1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Wadi Naltar Ka Aik Roza Mutaleati Dora (2)

Wadi Naltar Ka Aik Roza Mutaleati Dora (2)

وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعاتی دورہ (2)

پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت کے پروفیسروں کی یہ ٹیم نلتر زیرو پوائنٹ پہنچ گئی۔ ہم جھیل تک جانا چاہتے تھے مگر قلت وقت اور کچی روڈ کی وجہ سے وہاں جانے سے رہ گئے۔ ہماری ایونٹ منیجمنٹ کمیٹی کی ٹیم پروفیسر فرید اللہ کی سربراہی میں سویرے ہی وہاں پہنچ کر نگرہ میں ڈھیرے ڈال چکی تھی۔ ہم بھی زیرو پوائنٹ سے نگرہ تک پیدل گئے۔

راقم، رحمت اور انتخاب صاحب پہلی فرصت میں نلتر کا سب سے بلند ویوو پوائنٹ نگرہ میں پہنچے اور دیر تک وہی نظارے کرتے رہے۔ جھیلوں کے دائیں بائیں کے حسین مناظر کو بھی یہاں سے دیکھ کر دل کو بہلایا مگر یہ کمبخت کب بہل جاتا ہے۔ نگرہ وویو پوائنٹ میں سنگاپور کی دو سیاح خواتین بھی ایک مقامی گائیڈ کی معیت میں پہنچی ہوئی تھیں۔ خوب انجوائے کررہی تھی۔ یہ لوگ بھی فطرت کے بڑے نشئی ہیں۔

نگرہ سے ہر طرف کا نظارہ کمال کا ہورہا ہے۔ نلتر پائین اور بالا کا ہر مقام واضح نظر نواز ہوتا ہے۔ یہاں 2022 میں بھی آنے کا موقع ملا تھا۔ برادرم مولانا عمر خٹک اور ترکی کے کچھ طلبہ کیساتھ اسی ویوو پوائنٹ میں دیر تک ٹھہرے رہے تھے۔ نلتر بھی بار بار جانا ہے۔ میرے کئی اسٹوڈنٹنس ہیں جو مدعو کرتے ہیں۔ شاید ایک بار اپنے کلاس فیلوز کی ٹیم کیساتھ بھی جانا پڑے جلد۔

نگرہ اور اس کے اطراف میں موجود برفیلی پہاڑیوں، وسیع و عریض سبزہ زاروں اور فطری مقامات نے ہمیں مبہوت کر دیا۔ یہ جگہ واقعی جنت کا ایک ٹکڑا معلوم ہو رہی تھی۔ پروفیسرز نے نگرہ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ وہاں بیٹھ کر سکون محسوس کیا، اور بعض نے تو برف کے ساتھ خوب اٹھکھیلیاں کی۔ برف سے سب سے زیاد لطف غلام عباس، عبداللہ اور رزاق نے اٹھایا۔ میں اور ضیاء ان کی ویڈیو بناتے رہے۔ ارشاد شاہ، رحمت اور انتخاب ہماری اٹھکھیلیوں کو انجوائے کرتے رہے۔ اشتیاق یاد نے سچ کہا کہ بڑھاپے کی دھلیز میں بھی غلام عباس صاحب میں ایک شرارتی نوجوان زندہ ہے۔

فطرت اور قدرت ہمارے وجود کا مرکز ہیں، جو ہمیں خوبصورتی، سکون اور حیرت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ گھنےجنگلات کی سبزیاں، دریاؤں کا روانی، پہاڑوں کی اونچائیاں، اور سمندروں کی گہرائیاں، یہ سب فطرت کے حیران کن عناصر ہیں جو ہماری دنیا کو ایک جادوئی جگہ بناتے ہیں۔ نلتر میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ قدرت کے یہ مناظر نہ صرف آنکھوں کو خوش کرتے ہیں بلکہ ہماری روح کو بھی سکون دیتے ہیں۔ ہم ان سے سیکھتے ہیں کہ زندگی کتنی پیچیدہ اور خوبصورت ہوسکتی ہے۔ فطرت کی یہ شان و شوکت ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی دنیا کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ خوبصورتی آنے والی نسلوں کے لئے بھی برقرار رہ سکے۔

فطرت کے بارے میں اللہ کا پیغام واضح اور جامع ہے۔ قرآن مجید میں، اللہ نے فطرت کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے ذریعے انسان اس کی عظمت، حکمت، اور تخلیقی قوت کو سمجھ سکتا ہے۔ قرآن میں بار بار فطرت کے عناصر جیسے کہ آسمان، زمین، پہاڑ، دریا، درخت، اور جانوروں کی تخلیق کا ذکر آتا ہے تاکہ انسان غور و فکر کرے اور اللہ کی قدرت کو پہچانے۔

