1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Rang Mahal Ke Bezuban Janwar (2)

Rang Mahal Ke Bezuban Janwar (2)

رنگ محل کے بے زبان جانور (2)

" اور اس سے دل ہلکا نہیں ہوتا تو شہزاد برکی سے دل لگی کرلیتی ہیں۔ یہی کہنا چاہتی ہو ناں سوشی؟"

شیفری بات کاٹ کر بولا۔

" کیا بکواس ہے یہ؟" جھوٹ ہے یہ "، " یہ الزام ہے ہم پر " ہال میں کئی آوازیں گونجیں۔ مگر اب کے ایک آواز سب کو دبا گئی، یہ آواز تھی شہزاد برکی کے خرگوش فرگو کی۔

" میرے مالک کو بیرون ملک کے دوروں سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ان خرافات میں پڑیں۔ مالک ہر وقت ہی اندرون اور بیرون ملک مصروف رہتے ہیں۔ "

مسز شہزاد کی برڈ مالا نے فوراً بات کاٹی، "مصروف تو خیر شہزاد سر بہت ہوتے ہیں مگر اندرون اور بیرون ملک نجی مصروفیات کی بھی کمی نہیں ان کا ذکر مناسب نہیں سمجھتی مگر ان گناہگار آنکھوں نے کیا کیا نہیں دیکھا بیچاری مالکن صاحبہ سدا کی وفادار اور غمخوار۔ "

ہال میں تناؤ کی کیفیت طاری تھی۔ سیٹھ بلگرامی، مسز بلگرامی، شہزاد برکی، مسز شہزاد سب ایک دوسرے کو کھا جانے والی نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ حاضرین محفل میں کچھ پریشان تھے اور کچھ محظوظ ہورہے تھے۔ اتنے میں سیاسی، سماجی کارکن فضل میر کا کچھوا ٹوٹو رینگتے ہوئے سامنے آیا، خول سے سر نکالا اور آہستہ آہستہ گویا ہوا، " مسز شہزاد کی مالا جپتے جپتے مالا صاحبہ بھول گئیں کہ پچھلے ہفتے کٹی پارٹی (kitty party) میں مسز شہزاد نے غم غلط کرنے کو اتنے جام چڑھائے کہ مدہوش ہوکر آپے سے باہر ہوگئیں اور بمشکل ملازمین نے سنبھال کر گاڑی میں گھر پہنچایا۔

مگر ہمارے فضل میر صاحب کی بیگم صاحبہ کی پارٹی کے رنگ میں بھنگ ڈال ہی گئیں" ٹو ٹو کی بات سن کر ہال میں کئی قہقہے گونج اٹھے، جانوروں کے قہقہے انسانوں سے بلند تر تھے۔ اب شرمندگی، خفت، غصے سے مسز شہزاد کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ اب نینی کیوں پیچھے رہتی وہ تو ویسے بھی نخریلی ماڈل زارا کی بلی تھی سو اتراتے ہوئے بولی۔ " فضل میر صاحب کا تو خیر ذکر ہی کیا، سیاسی سماجی خدمات کا تو نہیں پتہ، مالکن زارا جی کی خدمت میں کسی طرح پیچھے نہیں رہتے، آئے دن کی کالز، ملاقاتوں، اور تقاضوں سے تو زارا جی کا ناک میں دم ہی کیا ہوا ہے۔

" فضل میر کے چہرے پر تاریک سایہ آکر گزر گیا، دوسری طرف زارا شان بے نیازی سے بیٹھی نینی کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ مسز فضل میر غضبناک ہوکر شوہر کو گھور رہی تھیں۔ اسی لمحے گلوکار اوشو کا بندر مائیکا قلابازی لگا کر سیدھا اسٹیج تک جاپہنچا، مائک تھامتے ہی کھل کر ہنسا، " زارا جی کی ایسی کی تیسی! خود پیسوں کیلئے کچھ بھی کرجائیں، کسی بھی لولے، حبشی، موٹے کے ساتھ روانہ ہوجائیں اور اوشو نے چھیڑ دیا تو ہراسانی کا الزام، واہ صدقے۔ آخر اسکینڈل کا تڑکہ بھی تو کیرئیر کیلئے ضروری ہے، وہ کیا ہے ناں کہ:

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام؟

بدنام اگر ہوں گے تو کیا؟ نام نہ ہوگا دراصل مجھے بھی اوشو کے ساتھ رہ رہ کر گلوکاری اور شاعری سے شغف ہوگیا ہے۔ ہی ہی ہی۔ " مائیکا اوشو کی طرح ہی شوخا معلوم ہوتا تھا۔ مائیکا کی بات سن کر ہال ایک بار پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔ زارا غصے سے لال بھبھوکا ہورہی تھی۔ قریب تھا کہ وہ واک آؤٹ کرجاتی اچانک اس کی بلی نینی بول اٹھی، " زارا پر لگائے گئے الزام میں کتنی حقیقت ہے؟ یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔ اوشو اور مائیکا جیسے بندر نہیں"۔ " ادھر عدالت کا ذکر سنتے ہی جج صاحب کے کتے جیکی نے جست لگائی اور تیز آواز میں بھونکا، " آرڈر، آرڈر، میرے مالک جیسے سینئر جج کی موجودگی میں اتنا شور کیوں برپا ہے؟

