1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Bono Ka Shehar (2)

Bono Ka Shehar (2)

بونوں کا شہر(2)

ارشد فق رنگت سے جلدی جلدی کانچ سمیٹ رہا تھا۔ ہوٹل مینیجر معزز مہمانوں کو منانے کی کوشش میں لگا تھا۔ " ارشد! یہ غلطیاں کب تک برداشت ہوں گی؟ یہ آخری وارننگ تھی اب تنخواہ کی کٹوتی بھگتو! " مینیجر درشتی سے کہہ رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ارشد اپنے گھر کا واحد کفیل ہے اور آج بخار کے باوجود ڈیوٹی پر آیا ہے۔ مینیجر اصول کا پکا اور سخت آدمی تھا۔ مجھے علم تھا کہ ارشد کی قلیل تنخواہ میں سے تین ہزار کی کٹوتی اسے کتنی بھاری پڑے گی۔

میرا دل ارشد کےلئے اداس ہونے لگا اور یہ احساس اتنا شدید ہوا کہ میں گیٹ سے ہٹ کر غیر محسوس طریقے سے ارشد کے قریب جاپہنچا۔ "ارشد" میں نے دھیرے سے اسے پکارا، اور تین ہزار خاموشی سے اس کی جیب میں رکھ دیئے۔ ارشد نے چونک کر مجھے دیکھا اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ میں تیزی سے پلٹ کر گیٹ کی طرف بڑھ گیا، مگر ستم ظریفی کہ میری معمولی سی حرکت بھی مینیجر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ تیر کی طرح میرے سر پہ پہنچ گیا۔ " یافع! یہ کیا حرکت کی ہے؟ مطلب اب تم ان معاملات میں دخل اندازی کروگے۔ اب خود کو بھی فارغ سمجھو اور کرتے پھرو یہ ہمدردیاں۔ "

مینیجر شاید آج زیادہ خار کھائے ہوئے تھا مگر مجھے اس طرح کے اچانک اقدام کی توقع نہیں تھی۔ میں ششدر رہ گیا۔ یہ نوکری کتنی دقتوں کے بعد ملی تھی، میرا ہی دل جانتا تھا۔ اس کو کھونے کا تصور ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔ مگر کیونکہ میرا جرم کسی کی مدد تھا اور اس کےلئے معافی مانگنا میرے اصولوں کے خلاف، اس لئے خاموش رہا۔ جاتے جاتے میں نے ارشد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے عزت تھی، ان آنکھوں میں میرے قد کی نہیں صرف کردار کی اہمیت تھی۔ مجھے لگا کہ میرا قد چند انچ بلند ہوگیا ہے۔ میں نے آخری نگاہ روشنیوں بھرے ہال پر ڈالی اور باہر نکل آیا۔

چند دن بعد پھر سے میں تھا اور میری نوکری کی تلاش، ہوٹل کی نوکری دوبارہ ملنا بہت مشکل تھا۔ انہی دنوں میری نگاہ سے شہر میں لگے سرکس کا اشتہار گزرا۔ میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا مگر معاشرے کے ہاتھوں اب سرکس کے مسخرے کی نوکری کےلئے بھی تیار تھا۔ کچھ کوشش کے بعد بالآخر مجھے سرکس میں جوکر کا کردار نبھانا آگیا۔ محنتی تو میں تھا ہی، اور کچھ تعلیم اور شعور بھی تھا تو نے نئے طریقوں سے جلد ہی لوگوں کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کردیتا۔ اپنے نئے رنگوں سے سجے بہروپ پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوتی تھی ہاں کبھی کبھی لوگوں کے چہروں پر چڑھے ماسک مجھے ضرور حیران کردیتے۔

آہستہ آہستہ میں اپنے فن میں طاق ہوتا جارہا تھا اور تقریباً تمام کرتب دکھا لیتا۔ رنگ برنگ لباس اور چہرے پر سفید، سرخ، نیلا، گلابی رنگ لگائے میں اب سرکس کا بونا جوکر تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والا لمبا (ٹال مین) جانو، تنی رسّی پر چلنے والی لڑکی نینا اور میجک مین ریمبو اب میرے دوست تھے۔ ہم روزانہ تین شو کیا کرتے تھے۔ جانو پانچ فٹ لمبے بانسوں پر کھڑا ہوکر گیارہ فٹ لمبا ٹال مین بن جاتا اور میں تین فٹ کا بونا اس کے اردگرد منڈلاتا، ہماری جوڑی کی حرکتوں اور شرارتوں سے لوگ خوب محظوظ ہوا کرتے۔ چھ میٹر بلند تنی رسّی پر چلتی نینا تنگ اور شوخ و بھڑکیلے کپڑے پہن کر ہاتھ میں ڈنڈا متوازن کرتے ہوئے چلتی تو میں اور جانو خوب تالیاں بجاتے۔

