1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Yaad e Mazi Aur Qanutiat

Yaad e Mazi Aur Qanutiat

یاد ماضی اور قنوطیت

یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں

جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے

پرسوں ایک گروپ پر دور طالب علمی کی تصویر کیا دیکھی یادوں کی برسات ہی ہو گئی۔ عرصہ ہو گیا ٹائم ٹریول پر فکشن، ناول، ڈرامے، فلمیں، ڈاکیومنٹری دیکھتے مگر حضرت انسان کا یہ خواب آج تک پورا نہ ہو سکا اور جو ہو جاتا تو کتنے ہی لمحے اور کتنے ہی رشتے ہیں جنہیں میں جینا چاہوں اور کتنے ہی فیصلوں کو بدل ڈالوں، اور کتنی غلطیوں کا ازالہ کروں کہ ہم جیسے تو شاید ماضی میں ہی بھٹکتے رہیں مستقبل میں جانے کی تو کوئی خواہش ہی نہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہر گزرتا لمحہ ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے اور ہر لمحے ہم مستقبل میں داخل ہو رہے ہیں مگر یاد ماضی ہی آتا ہے یا اندیشے مستقبل کے ہی ستاتے ہیں حال کوئی نہیں جیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم عمومی طور پر ایک حال بیزار اور قنوطی قوم ہیں۔ شفیق الرحمٰن اپنی مجموعے "لہریں " میں لکھتے ہیں۔

"بہت سے حضرات موسم پر پیچ و تاب کھا کھا کر بیزار رہتے ہیں۔ کسی گرم دن میں لوگ گرمی کو خوب کوستے ہیں اور کسی برسات کے دن کو یاد کرتے ہیں کہ آ ہا ہا ہا، کیسا ٹھنڈا اور سہانا دن تھا۔ اور برسات کے دن وہی حضرت بادلوں کو کوس رہے ہوں گے کہ کس مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ صبح سے ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ، جہاں ہاتھ لگاؤ گیلا ہی گیلا ہے۔ سورج نکلے تو کچھ فرق پڑے۔ سردیوں میں گرمیوں کا فراق ستاتا ہے۔ گرمیوں میں سردیوں کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔

جس روز بے کار ہوں اس روز کام یاد آتا ہے اور جب کام کر رہے ہوں تو بے کار رہنے کیلئے دل مچلتا ہے۔ کسی بات سے بھی تسلی نہیں ہوتی۔ فرمائیں گے "وہ شام کیسی اچھی تھی۔ ہائے کتنی پیاری تھی وہ شام "پوچھیئے" کون سی شام؟ اور اس میں کیا تھا؟" جواب دیں گے۔ "پچھلے سال جنوری کی ایک سہانی شام جب ہمیں ایک خوبصورت ترین غروب آفتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ " آج بھی ویسی ہی شام ہے نہایت دلفریب غروب آفتاب ہے۔

اس شام ہرگز لطف نہ اٹھایا جائے گا اور اگر کبھی ذکر بھی ہوا تو وہ آج سے دو ایک سال بعد ہو گا۔ چونکہ جنوری کی وہ شام گزر چکی ہے۔ اس لئے وہی اچھی تھی۔ " تو بات یہی ہے کہ دور طالب علمی کیونکہ گزر چکا ہے اسلئے وہی اچھا تھا۔ حالانکہ اس وقت پڑھائی، اسائنمنٹ، لیکچرز، نوٹس اور امتحان سے بیزار رہا کرتے اور سوچتے کہ کب ڈگری مکمل ہو اور ہم بھی آزاد ہوں۔ اب اور طرح کی ذمہ داریاں ہیں اور ان سے بھی بیزاری کا فریضہ اور یاد ماضی پورے زور و شور سے جاری ہے۔

مجھے دوسروں کا نہیں پتہ لیکن ماضی کے بارے میں بات کر کے مجھے اچھا بھی لگتا ہے اور برا بھی۔ یادیں جو غمگین کر دیتی ہیں، یادیں جو مسرور کر دیتی ہیں۔ ہے تو قنوطیت لیکن ہے۔ بات ہماری قنوطی اور بیزار طبیعت کی ہو اور قلم اس کی زد سے بچ جائے ایسا کیسے ممکن ہے، ادھر موڈ خراب ادھر جھٹ ایک غمگین تحریر لکھ ڈالی اور سچ پوچھیں تو اس مرتبہ بھی ہمارا ایسا ہی ارادہ تھا لیکن پھر شفیق الرحمٰن ہی یاد آئے جو اسی مضمون میں کہہ رہے ہیں۔

