1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Asrar

Asrar

اسرار

یہ واقعہ میری والدہ کی پھوپھی کے ساتھ پیش آیا اور خاندان کی محفلوں میں بارہا سنایا جاتا رہا۔ بچپن سے ہم اس قصے کو کئی مرتبہ سنتے چلے آئے ہیں۔ اس میں پیش آئے تمام واقعات بالکل حقیقی ہیں۔

میری والدہ مرحومہ کی پھوپھی کشور انتہائی حسین و جمیل خاتون تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے بڑھاپے میں بھی ان کا رنگ بالکل صاف شفاف تھا اور نقوش بہت نازک سے تھے۔ ان کی پہلی اولاد بالکل ان ہی نقوش کی حامل تھی۔ امی بتاتی تھیں کہ ان کا بیٹا سلمان بہت ہی خوبصورت بچہ تھا۔

میرے والد اور خاندان کے دوسرے بزرگوں سے ہمیشہ ہم نے سلمان انکل کی خوبصورتی اور وجاہت کے قصے سنے۔ بقول میرے والد صاحب میں نے ساری زندگی پھر اتنے خوبرو انسان کو نہیں دیکھا وہ بعد ازاں پاکستان مرچنٹ نیوی میں ملازم ہوئے زیادہ تر ملک سے باہر ہی ہوتے اور آخری عمر بھی انہوں نے بیرون ملک گزاری۔ بہرحال امی بتاتی ہیں کہ سلمان بھائی کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ان کی والدہ کشور پھپھو نے اپنے نومولود بیٹے کو کچے آنگن میں ایک جگہ پیشاب کروادیا۔ یہ ان کی زندگی کی بہت بڑی بھول تھی۔ کیونکہ اس جگہ جنات کی رہائش تھی اور وہاں ان کا کھانا پک رہا تھا۔

وہ جنات بہت طاقتور قسم کے تھے اور اس حرکت پر بے حد برہم ہوئے۔ اس کے بعد سے کشور پھپھو کو جنات کی طرف سے ستانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کے پکائے کھانوں میں مٹی اور گندگی پڑی ہوتی۔ وہ جہاں بھی بیٹھتیں یا لیٹتیں ان کے سوئیاں چبھنے لگتیں۔ غرض ان کی رات کی نیند، دن کا چین حرام ہوگیا۔ کشور پھپھو کے شوہر بھی ایک انتہائی نیک پارسا انسان تھے اور جانتے تھے کہ غلطی انجانے میں ان ہی لوگوں سے ہوگئی ہے مگر ان پریشانیوں سے بڑی پریشانی ایک اور بھی تھی کہ کشور پھپھو کو خواب میں جنات بار بار نظر آتے اور مطالبہ کرتے کہ ہمیں ازالے کے طور پر اپنا بیٹا دے دو۔

کشور پھپھو کیلئے یہ بہت بڑی آزمائش تھی اور سمجھ سے بالاتر تھا کہ ناراض جنات کو کیسے منایا جائے اور کیسے اس مطالبے سے باز رکھا جائے۔ ایک دن کشور پھپھو صبح بیدار ہوئیں تو ان کی چوٹی کندھوں کے کچھ نیچے سے کٹی ہوئی تھی۔ پھپھو کیلئے یہ بات کسی صدمے سے کم نہ تھی کہ ان کے بال گھٹنوں سے نیچے انتہائی لمبے اور خوبصورت تھے۔ تعجب کی بات یہ کہ کٹی ہوئی چٹیا گھر بھر میں کہیں موجود نہ تھی۔

آخر کار ایک عالم سے رجوع کیا گیا جنہوں نے پھوپھا صاحب کو کچھ تعویز وغیرہ دیئے مگر تعجب کی بات یہ کہ گھر پہنچ کر وہ تعویز جیب سے غائب ہوجاتے ایسا دو تین مرتبہ ہوا کہ جیب میں رکھے تعویز گھر پہنچ کر غائب ہوجاتے۔ آخر کار عالم صاحب کے مشورے پر ہاتھ میں تعویز پکڑ کر گھر لائے گئے۔ جب عالم صاحب کو گھر کے معائنے کیلئے آنا تھا تو گھوڑا اڑ گیا اور دو ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ کئی جتن کرکے بالآخر عالم گھر پہنچے۔

ان کے مطابق یہ جنات بہت طاقتور اور ناراض ہیں اور تمام طریقے، وظائف ناکام ہوگئے ہیں لیکن آخری حربے کے طور پر کشور پھپھو اگر ان کے شہنشاہ یا سربراہ کے سامنے پیش ہو کر معافی مانگ لیں اور کسی طرح اپنی جان بخشی کروائیں تو ہی ان کے بیٹے سلمان کی جان بچ پائے گی۔ غرض یہ کہ عالم صاحب نے پھپھو کشور کو سامنے بٹھا کر کوئی خاص عمل پڑھا اور جب پھپھو نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک میدان میں موجود پایا۔

کشور پھپھو کے مطابق میری آنکھوں کے سامنے ایک وسیع میدان تھا جہاں پنڈال لگنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ پہلے وہاں مٹی بچھائی گئی پھر ماشکی نے آکر چھڑکاؤ کیا۔ اس کے بعد کرسیاں لگائی گئیں اور یوں دربار تیار ہوگیا۔ اب کچھ انتہائی طویل قامت ہستیاں کرسیوں پر براجمان ہوگئیں۔ مقدمہ شروع ہوا اور کشور پھپھو جنوں کے سردار کے سامنے پیش ہوئیں۔ انہوں نے اپنی غلطی کا عاجزی سے اعتراف کیا، بہت گڑگڑا کر معافی مانگی اور اکلوتی اولاد کا حوالہ دیا کہ اس کی جان بخشی کردی جائے کہ وہ پہلی اور اکلوتی اولاد ہے۔

بہت منت سماجت کے بعد بالآخر جنوں کے سردار نے معافی قبول کرلی اور یوں کشور پھپھو اور ان کے خاندان کی خلاصی ممکن ہوئی۔ جنوں نے ساتھ ساتھ کٹی چٹیا کا پتہ بھی بتادیا۔ پھپھو بتاتی ہیں کہ ان کی بتائی گئی جگہ یعنی ایک سامان کے نیچے دبے بکسے کو کھولا گیا اور لحافوں کی تہوں کو ہٹایا گیا تو سب سے نیچے ایک رومال میں لپٹی چٹیا برآمد ہوئی۔ اس واقعے کے بعد کبھی دوبارہ ان کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہاں لیکن کشور پھپھو کے لمبے خوبصورت حسین بال اس کے بعد کبھی ایک انچ بھی نہ بڑھے اور ہمیشہ کندھوں سے کچھ نیچے ہی رہے۔

اس واقعے سے جڑے تمام کردار راہی ملک عدم ہوئے مگر یہ پراسرار واقعہ اپنے تمام تر اسرار سمیت سینہ بہ سینہ ہم تک منتقل ہوتا رہا اور آج قرطاس کی زینت بھی بن گیا۔

Check Also

Americi Intikhabat Aur Meri Wapsi

By Mojahid Mirza