Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Meraj/
  4. Nasri Nazm Badnam To Hogi

Nasri Nazm Badnam To Hogi

نثری نظم بدنام تو ہو گی

نثری نظم کو تسلیم نہ کیے جانے کا قضیہ یوں تو بہت پرانا ہے اور اس پر اعتراضات بھی بے پناہ ہیں۔ نثری نظم کو سکہ بند شعرا و ناقدین اور عروضیے اس بنا پر بھی تسلیم نہیں کرتے کہ آج کل نثری نظم کے نام پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ کسی طرح سے شاعری نہیں بنتا۔ نئے نئے لڑکے لڑکیاں وزن سے نابلد ہونے کے سبب آسان رستہ اپناتے ہیں اور نثری نظم کی طرف آ جاتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ نثری نظم بنا زیوارت اور میک آپ کی دلہن ہے جو اپنے موضوع اور کرافٹ سے جمالیات پیدا کرتی ہے۔ نثری پیراگراف کو سطروں میں توڑ توڑ کر لکھ دینے سے شاعری نہیں بنتی۔ انہیں وجوہات کی بنا پت سکہ بند عروضیوں کو اختلاف کا موقع مل جاتا ہے۔

ایک زمانے میں یہ سنا تھا کہ شاعری صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی کیفیت کا نام ہے شاید اب یہ بات متروک ہوگئی ہو لیکن باشعور قاری شاعری کو فن سمجھتا ہے، شاعری کی اپنی جمالیات ہے، نظم پابند ہو یا معرا، آزاد نظم ہو یا نثری نظم وحدت ثاثر، تشبیہ استعارہ، علامت، تلازمہ خیال اور امیجیز کی بنا پر شاعری بنتی ہے۔ نظم کی سطور گندھی ہوئی ہوتی ہیں ہر سطر اور لفظ اپنا جواز رکھتا ہے۔

کسی نوجوان میں اگر شعری potential ہو اور مقصود اس کی صلاحیتوں کو ختم کرنا ہو تو اس کی ہر کچی پکی تحریرکی اس قدر تعریف کریں کہ وہ خود کو حرف آخر سمجھنے لگے اس طرح اس کے سیکھنے کا عمل رک جائے گا اور اس کی تخلیق کا ارتقا ممکن نہیں رہے گا یوں وہ کچھ وقت کے بعد اپنی موت آپ مر جائے گا۔ میں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ گمراہ کرنے کا اس سے آسان طریقہ اور کوئی نہیں۔

آج کل ایک نوجوان کو بہت اٹھایا جا رہا ہے جو اعضائے مخصوصہ کو سطروں میں استعمال کرتا ہے ایسے لفظ چونکا دینے یا توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کی کسی بھی نظم کے مکمل موضوعات کا تعین کرنا بے حد دشوار ہے۔ اعصائے مخصوصہ کا نظم میں استعمال پر کوئی پابندی نہیں لیکن ادب کسی تخیل کا مہذب اظہار ہوتا ہے اس طرح کے لفظوں کو علامتی طور پر اظہار میں لایا جاتا رہا ہے۔

متازع موضوعات پر لکھنا جہاں جرات کا کام ہے وہاں مہارت بھی درکار ہے۔ میں نے اس کی متعدد نظم پڑھیں ہیں اس کی تحریروں میں چند سطریں شاعری اور باقی نثر ہوتی ہیں اور بہت طویل ہوتی ہے۔ اکثرسطریں فالتو اور بلاجواز ہیں۔ وحدت تاثر نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ سطروں سے مختلف معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں لیکن موجموعی طور پر موضوع کا تعین مشکل سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظم کی سخت ایڈیٹنگ کی جائے تو ہو سکتا ہے ان سطروں میں سے کوئی نظم برآمد ہو جائے جو اپنے معنی اور جواز بھی رکھتی ہو۔ ان تحریروں کو مابعد جدید نظمیں کہا جا رہا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ نظم کو پہلے شاعری کے معیار پر پورا اترنا چاہیے، نظم اپنی construction میں نظم بنی بھی ہے کہ نہیں۔ پھر اس نظم پر بات کی جا سکتی ہے کہ یہ جدیدیت کی مظہر ہے یا مابعد جدیدیت کی۔ لایعنی یاوا گوئی کو free sequence of thoughts بھی نہیں کہا جا سکتا اس میں بھی کوئی مرکزہ ہوتا ہے جس کے گرد نظم گھومتی ہے۔ ایک طریقہ broken images کا بھی ہے لیکن اس میں بھی ریاضت درکار ہے۔ کولاج بنا کر بھی نظم لکھی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظم کی جمالیات بدل گئی ہیں نظم نے ڈکشن کا نیا پیراہن پہن لیا ہے کرخت اور غیر شاعرانہ لفظ استعمال کرکے نئی جمالیات پیدا کی جا رہی ہے اس کی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ابھی مقصود یہ نہیں ہے۔