الزامات کی سیاست نہیں چلے گی۔ اپنے اپنے الزامات کے ساتھ ثبوت بھی لائیں۔ عدالت کا در کھٹکھٹائیں۔ " شہزاد برکی کا خرگوش فرگو اس سے زیادہ برداشت نہ کرسکا، " اور سنو! کل ہی خبروں میں سنا کہ ان ہی جج صاحب نے فضل میر کو سرکاری فنڈ میں خرد برد کے الزام سے باعزت بری کیا ہے، ہمارے بھی کانوں میں سب کے کرتوت پڑتے رہتے ہیں۔ جج صاحب بھی بکاؤ ہیں، کیسا انصاف کہاں کا انصاف؟ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ " جج صاحب نے اس بات کا فوری نوٹس لیا اور شہزاد برکی کو سخت وارننگ دے دی، " برکی تمہارے اور اس ناہنجار خرگوش کے اوپر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوگا، تمہارا پالتو تمہاری زبان بول رہا ہے۔

" شہزاد برکی اس افتاد سے گھبرا گئے۔ شیفری نے کان ہلاتے ہوئے تبصرہ کیا، " جنگل کا قانون۔ " سب جانور تائید میں چلائے، " جنگل کا قانون، جنگل کا قانون، جنگل کا قانون " سیٹھ بلگرامی نے گھبرا کر خلیل حسین کی طرف دیکھا، " خلیل! بند کرواؤ یہ سب، میری ضیافت برباد کرکے رکھ دی، اچھا تماشہ لگادیا یہاں" خلیل حسین کے کندھے پر بیٹھا طوطا شالم جھٹ بولا " اب کیوں ٹیں ٹیں کر رہے ہو؟ سب تمہاری مرضی اور خواہش کے مطابق ہوا ہے، یہ تماشہ، نام، شہرت تمہاری ہی خواہش تھی۔ مالک کی نہیں !

" مسز بلگرامی کی سوشی نے بھی جھٹ جواب دیا، " تمہارے مالک خلیل حسین نے بھاری منہ مانگی رقم لی ہے اس سب تماشے کی، مفت نہیں کیا سب، اور یہ پراسرار علوم سیکھنے کیلئے کئی گھناؤنے اور کریہہ افعال انجام دیئے ہوں گے۔ "اب ہال میں کان پڑی آواز نہیں آرہی تھی، گھمسان کا رن پڑگیا تھا، تناؤ کی کیفیت بڑھتی جارہی تھی، بے زبان جانوروں کی لگائی گئی آگ میں سب تپ رہے تھے، وہ بری طرح جھگڑ رہے تھے، الزامات، دشنام اور لفظی گولہ باری سے رنگ محل مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا تھا، سب مہمانوں کے جانور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر آگ کو ہوا دے رہے تھے۔

کچھ لوگوں نے گھبرا کر باہر کھسکنے میں عافیت جانی، اچانک سیٹھ بلگرامی مائک پر چلایا، " گارڈز "، مین گیٹ سمیت کوٹھی کے سب دروازے بند کر دو، کوئی باہر نہ جانے پائے "، کئی گارڈز چاروں طرف پھیل گئے، کچھ مرکزی ہال میں بھاگتے ہوئے آگئے، سیٹھ بلگرامی نے ایک گارڈ سے گن چھینی اور مہمانوں کی طرف تان لی، " کوئی یہاں سے ہلے گا نہیں، جب تک کہ یہ جانور ان رازوں کے ساتھ ہمیشہ کیلئے خاموش نہیں ہوجاتے۔ خلیل فوراً اپنی چھڑی ہر جانور سے چھوتے جاؤ ورنہ میں گولی چلادوں گا، خلیل حسین ہڑبڑاہٹ میں آگے بڑھا شیفری نے جھٹ ٹانگ آگے اڑائی اور خلیل رپٹ کر نیچے گر پڑا۔

اس کے ہاتھ میں موجود جادوئی چھڑی دور جاگری جسے چشم زدن میں مائیکا بندر نے دبوچا اور قلابازیاں کھاتا ہوا باہر لان میں بھاگ گیا، دیکھتے ہی دیکھتے سارے جانور اور پرندے اس کی تقلید میں باہر کی طرف بھاگ اٹھے، " فائر، روکو انہیں" سیٹھ بلگرامی چلایا، گارڈز نے گنیں تانیں، ہال میں موجود کتوں نے گارڈز پر چھلانگیں لگائیں اور بیشتر ہتھیار گر گئے، فضا میں کئی بے سمت فائر گونج اٹھے چند انسانی چیخیں بلند ہوئیں اور اسی وقت گھڑی نے بارہ کا گھنٹہ بجنے کا اعلان کیا، ایک گھنٹہ ہوچکا تھا، جانوروں کو دی گئی زبان مستقل ہوگئی تھی۔ باہر پولیس کے سائرن گونج اٹھے، کسی نے پولیس کو اطلاع کردی تھی۔

جانور اور پرندے مختلف روزنوں، کھڑکیوں، اور دیواروں کو پھلانگ کر جادوئی چھڑی سمیت فرار ہوچکے تھے، کیسی وفا کہاں کا خلوص؟ وہ اب انسان کے بے زبان غلام تھوڑا ہی نہ تھے۔ حتیٰ کہ ٹوٹو کچھوا بھی ایک تنگ راستے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا، مائیکا بندر نے جانوروں کی قیادت سنبھالی اور راستے میں ملنے والے ہر جانور کو چھڑی سے چھوتا چلا گیا، نتیجتاً کئی جانور بولنے پر قادر ہوتے گئے۔ آج ان کے پاس زبان تھی، زبان جس کی بنیاد پر انسان دنیا کا بلاشرکت غیرے حکمران ہے، زبان جو دنیا کی تمام جنگوں، فساد، لڑائیوں، قتل و غارت کی بنیاد ہے، زبان جو چاہے تو تخت و تاج الٹ دے، کون جانے رنگ محل کے بے زبان جانوروں کو ملنے والی زبان میں کتنے نئے شر چھپے تھے؟

Check Also

Jhootay Roop Ke Darshan Se Bin Bas Tak

By Amir Khakwani