1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Fazaia Ka Sab Se Bara Muamma

Fazaia Ka Sab Se Bara Muamma

فضائیہ کا سب سے بڑا معمہ

یہ مارچ 2014 کی ایک خاموش رات تھی، جب فضاؤں میں بلند ایک جہاز کے کیبن میں ایک پیغام گونجا "گڈ نائٹ"، یہ پیغام کنٹرول ٹاور سے بھیجا گیا تھا، جس کے جواب میں جہاز کے سینئر کپتان کے الفاظ تھے، "گڈ نائٹ MAS 370"۔ مگر کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ رات ان کیلئے بالکل اچھی ثابت نہیں ہونے والی ہے۔ وہ 227 مسافر اور 12 کریو ممبرز یقیناً آنے والی رات کی تاریکی اور قیامت خیزی سے انجان تھے۔

یہ ذکر ہے ملائشین طیارے ایم ایچ 370 کا اور تاریخ ہے 8 مارچ 2014، اس طیارے کو دو پائلٹ 53 سالہ ظہاری احمد اور 27 سالہ فارخ عبد الحمید چلا رہے تھے جس میں چودہ مختلف اقوام کے 227 مسافر اور عملے کے 12 افراد سوار تھے۔ طیارے نے کوالالمپور ائیرپورٹ سے اڑان بھری اور چین کے شہر بیجنگ کی طرف عازم سفر ہوا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد رات 12 بج کر 42 منٹ پر طیارہ ساؤتھ چائنا کی سمندری حدود کے اوپر پرواز کر رہا ہے، اچانک ائیر ٹریفک کنٹرول کے ریڈار سے طیارہ مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے جبکہ کچھ ملٹری ریڈارز پر ابھی بھی اس کے سگنل نظر آ رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اچانک طیارہ اپنی منزل سے 180کے زاویے پر مڑ چکا ہے اور اب مالے پننسولا کی طرف جا رہا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز تمام ریڈارز سے غائب ہو چکا ہے اور ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے جہاز کو مسافروں سمیت آسمان نگل گیا ہو۔

شروع شروع میں کسی نے غور نہیں کیا مگر جلد ہی ویت نامی ایئر ٹریفک کنٹرول نے ملائشیا کو جہاز کی گمشدگی کے بارے میں مطلع کیا۔ کچھ وجوہات یا لاپرواہی کی بنا پر سرچ آپریشن قدرے تاخیر یعنی چار گھنٹے بعد شروع کیا گیا اور جلد ہی یہ سرچ آپریشن دنیا کا طویل اور مہنگا ترین سرچ آپریشن بن گیا جس میں سات ملکوں کے 34 بحری بیڑوں اور 28 طیاروں نے حصہ لیا۔ ابتدا میں تلاش کا کام چین کی سمندری حدود میں جاری رہا لیکن چار دن بعد ایک ملٹری ریڈار نے ایک حیرت انگیز خبر دی۔

اس ریڈار کے مطابق گمشدہ جہاز کی آخری لوکیشن چائنا سی نہیں بلکہ نکوبار اور انڈیمان کے جزائر کے آس پاس ہے۔ کچھ دن بعد سیٹلائٹ کے ذریعے ایک طویل خطے کی نشاندہی کی گئی جہاں ممکنہ طور پر جہاز گم ہوا ہوگا مگر یہ خطہ اتنا طویل تھا کہ اس کی مکمل تلاشی ممکن نہیں تھی لہٰذا سائنسدانوں اور تحقیق کاروں نے ایک مختصر حصہ دریافت کیا جہاں گمشدگی کے امکانات سب سے زیادہ ہو سکتے تھے۔

یہ خطہ آسٹریلیا کے مغربی جانب 2000 کلومیٹر سمندر میں واقع تھا اور اسے سیونتھ آرک (The seventh Arc) کا نام دیا گیا۔ بعد اذاں اس خطے پر تلاش جاری رہی مگر تمام کوششیں ناکام رہیں اور بالآخر اپریل 2014 تک سطح سمندر پر تلاش کا کام روک کر سمندر کی تہہ میں تلاش شروع کی گئی جو کہ طویل عرصے تک جاری رہی مگر وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔

تین سال گزر چکے تھے، 160 ملین ڈالر خرچ کرنے کے بعد یہ سعی لاحاصل بند کر دی گئی تھی کہ جولائی 2015 میں ری یونین کے ساحلوں پہ گمشدہ جہاز کا ایک ٹکڑا تیرتا ہوا ملا۔ اس کے بعد ایک جدید آلات سے لیس امریکن کمپنی اوشین انفینٹی نے دوبارہ ملائشیا کو بلامعاوضہ تلاش کی خدمات پیش کیں کہ معاوضہ صرف ملبہ تلاش کرنے کی صورت میں وصول کیا جائے گا۔ لیکن کچھ ماہ کی تلاش کے بعد وہ بھی نامراد ٹھہرے۔

اس تمام عرصے کے دوران ملائشیا کی پولیس اور ادارے اپنے طور پر تحقیقات کرتے رہے اور ان تحقیقات کے نتیجے میں انہوں نے تین ممکنہ نظریات پیش کیئے جو کہ کچھ یوں تھے۔

1۔ کپتان کے عزائم

2۔ ہائی جیکنگ یا طیارے کا اغواء

3۔ کیبن میں آکسیجن کی کمی یا کوئی حادثہ

ان تینوں امکانات کو یوں بیان کیا گیا:

1۔ کپتان کے عزائم

اس تھیوری کے مطابق جہاز کے غائب ہونے میں سینیئر کپتان ظہاری احمد کا ہاتھ تھا۔ کہا گیا کہ کپتان نے ٹرانسپونڈر خود ہی بند کر کے رابطے منقطع کر دیے اور جہاز کو سمندر میں جا گرایا اس کی ممکنہ وجہ اس کی خودکشی کی کوشش ہوسکتی ہے۔ جبکہ جہاز کا ایک دم یو ٹرن لے لینا بھی اسی امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کپتان کا ہی کام ہے کیونکہ جہاز کا آٹو پائلٹ خود سے یو ٹرن لے ہی نہیں سکتا تھا۔

دوسری جانب ظہاری احمد کے گھر سے بھی ثبوت ملا کہ وہ ایک گیم کھیلتے ہوئے اسی قسم کا راستہ بنا رہے تھے جس پر بعد میں جہاز گم ہوا مگر اتنے واضح ثبوتوں کے باوجود اس تھیوری کو رد کر دیا گیا کیونکہ کپتان ظہاری کا ریکارڈ انہیں ایک انتہائی ذمہ دار، سمجھدار اور پروفیشنل پائلٹ ثابت کرتا ہے جنہوں نے ماضی میں کبھی ایسی کوئی غلطی یا مشکوک حرکت نہیں کی جو انہیں قصور وار قرار دے سکے۔ اسی بنا پر اس تھیوری پر بہت ہی کم اعتبار کیا جاتا ہے۔

2۔ ہائی جیکنگ /طیارہ اغواء

دوسری ممکنہ تھیوری کے تحت طیارے کو کچھ مسافروں نے اغوا کرنے کی کوشش کی اور بالآخر طیارہ سمندر میں جا گرا۔ اس تھیوری کی دلیل کے طور پر دو ایرانی مسافروں کا نام لیا گیا جو چوری شدہ پاسپورٹس پر سفر کر رہے تھے اور بیجنگ کے راستے یورپ جانا چاہتے تھے مگر انٹرپول سمیت کچھ دیگر ذرائع نے بھی یہ امکان رد کر دیا کہ ایسا سمجھنا درست نہیں کیونکہ غیر قانونی سفر کے علاوہ ان مسافروں کا دہشت گردی یا ہائی جیکنگ سے متعلقہ کوئی ریکارڈ نہیں مل سکا۔ لہٰذا یہ تھیوری بھی قابل قبول نہیں سمجھی جاتی ہے۔