وہ ایک ایسا ہی دن تھا۔ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے خوب رش تھا۔ ہمارا آخری شو چل رہا تھا۔ پہلے جانو اور میری جوڑی نے اوٹ پٹانگ حرکتوں اور باتوں سے شائقین کو محظوظ کیا۔ اس کے بعد نینا کی باری تھی۔ میں اور جانو حسب معمول اسٹیج کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر تالیاں بجانے اور داد بھرے فقرے اس کی جانب اچھالنے میں مصروف تھے۔ نینا ہمیشہ کی طرح مہارت سے مختلف جمناسٹک مہارتیں دکھا رہی تھی۔ شائقین کا شور شرابہ عروج پر تھا۔ اب نینا سیڑھیاں چڑھ کر مچان پر پہنچ گئی تھی۔ اور سب سے مقبول آئٹم یعنی تنی رسّی پر چلنے کی تیاریوں میں تھی۔

میں نے خوشی سے قلابازیاں کھائیں اور ٹال مین تالیاں بجانے لگا۔ نینا نے ہاتھ میں ڈنڈا متوازن رکھتے ہوئے رسی پر قدم رکھا اور چند قدم بڑھائے۔ یکایک شائقین میں سے کسی ماہر نشانہ باز نے تاک کر خالی بوتل نینا کی طرف اچھالی۔ بوتل نینا کے جسم سے ٹکرائی اور اسے ڈگمگا گئی۔ نینا توازن کھو بیٹھی تھی قریب تھا کہ وہ نیچے گر جاتی کہ اس کا تنگ لباس قریب بنی مچان کی کیل میں اٹک گیا۔ چرررر۔ کی آواز کے ساتھ نینا کا شوخ لباس ادھڑ چکا تھا اور وہ نیم عریاں حالت میں مچان سے لٹکی پینڈولم کی مانند جھول رہی تھی۔

یہ سب اتنا چشم زدن میں ہوا کہ میں، جانو اور ریمبو ششدر رہ گئے۔ سامنے بیٹھے شائقین کو ایک نیا اور دلچسپ تماشہ ہاتھ آگیا تھا۔ لہٰذا عوام کی ہوٹنگ، فقروں اور سیٹیوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ نینا کپڑے پھٹ جانے پر واضح طور پر ہراساں، اور شرمندہ نظر آرہی تھی۔ وہ جمناسٹک کی ماہر تھی اور خود کو باآسانی سنبھال کر سیدھا کرنا جانتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کی ہر ہر حرکت سے اس کا لباس مزید ادھڑ جاتا، یہ صورتحال اس کو ہراساں کرنے کو کافی تھی۔ میں سرد موسم میں بھی اس کے پسینے چھوٹتے دیکھ رہا تھا۔ شائقین کا مجمع اس نئے تماشے پر بے قابو ہورہا تھا۔

" انتظامیہ کیوں نہیں مدد کرتی؟" میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ مگر اب نینا کچھ جدوجہد کے بعد مچان پر پہنچ گئی تھی اور سمٹی سمٹائی، سہمی ہوئی سی ستون کی آڑ میں کھڑی تھی۔ وہ یقیناً تماش بینوں کے سامنے نیچے اترنے سے ہچکچا رہی تھی۔ میرے جمے قدموں نے حرکت کی اور میں چشم زدن میں میجک مین ریمبو کا لمبا کوٹ اٹھا کر مچان کے زینے کی جانب بھاگنے لگا۔ کچھ ہی لمحوں میں نینا سر تا پا کوٹ میں ڈھکی تیزی سے اسٹیج کے پیچھے جارہی تھی۔ شائقین اس نظارے سے ہنوز محظوظ نظر آرہے تھے۔ وہ تالیاں پیٹ رہے تھے، فقرے کس رہے تھے اور سیٹیاں بجا رہے تھے۔

نینا نے جاتے سمے مجھ پر ایک نگاہ ڈالی، اس نگاہ میں میرے لئے عزت، عقیدت اور تشکر کے آنسو چمک رہے تھے۔ اسی لمحے میرا تین فٹا قد بڑھنے لگا۔ میں سامنے موجود سب انسانوں سے بلند ہوگیا۔ سینکڑوں چھ فٹے انسانوں سے لمبا، گیارہ فٹے جانو سے بھی لمبا۔ میرے سامنے بونوں کا مجمع تھا اور بونوں کا مجمع ابھی تک تالیاں پیٹ رہا تھا، قہقہے لگا رہا تھا۔

Check Also

Taseer Maseehai Ki

By Javed Ayaz Khan