Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aleen Sherazi/
  4. Ayamka Saeeda, Shajra e Zindagi

Ayamka Saeeda, Shajra e Zindagi

ایامک سعیدۃ، شجرہِ زندگی

زندگی گویا کوئی خزاں رسیدہ شجر ہے جس کے کسی پتے کے گرنے کا عندیہ سال میں کسی ایک روز دیا جاتا ہے جسے اہلِ دل "سالگرہ" کہتے ہیں۔ یہ روز بتلاتا ہے کہ انسان کِس تیزی سے قبر کے گڑھے کی جانب دوڑتا چلا جارہا ہے۔ انسان کے فکر و تدبر کا سب سے بڑا دِن اُس کا یومِ پیدائش ہے۔۔ سالگرہ یعنی عمرِ طولانی کی خوشی منانےکے ساتھ ساتھ، یہ دیکھنے کا دن کہ وہ مقصد جو اسکی وجہِ تخلیق تھا اُسنے کس حد تک مکمل کیا ہے۔

اگر انسان نے زندگی کے بیس برس گزار دیے اور آج بھی ویسے ہی رموزِ ملکوتی سے بےخبر اندھا اور بہرا ہے جیسے کہ وہ شکمِ مادر سے نکلتے وقت تھا تو گویا اُس نے اپنی ذات کو ضائع کرتے ہوئے اسرارِ حیات کے حُسن کو کھو دیا۔ وہ زندگی جو ایک بار اپنے اصل کی طرف پلٹ گئی تو دوبارہ کبھی نہیں ملنے والی، یہ حق رکھتی ہے کہ اُسے رمزِ عشقِ حقیقی کا ذائقہ چکھایا جائے۔

انسان یہ قیاس کرتاہے کہ شاید زندگی کا طولانی ہونا ہی اُسکی اصل بقا ہے جبکہ دشتِ کربلا میں ششماہے شیرخوار نے یہ ثابت کردیا کہ اگر تم صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو تو پھر کوئی پرواہ نہیں کہ زندگی ایک لمحے کی ہے یا کئی سو سال کی!

زندگی کا گزارا گیا وہ ایک دن جس سے حریت پسندوں کے سردار حسین ابنِ علی کی خوشبو آتی ہو، عمر ابنِ سعد کی طرز پر گزارے گئے ہزار سالوں سے بھاری ہے۔ کیونکہ انسان کی کامیابی زندگی کے دنوں کی گنتی بڑھنے میں نہیں بلکہ "بقاء"میں ہے اور اس بقا کا راستہ خدا کے قانون نافذ کرنے اور بندگانِ خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں ہے۔

شکمِ مادر کے اندھیرے چھوڑ کر روتے ہوئے آسمان کے چھت تلے آنے والے انسان کیلئے زندگی سوا اس کے، کچھ بھی نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا کی مسیحائی کرے اور پھر موت کو ایسا پائے جیسا کہ کوئی عاشق رُخِ معشوق پہ نگاہِ اول ڈالتا ہے یا پھر موت اس بچے کی مثل محبوب ہو جو زانوؤں کے بل گودِ مادر کی جانب لپکتا ہے کیونکہ موت تو کچھ بھی نہیں ہے سوائے ایک منزلِ عشق کے!

بس فرق صرف اتنا ہے کہ مقصد کیلئے مرنے والوں کی موت۔۔ فقط مرنے والوں سے مختلف ہوتی ہے!

Check Also

Jogi Aur Nehru

By Rauf Klasra