1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Rang Mahal Ke Bezuban Janwar (1)

Rang Mahal Ke Bezuban Janwar (1)

رنگ محل کے بے زبان جانور (1)

وسیع و عریض شاندار کوٹھی، " رنگ محل"، رنگ و نور اور خوشبوؤں، روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ وسیع مرکزی ہال میں سارے مہمان خوش گپیوں میں مصروف مختلف مشروبات سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ پس منظر میں موسیقی کی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔ ایک شاندار دعوت طعام اپنے پورے جوبن پر تھی۔ شہر کے سارے امرا، عمائدین اور معززین اس بڑی تقریب میں مدعو تھے۔ مگر کچھ اور بھی تھا جو اس دعوت کو خاص بنارہا تھا۔ وہ خاص بات تھی اس دعوت کے خاص مہمان اور وہ مہمان تھے خوبصورت اور قیمتی نسل کے پالتو جانور، جو کہ خصوصی طور پر ہر آنے والے کے ساتھ مدعو کیئے گئے تھے۔

میزبان، سیٹھ ایس کے بلگرامی نے مائک تھاما اور اعلان شروع کیا "میرے عزیز مہمانوں ! کچھ ہی دیر میں کھانا چن دیا جائے گا، امید کرتا ہوں کہ آپ تمام خواتین و حضرات بلا تکلف اچھی طرح لطف اندوز ہوں گے، ہمارے خاص مہمانوں کی ضیافت کا علیحدہ سے اہتمام کیا گیا ہے جہاں ہمارے ملازمین ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ عشائیے کے بعد حسبِ وعدہ آپ سب کیلئے ایک خاص سرپرائز ہے، وہی سرپرائز جس کیلئے ہمارے خاص مہمانوں یعنی آپ سب کے پالتو جانوروں کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ شہر میں سیٹھ بلگرامی سے پہلے کسی نے ایسا انوکھا، نادر اور اعلیٰ تحفہ اپنے دوستوں کو نہیں دیا ہوگا۔ رنگ محل کی یہ ضیافت اور پیشکش برسوں یاد رکھی جائے گی۔ "اس اعلان کے ساتھ ہی سیٹھ ایس کے بلگرامی نے ملازمین کو ڈنر شروع کروانے کا اشارہ کردیا۔ تمام مہمانوں میں سنسنی پھیل چکی تھی۔ ایسا کیا تھا جو کھانے کے بعد پیش ہونے جارہا تھا؟ ہر ذہن میں یہی سوال کلبلا رہے تھے۔ کچھ گھڑیاں اور سرکیں کھانا سمٹ چکا تھا، مہمان اب بے صبری سے سرپرائز کے منتظر تھے، آخر کار انتظار ختم ہوا اور سیٹھ بلگرامی اسٹیج پر دوبارہ نمودار ہوئے۔

اس مرتبہ ان کے ہمراہ ایک طویل قامت کا شخص بھی تھا، اس کے جسم پر قیمتی لباس تھا اور ہاتھ میں ایک چھڑی، اس کے کندھے پر ایک خوبصورت طوطا بیٹھا آنکھیں گھما رہا تھا۔ ہال میں گہری خاموشی تھی۔ سب پوری طرح ہمہ تن گوش تھے، سیٹھ بلگرامی کی آواز نے ایک بار پھر فضا کا سکوت توڑا۔ " میرے معزز مہمانانِ گرامی! میرے ساتھ ہیں میرے دوست خلیل حسین! یہ حال ہی میں ایران سے تشریف لائے ہیں۔ اردو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے، مختلف پراسرار علوم سیکھنے، ریاضت اور سفر میں زندگی کے کئی برس کئی ملکوں کا سفر طے کیا ہے۔

آج یہ میری دعوت کے مہمان خصوصی بھی ہیں اور ان کے پاس ہے آپ سب کیلئے ایک نایاب تحفہ، ایک خاص ہنر اور انمول جادو! "سیٹھ بلگرامی کی شاندار کوٹھی، رنگ محل کا مرکزی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اب کے بولنے کی باری خلیل حسین کی تھی، " ہمارے دوستوں کی خدمت میں ہمارا سلام! تمہید کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ یقیناََ آپ سب مہمان اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ یہاں موجود ہیں اور ان سے بے تحاشہ محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ آپ کے گھروں میں ان کو خاندان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ان کے آرام، غذا اور صحت کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے تو کیوں نہ آج ان کو ایک اور پروٹوکول دے دیا جائے؟ کیونکہ یہ بے زبان جانور، اکثر انسانوں سے بڑھ کر آپ کے وفادار، غم خوار اور دوست ہیں تو کیا آپ اپنے دوست کی بولی سننا نہیں چاہیں گے؟ زبان جو محبت کا استعارہ ہے، زبان جو وفا کے شیرے میں تر ہے اور زبان جو پیار اور اپنائیت کے پھول مہکاتی ہے۔ "

" ارے "، " اوہ"، " کیسے ممکن ہے؟"، " کمال ہے "!