"ہمارے ادب اور خصوصاً شاعری میں حزنیہ پہلو اس قدر نمایاں ہے کہ اگر ہم اسے قنوطی ادب کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ویسے بھی ہماری زندگی میں رنج کو اس قدر دخل ہے کہ جس روز ہم غمگین نہ ہوں بے چین ہو جاتے ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گناہ کر رہے ہوں اور ہمیں ہنسنے کا کوئی حق نہیں۔ خصوصاً زور زور سے ہنسنے کا۔ اس لئے مسکراہٹ کی بڑی سے بڑی لہر منٹوں میں اتر جاتی ہے ہم پھر اداس ہو جاتے ہیں اور اپنے غمگین خیالات کا سلسلہ بحفاظت وہیں سے شروع کر دیتے ہیں جہاں وہ قطع ہو گیا تھا۔ "

تو بس عزیز قارئین کو مزید بیزار نہیں کریں گے، اور ماضی کی ایک مزے دار بلکہ خطرناک یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی کے زمانے کا ہی قصہ ہے جب ہم کیمسٹری کی لیب میں پریکٹیکل کیا کرتے۔ اس وقت بہت دفعہ کیمیکلز کو برنر پر گرم کرنا ہوتا جب ہی کوئی ری ایکشن ممکن ہو پاتا۔ ایک دفعہ ہم برنر جلائے ٹیسٹ ٹیوب میں کسی مکسچر کو گرم کر رہے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور لیب کوٹ کی آستین نے آگ پکڑ لی۔

ہمیں پتہ لگا تو اپنے واحد آپشن یعنی چیخیں مارنے کا استعمال کیا جبکہ برابر والے طالب علم نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلدی جلدی کتابیں اور چیزیں ہمیں مار مار کر آگ بجھائی۔ خیر آستین میں چند سوراخ ہی ہوئے تھے اور اس نامراد لیب کوٹ کا مقصد ہی یہ ہوا کرتا تھا، یعنی ہماری حفاظت۔ بھلے سخت گرمی میں اسے پہننا عذاب لگے بہرحال تھا وہ کار آمد چیز۔

وہ سارے لیب کے ساتھی، لیکچرز کے دوست، کلاس فیلوز، ڈیپارٹمنٹ کے سینئر، جونیئر جو اس وقت زندگی کا حصہ تھے، اور لگتا تھا ان کے بغیر تو کبھی سانس ہی نہیں آئے گی نہ یہ کبھی گم ہوں گے نہ بچھڑیں گے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جانے سب کہاں کھو گئے یہ سارے چہرے ہی زندگی کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔ بقول شاعر۔

دکھ یہ ہے مرا یوسف و یعقوب کے خالق

وہ لوگ بھی بچھڑے جو بچھڑنے کے نہیں تھے

اے باد ستم خیز تیری خیر کہ تو نے

پنچھی وہ اڑائے ہیں جو اڑنے کے نہیں تھے

اور آخر میں میری تازہ غزل جو کبھی خوشی کبھی غم کا مجموعہ ہے، اس میں ماضی بھی ہے حال بھی اور امید ہے کہ ہر دو طرح کے اشعار آپ کو پسند آئیں گے کیونکہ یادوں سے فرار ممکن ہے نہ مسکان سے انکار۔

وہ ہر گھڑی کے ساتھی یادوں میں رہ گئے

ماضی کے چند لمحے ہاتھوں میں رہ گئے

پہلے تو خیر سے ہم دعوت پہ لیٹ پہنچے

پھر مک گئیں سب بوٹیاں، باتوں میں رہ گئے

روشن تھے خواب سارے اور آہنی ارادے

اب کچھ مدہم سے سپنے راتوں میں رہ گئے

بچوں پہ ہم لٹائیں، کتنا دلار آخر

باتوں سے جو نہ مانیں لاتوں میں رہ گئے

ہنستے ہوئے تھے چہرے آنکھیں تھیں جگمگاتی

وہ سب کھنکتے لہجے سماعتوں میں رہ گئے

سیلفی بنا رہے سب بیگم و صاحب مل کر

چھوہارے تھماتے میاں جی براتوں میں رہ گئے

Check Also

Haadsa Aik Dam Nahi Hota

By Nusrat Javed