو، پاپا سے دور رہنا چاہیے تھا ناں آپ کو۔ اور پاپا۔ پاپا کیسے ہیں؟"

" ہاں وہ بہتر ہیں۔ رات ان کی طبیعت بھی خاصی خراب تھی مگر اب بہتر ہیں اور سو رہے ہیں۔ بس تم ناشتہ اور دوائیاں باہر ٹیبل پر رکھ جاؤ۔ " ماما نے ہدایت کی۔

" ماما۔ لیکن آپ ڈاکٹر کے۔ "

میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن دروازہ بند ہوچکا تھا۔ میں مایوسی سے سر ہلاتی کچن میں آگئی۔ پورا دن میں نے، اور فاران نے صمدانی ولاء کی اداس فضامیں پہر گنتے، ایک دوسرے کو دلاسے دیتے گزار دیا، میں خود تو فاری کو تسلی دے رہی تھی مگر اندر سے خوفزدہ تھی کہ اب اگر اس وبا نے مجھے یا فاران کو لپیٹ میں لے لیا تو ہم کیسے مقابلہ کرسکیں گے؟ ماما اب صرف ضرورت کی اشیاء کیلئے دروازہ کھولتیں اور پھر سے اندر بند ہوجاتیں۔ میرے وسوسے درست تھے۔ ظاہر ہے اس طرح آخر کب تک وہ وائرس سے بچ سکتی تھیں؟

وہ رات بھی ڈھل گئی اور سورج ایک نئے دن کی نوید لئے پھر سے حاضر ہوگیا۔ میں نے ماما، پاپا کے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کافی دیر بعد بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میری تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ میں نے پاپا کو کال ملائی، جواب ندارد۔ ماما کو کال کی تو فون اٹھالیا گیا۔

" کیا ہوا زیبی! کیوں تنگ کررہی ہو؟"

" ماما! آپ لوگ جواب کیوں نہیں دے رہے تھے؟"

" بیٹا۔ پاپا ابھی سو رہے ہیں اور میں واش روم میں تھی۔ ہم لوگ ٹھیک ہیں۔ میرا بخار کم ہے، لیکن میرے سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سخت متاثر ہوئی ہے۔ "

" اوہ! اگر آپ کی یا پاپا کی طبیعت ٹھیک نہ ہو تو فوراً بتائیے گا۔ میں فوراً اسپتال سے رابطہ کروں گی۔ "

" ٹھیک ہے زیب! لیکن اسپتال کی ضرورت نہیں، گھر پر ہی قرنطینہ زیادہ بہتر ہے۔ "

ماما نے بات ختم کردی۔

شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ میرا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ انجانے خوف، وسوسے ڈس رہے تھے، کل سے پاپا سے بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ رات گئے میری بے چینی سوا ہوگئی۔ فجر کے بعد میں نے ماسٹر بیڈ روم کی ڈپلیکیٹ چابی اٹھائی اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ مشرق سے سورج نے اپنا زرد تھال آسمان پر انڈیلا تو کسی بیمار کی صورت سارے جہان میں زردی کھنڈ گئی دروازے کی بیل مسلسل بج رہی تھی، میں نے مرے مرے قدموں سے جاکر دروازہ کھول دیا۔ گھر میں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس سناٹے میں کچھ اہلکار حفاظتی کٹس پہنے اندر داخل ہوگئے۔ اجنبی آوازیں سن کر ماما کمرے سے باہر آگئیں۔ اجنبی صورت عملے کے افراد کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوف اور وحشت سمٹ آئی۔

" زیب! کون ہیں یہ لوگ، گھر میں کیسے آگئے؟ میں نے منع کیا تھا ناں کہ ہم ٹھیک ہیں، ہمیں اسپتال نہیں جانا۔ "

ماما ہذیانی انداز میں چلا رہی تھیں۔

" ماما کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے! یہ اسپتال سے نہیں ایدھی سے آئے ہیں، اور میں نے بلایا ہے۔ پاپا کی موت کو آج تیسرا دن ہے۔ ان کی میت بو چھوڑ رہی ہے۔ آپ ان کی لاش کے ساتھ جی سکتی ہیں لیکن ہم نہیں۔ مان لیں اب اس حقیقت کو۔ ان کو ان کی آخری آرام گاہ جانے دیں۔ ان پر اور ہم پر اور ظلم نہیں کریں۔ آپ کے انجانے خوف نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ "

میں نے ماما کو بری طرح جھنجوڑ ڈالا۔ میرا ضبط جواب دے چکا تھا۔ ایدھی رضاکار، کمرے کی جانب جاچکے تھے۔ ماما کا سکتہ ٹوٹا اور وہ غش کھا کر گر پڑیں۔ اسی لمحے میری نظر کونے میں کھڑے زرد چہرے والے فاران پر پڑی۔ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں بھیگا ہوا پوری جان سے کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ شاید یہ اس کا پہلا panic attackتھا۔ فضا میں حبس بڑھ گیا تھا۔ میری آنکھوں سے دو اشک ٹپکے اور زمین کی وسعتوں میں گم ہوگئے۔ پاپا کا پروانہ رہائی آگیا تھا مگر میں جان گئی تھی کہ ہم سب خوف کے اسیر ہیں اور ہمیں تاحیات اس قید میں رہنا ہے۔

ختم شد

Check Also

Apni Zindagi Khud Jiyen

By Rauf Klasra