1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Bono Ka Shehar (1)

Bono Ka Shehar (1)

بونوں کا شہر(1)

میں چھوٹا سا تھا جب ماں کہا کرتی تھی کہ میرا یافع بہت بڑا آدمی بنے گا۔ میری بھولی ماں نہیں جانتی تھی کہ بڑے لوگوں کے اس شہر میں انسان بڑا آدمی نہ بن سکے تو آدمی کہلانا بھی مشکل ہوجاتا ہے کجا یہ کہ مجھ سا چھوٹا انسان!

میں اماں، ابا کی اکلوتی اولاد تھا۔ بڑی دعاؤں، منتوں، مرادوں سے دس سال بعد ماں باپ کی جھولی میں آیا۔ ابا معمولی سے اسکول ماسٹر تھے پھر بھی میری پیدائش پر اپنی بساط سے بڑھ کر خوشی منائی۔ ابا مجھے ہمیشہ بلند نصیب اور بلند اقبال دیکھنا چاہتے تھے سو میرا نام خوب سوچ بچار کے بعد " یافع " رکھ دیا یعنی " لمبا تڑنگا نوجوان "، اس لمحے شاید تقدیر بھی دور کھڑی ہنس رہی تھی کہ تمام عمر میرا نام مجھے کانٹے کی طرح چبھتا رہا۔ بھلا ناموں سے بھی بخت بدلتے ہیں؟

مجھے یاد ہے جب ابا مجھے تیسری جماعت میں داخلہ دلوانے اسکول لے گئے تھے تو ہیڈ ماسٹر صاحب بہت دیر تک مجھے سر تا پا گھورتے رہے، شاید ابا کے ہیڈ ماسٹر ہونے کا لحاظ تھا کہ بڑی دیر بعد فقرہ موزوں کیا، " جلال صاحب! بچے کی عمر کے لحاظ سے تیسری جماعت میں بٹھایا تو دوسرے بچے بلاوجہ تنگ کریں گے، اس کو قد کاٹھ کے حساب سے پہلی میں داخلہ دے دیتے ہیں۔ "ابا کے دل پر گھونسا پڑا۔ ان کے یافع کو دنیا کی پہلی نظر، پہلے فقرے کا سامنا تھا اور وہ بے بس تھے۔ ابا، جو اب تک دنیا کی نظروں سے مجھے چھپا چھپا کر اور خود کو بہلا کر جیتے آئے تھے، ہیڈماسٹر صاحب کے لفظوں پر خاموش سے ہوگئے۔

کہا تو بس اتنا، " جناب! آپ بچے کا امتحان لے چکے ہیں۔ اس کی عمر اور قابلیت کے حساب سے تیسری جماعت ہی بنتی ہے، بلاوجہ دو سال ضائع کروانے کا فائدہ؟"یوں ہیڈماسٹر صاحب نے چاروناچار مجھے تیسری جماعت میں داخلہ دے ہی دیا۔ دراصل میری پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہی ڈاکٹروں نے بتادیا تھا کہ میں پیدائشی طور پر پستہ قامتی یا dwarfism کا شکار ہوں اور یہ کہ میرا قد ساری عمر ایک مخصوص حد یعنی اوسطاً تین سے چار فٹ سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں اماں کا لاڈلا اور ابا کا یافع انسانوں کے اس جنگل کا محض ایک بونا تھا۔

میرا داخلہ کروانے کے بعد گھر آکر جانے ابا، اماں میں کیا بات ہوئی کہ ماں کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں؟ اس دن ابا مجھے گلے سے لگائے بہت دیر تک سمجھاتے رہے، " بیٹے یافع! بس اپنی پڑھائی پر توجہ دینا، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرنا "۔ ابا نے اس دن پہلی مرتبہ مجھے یہ شعر سنایا۔

بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف

قد میں تو سایہ بھی انساں سے بڑا ہوتا ہے۔

اس کے بعد ابا بار بار یہ شعر دہرایا کرتے حتیٰ کہ یہ میرے لاشعور میں رچ بس گیا۔ مگر کیا کرتا کہ دنیا کے بازار میں کردار بے مول تھا اور قد کاٹھ، دولت، مرتبہ، حیثیت منہ مانگے دام بکتے تھے۔ میں کئی مرتبہ اپنے معمولی وجود کو لوگوں کے فقروں، طنز اور تضحیک کے تیروں سے چھلنی کرلیتا، ٹوٹ جاتا، بکھر جاتا تو ماں کی آغوش میں چھپ جاتا، ابا کی تسلی آمیز باتوں میں مرہم ڈھونڈتا۔ مجھے بہت بچپن میں ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ دنیا اونچے لوگوں کی ہے، بڑے لوگوں کی! بونوں کی اس شہر میں نہ تو جگہ ہے نہ ضرورت۔ پستہ قامتی سے مجھے بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔

میں پڑھائی میں بہت محنت کرتا لیکن کہیں نہ کہیں میرے خوف مجھے ہرا دیتے۔ میرے لئے چیزوں کو پکڑنا، چلنا، اٹھنا، بیٹھنا اور لکھنا پڑھنا عام لوگوں کے مقابلے میں خاصے دشوار امر تھے۔ مشق اور کوشش سے میں اب کافی حد تک اپنے امور انجام دینے میں کامیاب ہوگیا تھا مگر معاشرے کا سسٹم اور عمومی نظام اوسط قد والوں کیلئے بنا ہوا تھا، لہٰذا مجھے ہر قدم پر روز ایک نئے چیلنج کا سامنا رہتا۔ بازاروں کے اونچے شوکیس، بینکوں اور استقبالیہ کے کاونٹرز، پبلک ٹرانسپورٹ، بلند جگمگاتے نیون سائن، قہقہے لگاتے اونچے لوگ سب مجھے روز اس دنیا سے الگ، اجنبی بنادیتے۔ کیا یہ میری دنیا نہیں تھی یا یہ شہر میرے لئے نہیں تھا؟ میں کرب سے سوچتا۔

یونہی دن گزرتے چلے گئے اور میں نے انٹر کرلیا اس سے زیادہ تعلیم کی نہ ہمت تھی نہ اوقات۔ اماں، ابا کو وقت نے اب جھکادیا تھا مگر اب بھی اپنے یافع کے ارفع نصیب کے لئے پرامید تھے۔ ابا اسکول کی ملازمت چھوڑ چکے تھے۔ میں نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہا مگر حسب توقع ہر جگہ سے مجھے صرف اور صرف قد کی بنیاد پر ہی جانچا گیا۔ آخرکار ابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے مختلف تعلیمی اداروں میں ملازمت کی کوشش شروع کردی۔ مگر جب ایک معمولی سا اسکول بھی مجھے یہ کہہ کر انکار کردیا کرتا کہ " آپ بچوں کو کیسے پڑھائیں گے آپ تو ابھی خود بچے ہیں؟" تو بڑے لوگوں کی دنیا کے چھوٹے دلوں کا احساس اور گہرا ہوجاتا۔

وقت مزید سرک گیا تھا۔ اماں، ابا یکے بہ دیگرے اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور میری سہارے کی آخری دیواریں بھی ڈھے گئیں، مگر برا ہو اس پاپی پیٹ کا کہ امیر غریب، چھوٹے بڑے، لنگڑے لولے، سب کے ساتھ لگا ہے اور اس کا تقاضا بھی سب سے یکساں ہے۔ سو اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرکے میں نے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے چکر کاٹنے شروع کردیئے میں جان گیا تھا مجھے اس جسامت، اس قد کو ہی استعمال کرنا ہوگا۔ کچھ کوششوں کے بعد مجھے ایک پوش علاقے میں قائم اچھے ہوٹل کے باہر گیٹ کیپر کی نوکری مل گئی۔

میں مخصوص وردی میں گیٹ پر کھڑا رہتا، آنے والے خوش لباس، خوش قامت اور خوشحال لوگوں کےلئے جھک کر دروازہ کھولتا اور خوش آمدیدی کلمات کہتا۔ بچے مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کچھ لوگ مجھے چند روپے بھی دان کرجاتے۔ زندگی چل سو چل، پھر رواں ہوگئی تھی۔ میں نے خود کو مصروف کرلیا تھا اس لئے اب کسی حد تک مطمئن رہتا تھا۔ مگر تقدیر کو شاید کچھ اور امتحان بھی منظور تھے۔ وہ ایک عام سی رات تھی۔ ہوٹل کے اندر رنگوں، روشنیوں، خوشبوؤں کا سیلاب تھا۔ میں بار بار آنے والے لوگوں کیلئے سر خم کرکے سلام کرتا اور دروازہ کھول کر خوش آمدید کہتا۔

اکثریت مجھے یکسر نظر انداز کرتی آگے بڑھ جاتی۔ ویسے بھی اس پستہ قامتی پر میں کسے نظر آسکتا تھا؟ یونہی میں اپنے خیالات میں مگن کھڑا تھا کہ اچانک ہوٹل کے اندر سے شور شرابے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک میز کے گرد بیٹھے معززین ارشد ویٹر پر بری طرح چلا رہے تھے۔ ارشد کے ہاتھ سے پانی کا جگ چھوٹ کر میز کے گرد چکنا چور پڑا تھا، کچھ چھینٹے مہمانوں پر بھی جاگرے تھے۔

Check Also

Chacha Khuwa Makhuwa

By Nusrat Javed