فطرت کا مشاہدہ اور اس پر غور کرنا، ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی عظمت کا ادراک عطا کرتا ہے۔ ہمیں فطرت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم اللہ کے پیغام کا احترام کر سکیں اور اس کے تخلیقی کاموں کی حفاظت کر سکیں۔

ہمارے احباب دن بھر نلتر میں فطرت کو قریب سے دیکھتے رہے۔ خوب مشاہدہ کیا۔ اپنے اپنے افکار و علوم سے دیگر کو مستفید کیا۔ اسلام اور سائنس کے آفاقی اصول بھی زیر بحث آئے۔ مختلف مضامین کے اساتذہ تھے جو اپنا اپنا علم شئیر کررہے تھے۔ بہر حال بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

دوپہر کے وقت، سب نے ساتھ میں مل کر، کھیتوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ میں نے نگرہ کے کھیتوں کے ٹاپ سے واپسی پر بہتی ندی کے پانی میں وضو کرکے نماز ظہر ادا کی اور ذرا دیر سے آیا۔ کھانا ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ساتھی دو دو بار پلیٹوں میں گوشت بھر بھر کر کھاچکے تھے۔ ہم نے بھی بچا کچا زہرمار کیا اور قہوہ خوب انجوائے کیا۔ کھانے پینے کے بعد جو کچرا جمع ہوا تھا، ہمارے احباب نے چن چن کر اس کو اٹھا لیا۔ بچی روٹی اور فروٹ کے چھلکے بیچ کھیت جانوروں کو کھلایا۔ ہڈیاں کتوں نے چانٹ لیں۔ یوں جہاں احباب نے فرشی نشست لگائی تھی صاف ستھری کرکے رکھ دیا۔ یہی اس خوبصورت مقام کا تقاضا بھی ہے کہ گندگی نہ پھیلائی جائے، تھوڑا بہت کچرا جمع بھی ہوجائے تو سنبھال کر لے جائیں اور دور کہیں پھینک دیں۔

ہمارے پروفیسر احباب نے کھلے میدان میں ایک محفل سجھا رکھی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ کہانیاں شیئر کیے جارہے تھے۔ ماضی کی حسین یادیں دہرائی جا رہی تھیں۔ لطائف کا زور تھا۔ اچانک غلام عباس صاحب نے ناچنا شروع کیا۔ پھر کیا تھا کہ سب باری باری ناچنے لگے۔ پرنسپل اسلم ندیم صاحب کی گاڑی میں بڑی سی ساونڈ ڈیگ لگی ہوئی تھی اور مختلف مقامی گانے چل رہے تھے۔ ان پر پروفیسر احباب تھرک رہے تھے۔ ہم بھی دور بیٹھیں ان کی پرفارمنس کو دیکھ رہے تھے۔ کبھی قریب ہوکر کسی کے "ناچ شریف" پر تبصرہ مار دیتے۔ واقعی "علمائے ناچو" لگ رہے تھے۔

یہ وہ لمحات تھے جب قدرت کی خوبصورتی نے سب کے دلوں کو چھو لیا تھا۔ قدرت کے حسن میں ہزار رعنائیاں پنہاں ہیں۔ ہم پر یہ رعنائیاں منکشف ہورہی تھیں۔

میں نے ادھر ادھر مقامی لوگوں سے نلتر کے بارے میں مختلف دلچسپ معلومات بھی جمع کیں، جیسے کہ یہاں کے موسمی حالات، مقامی ثقافت، سیاحت، ہوٹل انڈسٹری اور لوگوں کی روزمرہ زندگی، بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئی جن کا کچھ تذکرہ ماقبل کے سطور میں ہوگیا ہے۔

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا، اور شام کا وقت قریب آ گیا۔ پروفیسروں نے واپس گلگت جانے کے لئے تیاریاں شروع کیں، لیکن نلتر کی وادی کی خوبصورتی ان کے دلوں میں ایک انمٹ نقش چھوڑ چکی تھی۔ گروپ فوٹو بنایا جاچکا تھا۔ احباب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی خوب فوٹو گرافی کر لی تھی۔ سلیمی صاحب کی تجویز تھی کہ راستے میں کہیں چائے پی لی جائے۔ اشتیاق یاد اس کی تائید کررہے تھے۔ ہم بھی یہی چاہتے تھے تاہم واپسی پر نومل میں جس ہوٹل میں چائے پی وہ جگہ تو اچھی تھی مگر چائے بہت بے کار۔ وہاں کافی دیر ٹھہرے رہے۔ احباب کے استفسار پر دوسری شادی کے متعلق اپنی تجاویز اور تجربات شئیر کیے۔