3۔ آکسیجن کی کمی / طیارہ حادثہ

اس تھیوری کو عمومی طور پر سب سے درست تسلیم کیا جاتا ہے جسکے مطابق طیارے میں ہنگامی آگ، کسی حادثے یا خرابی کے باعث آکسیجن کی کمی واقع ہو گئی اور اس کے نتیجے میں تمام مسافر اور عملے کے افراد بے ہوش ہو گئے جبکہ طیارہ آٹو پائلٹ پر پرواز کرتا رہا بعد ازاں آٹو پائلٹ میں خرابی یا ایندھن کے خاتمے کی بنا پر بالآخر سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ نظریہ حقیقت سے قریب ترین اور قابل قبول ہونے کی بنا پر بڑے پیمانے پر قابل قبول سمجھا گیا۔

کچھ لوگ طیارے کی گمشدگی کے پیچھے بڑی دلچسپ و عجیب وجوہات بھی بیان کرتے آئے مثلاََ ملائشین طیارے پر کسی سیارے کی مخلوق نے حملہ کر دیا، امریکی فوج نے طیارہ مار گرایا اور بعد ازاں معاملہ چھپا لیا گیا، اسی طرح روس پر بھی الزام لگایا گیا کہ وہ طیارے کی لوکیشن سے واقف ہے اور اس معاملے کو جان بوجھ کر چھپایا جا رہا ہے، کچھ افراد نے تو طیارے کی گمشدگی کو ایک نئے برمودا ٹرائی اینگل کا کارنامہ قرار دے دیا۔

لیکن جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بے شمار افواہوں، تھیوریوں، نظریات اور تلاش کے بعد بھی ایم اے ایس 370 کی گمشدگی ایک معمہ ہے کہ آخر اس طیارے کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا اور اس طیارے کا ملبہ مکمل طور پر برآمد کیوں نہیں ہو سکا؟ لیکن امید پہ دنیا قائم ہے اور اسی سال 2022 میں رچرڈ گوڈ فرے ایک نئی امید کے ساتھ ایک نئی ٹیکنالوجی لے آئے ہیں۔

رچرڈ گوڈ فرے کے پیش کردہ انتہائی جدید اور پیچیدہ پروگرامنگ طریقے کے مطابق جہاز کے ملبے کا سراغ لگانا ممکن ہے اور یہ کام وہ ریڈیو شعاؤں کے ذریعے انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے برطانوی سیٹلائٹ اور ریڈیو ویو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام تشکیل دیا ہے جو کسی بھی جہاز کے سگنلز کو پہچان کر اس کا راستہ بتا سکتا ہے لہٰذا گوڈ فرے کے حساب سے طیارے کا ملبہ فی الوقت سیونتھ آرک کے سب سے اوپری حصے کی طرف سمندر کے چار کلومیٹر اندر موجود ہے۔

جیسا کہ یہ حصہ پہلے ہی آسٹریلیا کی جانب سے سرچ کیا جا چکا ہے لیکن گوڈ فرے کا ماننا ہے کہ کچھ حصہ یقینی طور پر تلاش کرنے والی ٹیموں کی نظروں سے اوجھل رہ گیا ہے اور ان کو یقین ہے کہ ان کے بتائے گئے 40 ناٹیکل میل کے اندر اب اگر سرچ آپریشن کیا جائے تو جہاز کی برآمدگی ممکن ہے، گوڈ فرے کی پیشین گوئی کو یہ استدلال بھی مضبوط کرتا ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں میں جہاز کے ملبے کے 27 مختلف ٹکڑے دنیا کے مختلف جزائر سے ملے جو کہ ان کے بتائے گئے خطے سے ممکنہ طور پر بہتے ہوئے آئے ہوں گے۔

کیا مستقبل قریب میں ہم فضائیہ کے اس سب سے بڑے معمے اور راز سے پردہ اٹھا سکیں گے؟ یا حضرت انسان کی عقل اور سائنس اس دور جدید میں بھی اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر ہے؟

Check Also

Chacha Khuwa Makhuwa

By Nusrat Javed