مذکورہ شاعر کے ہاں مجھے ان طریقوں کا استعمال بھی نظر نہیں آیا۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کس بنا پر مابعد جدید شاعر قرار دیا جا رہا ہے؟ اور نظم کا پیمانہ کیا ہے؟ مابعد جدید نظم کی تعریف کا تعین پھر سے کرنا پڑے گا اور مجھ ایسے نظم کے ادنی سے طالب علم کو پھر سے سیکھنا پڑے گا کہ نظم کیا ہوتی ہے؟ اس کی کرافٹ کیا ہوتی ہے؟ ایڈیٹنگ کیا ہوتی؟ انتہائی معذرت کے ساتھ یہ سوال فرنود عالم، سلمان حیدر، سید کاشف رضا، مومنہ وحید سدرہ سحر عمران سے ہے جنھوں نے مذکورہ شاعر کی تعریف میں لکھا ہے۔ کچھ اور لوگوں نے بھی اس کی متنازع نظم پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کا ادب سے تعلق نہیں اس لیے ان سے سوال نہیں بنتا۔

میرے یہ دوست اپنی نظموں میں کوئی سقم نہیں رہنے دیتے یہ اپنی نظم کو تخلیقی فن پارہ بناتے ہیں۔ ان کی نظموں کا زمانہ معترف ہے۔ سلمان حیدر کی نثری اور آزاد نظمیں متنازع موضوعات کو اس قدر خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں کہ نظم سیاسی و سماجی شعور کی زندہ مثال بن جاتیں ہیں۔ متنوع موضوعات پر سید کاشف رضا کی کتاب " محبت کا محل وقوع" مہارت چابک دستی ریاضت سے بھرپور ہے۔

ان نظموں کا تاثر ذہن و دل پر اثر کرتا ہے، طویل عرصہ ہوگیا لیکن مجھے اب بھی اس کا نام یاد ہے حالانکہ میں بہت بھلکڑ ہوں۔ مومنہ وحید کم کم نظم لکھتی ہیں لیکن جو لکھتی ہیں وہ مرقع ہوتا ہے انہیں عصر حاضر کے خلاق نظم نگاری ڈاکٹر وحید احمد کی نصف بہتر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے دونوں کی نظموں میں مماثلت تو نہیں ہوتی لیکن رفاقت سے poetic vibes تو آتی ہیں نا جو برکت کا باعث ہے۔

سدرہ سحر عمران اپنی دو نثری نظموں کی کتابوں کے سبب اپنی تھاک بٹھا چکی ہیں، نظم کی کرافٹ کے سارے tools جانتی ہیں۔ ان دوستوں سے گزارش ہے کہ نوجوان کی حوصلہ افزائی ضرور کریں لیکن اس سے زیادہ اسے نظم کی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ جنگل میں اگی خود رو جھاڑیاں وہ حسن پیدا نہیں کر سکتیں جو باغ میں تراش خراش کے بعد ایک شکل جمال کی علامت بنتی ہے۔ تراش کے عمل میں خراش تو آتی ہے۔ میری یہ سطریں شاید خراش کا عمل ہی ہے لیکن میں صدق دل سے لکھ رہا ہوں۔

Check Also

Samjhota Deed Aur Qanooni Muzmerat Ka Jaiza

By Rehmat Aziz Khan