ہال میں کئی آوازیں گونجیں۔

" یہ بالکل ممکن ہوگا آج کی شام رنگ محل میں، میں دکھانے جارہا ہوں ایک انوکھا جادو۔ میرے ہاتھ میں موجود یہ چھڑی یہاں موجود ہر جانور کو باری باری چھوئے گی اور اس کے ساتھ ہی اس میں بولنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔ لیکن۔ لیکن۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر مجھے ان سب جانوروں کو جادوئی چھڑی سے دوبارہ چھو کر واپس بے زبانی کی دنیا میں بھیجنا ہوگا، اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ہمیشہ کیلئے یہ صلاحیت حاصل کرجائیں گے اور یقیناََیہ بات پریشان کن ثابت ہوگی، اس کے علاوہ ایک گھنٹے کے بعد میرا اس جادو پر اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ "

خلیل حسین کی بات مکمل ہوچکی تھی۔ ہال پر سکوت طاری تھا۔ گھڑی نے گیارہ کا گھنٹہ بجنے کا اعلان کیا اور سیٹھ بلگرامی نے سب سے پہلے اپنے پالتو کتے شیفری کو آگے کیا۔ خلیل حسین نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے چھڑی شیفری کے جسم سے مس کی، شیفری بھاگ کر سیٹھ بلگرامی کے قدموں میں دم ہلانے لگا اس نے منہ کھولا اور اس کے منہ سے نکلا " شکریہ مالک " حاضرین نے بے ساختہ تالیاں پیٹیں اور داد و تحسین اور حیرت و مسرت بھرے فقرے فضا میں گونجنے لگے۔ خلیل حسین نے خاموشی کا اشارہ کیا اور پھر سے مائک سنبھالا۔

" معزز مہمانوں ! یاد رہے آپ کے پاس فقط ایک گھنٹہ ہے جس میں سے پانچ منٹ گزر چکے ہیں لہٰذا جلد از جلد باری باری کرکے اسٹیج پر اپنے پالتو جانور کے ہمراہ تشریف لائیں اور ایک نئے اور منفرد تجربے سے ہمکنار ہوں" اس اعلان کے ساتھ چند ہی لمحوں میں مسز بلگرامی کی بلی سوشی، معروف صنعتکار شہزاد برکی کا خرگوش فرگو، مسز شہزاد کی برڈ مالا، مشہور سیاسی و سماجی کارکن فضل میر کا کچھوا ٹوٹو، سینئر جج صاحب اکرام علی کا کتا جیکی، معروف اداکارہ و ماڈل زارا کی بلی نینی، نوجوان گلوکار اوشو کا بندر مائیکا اور خود خلیل حسین کے طوطے شالم سمیت کئی جانور اہل زبان ہوچکے تھے۔

پرندوں کو زبان ملنے کی دیر تھی کہ ہال میں شور شرابا برپا ہوگیا۔ ہر شخص اور اس کا پالتو جانور زور زور سے بول رہے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ آخر ایک بار پھر بلگرامی صاحب کو مداخلت کرنی پڑی۔ " معزز مہمانوں سے درخواست ہے کہ صبر سے کام لیں ورنہ اس مختصر وقت میں ہم کسی کو بھی نہیں سن پائیں گے، تو چلیئے سب سے پہلے شیفری آپ کو کچھ سنائیں گے پھر آپ کے جانوروں کی باری آئے گی۔ " یہ اعلان سن کر ہال میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھاگئی۔

شیفری نے دم ہلائی اور گویا ہوا، " میرے مالک سیٹھ ایس کے بلگرامی بہت ہی اچھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں میں مالک سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان کیلئے جان بھی قربان کرنے کو ہر لمحہ تیار رہتا ہوں۔ " شیفری کی گفتگو جاری تھی اور سیٹھ بلگرامی کا سینہ مزید چوڑا ہوگیا تھا۔

" مالک بہت اچھے ہیں مگر جب ان کے اردگرد انتہائی قریبی رشتوں کو بے وفا اور غدار پاتا ہوں تو میں دکھی ہوجاتا ہوں۔ "

اب کے سیٹھ بلگرامی کے ساتھ ساتھ حاضرین محفل بھی چونک اٹھے۔

" مالک کے قریبی دوست، رنگ محل کے کچھ ملازمین اور حد یہ کہ بیگم صاحبہ بھی مالک کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں۔ "

شیفری کے یہ الفاظ کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ سیٹھ بلگرامی خشمگیں نگاہوں سے بیگم کو گھور رہے تھے، ہال میں موجود سیٹھ کے دوست پہلو بدلنے لگے اور بیگم صاحبہ ایک دم کھڑی ہوگئیں ابھی وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ ان کے پہلو سے تیز نسوانی آواز آئی " شیفری تم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے کچھ باتیں بتانا بھول گئے " سب نے آواز کی سمت چونک کر دیکھا۔ یہ تھیں مسز بلگرامی کی لاڈلی بلی سوشی!

سچ تو یہ ہے کہ میری مالکن اپنے شوہر کی رنگین اور بے وفا طبیعت سے ہر لمحہ اداس رہتی ہیں۔ بلگرامی صاحب کی رنگین شاموں اور سنگین راتوں سے وہ ناواقف نہیں ایسے میں وہ اپنے دل کا حال مجھ سے کہتی ہیں اور بہرحال میں انہیں آج سے پہلے تسلی کے دو بول نہیں بول سکی تو وہ اپنے کچھ وفادار ملازمین سے بھی دل کا بوجھ ہلکا کرلیتی ہیں۔ اور۔ "

Check Also

Chacha Khuwa Makhuwa

By Nusrat Javed