پروفیسر احباب گلگت کی طرف واپسی میں جاتے ہوئے خوب خوش گپیاں کررہے تھے، انہوں نے آپس میں وعدہ کیا کہ وہ پھر سے نلتر کی وادی کا دورہ کریں گے، تاکہ قدرت کی اس خوبصورت تخلیق کا مزید لطف اٹھا سکیں۔

یہ ایک ایسا سفر تھا جو ہمیشہ کے لئے ان کے دلوں میں محفوظ رہے گا، اور نلتر کی خوبصورتی نے ان کے دلوں کو محبت اور سکون سے بھر دیا تھا۔ یہ یادیں مرتی نہیں، مرنے کے بعد بھی احباب کو زندہ رکھتی ہیں۔ رفیع صاحب جاتے ہوئے بھی اور واپسی پر بھی سب کو چھیڑ رہے تھے۔ سجی محفل میں بھی کوئی نہ کوئی مزاحیہ جملہ کَس دیتے تھے۔ ویسے وہ سفر میں تنگ نہ کرے اور جگت بازی کا مظاہرہ نہ کرے تو سفر پھیکا سا پڑ جاتا ہے۔ ہمارے ایسے اسفار میں، احباب کی بے تکلفیاں بھی عروج پر ہوتیں ہیں۔ غیر پارلیمانی الفاظ کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے جن پر قدغن نہیں ہوتی۔

وادی نلتر میں سیاحت کو بڑھوا دینے کے لیے چند تجاویز دل میں آرہی ہیں، جو عرض کیے دیتا ہوں۔

انفراسٹرکچر کی بہتری بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے۔ سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ سیاحوں کو آسانی سے نلتر پہنچنے کا موقع مل سکے۔ نلتر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ نیٹکو کے ذمہ داروں کو اس حوالے سے کچھ اچھا کر دکھانا چاہیے۔

نلتر میں ہوٹل انڈسٹری نے قدم جمانا شروع کیا ہے۔ کئی محکموں کے ریسٹ ہاوس بھی ہیں۔ تاہم قیام و طعام کے مزید آپشنز فراہم کیے سکتے ہیں، جیسے کہ ہوٹلز، ریزورٹس، اور کیمپنگ سائٹس۔ موجودہ گیسٹ ہاؤسز اور کیمپنگ سائٹس کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ سستی اور مہنگی دونوں سہولیات موجود ہونی چاہیے تاکہ ہر کوئی نلتر سے لطف اٹھا سکے۔

نلتر کی سیاحت کی ترقی کے لیے بھرپور مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ نلتر کی خوبصورتی کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اشتہاری مہم چلائی جائے۔ اور ابلاغ و اشتہار کے جملہ ذرائع استعمال کیے جائیں۔

سیاحتی معلومات کے مراکز بنائے جائیں جہاں سیاحوں کو مقامی معلومات اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

سیاحوں کو ماحول دوست سیاحت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور ان سے توقع کی جائے کہ وہ اپنے کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ اور گندگی پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔ اپنی گند کے ذریعے فطرت کو نقصان پہنچانا کسی صورت جائز نہیں۔

نلتر کی قدرتی خوبصورتی اور جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ یہ مقامی لوگوں سمیت سیاحوں پر بھی لاگو ہوں۔

سیاحتی سرگرمیوں کی متنوعیت شروع کی جائے۔ سیاحتی سرگرمیوں کی مختلف اقسام متعارف کی جائیں، جیسے کہ ہائیکنگ، راک کلائمبنگ وغیرہ۔

مقامی لوگوں کے ساتھ ثقافتی تجربات کی فراہمی، جیسے کہ مقامی موسیقی، دستکاری، اور کھانوں کا تعارف۔ وغیرہ۔

مقامی آبادی کو سیاحت کے شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بھی سیاحت سے فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی معیشت بہتر بنا سکیں۔

مقامی افراد کو سیاحوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کا سلیقہ سکھانے کے لئے ترتیب دی جائے۔

نلتر میں طبی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں سیاحوں کو فوری مدد مل سکے۔ اور ہمہ وقت کچھ ایمبولینس یہاں موجود ہونے چاہیے۔

سیاحوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے انتظامات کو مضبوط بنایا جائے۔ مقامی لوگوں کی سیکورٹی بھی بہت اہم ہے۔

ان چند تجاویز پر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان و پاکستان غور کرسکتی ہیں۔ اگر ان پر عمل پیرا ہونا شروع کیا گیا تو یہ تجاویز نلتر میں سیاحت کو فروغ دینے اور سیاحوں کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے نہ صرف سیاحوں کو ایک خوشگوار ماحول حاصل ہوگا، بلکہ نلتر اور گلگت بلتستان و پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

ختم شد۔۔

Check Also

Hamare Ewan Aur Hum

By Qasim Asif Jami