1.  Home
  2. Blog
  3. Asfar Ayub Khan
  4. Jadeed Sahuliyat Ko Qabool Karen

Jadeed Sahuliyat Ko Qabool Karen

جدید سہولیات کوقبول کریں

کل ہمارے ایک بزرگ ہمارے ہاں تشریف لائے جو ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ ہیں۔ ہمارے حال چال پوچھنے پر وہ پھٹ پڑے اور ملکی نظام کی زبوں حالی کا رونا رونے لگے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پنشن کی وصولی کے لئے جب وہ اپنے دفتر گئے تو باؤ نے انہیں اپنے زندہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ لانے کو کہا۔ ایسے کلرکوں اور باؤوں کی شکل دیکھ کر سر پیٹ لینے کا جی چاہتا ہے، جو ایک جیتے جاگتے انسان سے زندہ ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں جبکہ دنیا آنکھوں کے سکین سے انسان کے آباؤ اجداد کا پتا لگا رہا ہے، کاربن ڈیٹنگ جیسی تکنیک کے استعمال سے کسی بھی تحریر کی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے، بائیو میٹرک سسٹم سے ہر انسان کی شناخت ممکن ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت نسل انسانی کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے اور ہمارا فرسودہ نظام ابھی بھی یونین کونسل کی مہر کا محتاج ہے۔

یہی حال کسی سرکاری نوکری کے حصول کے لئے دی جانے والی درخواست کا ہے۔ تمام تعلیمی اور تجربے کی اسناد کو گریڈ 17 یا اوپر کے افسر سے تصدیق کروانا ضروری ہے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز عمل ہے۔ اکثر لوگوں نے اپنے گھروں میں سرکاری عہدوں کی جعلی مہریں بنا کر دھری ہیں اور وہ دھڑا دھڑ یہ مہریں لگا کر تصدیقات کر رہے ہیں۔

مزید برآں تصدیقی دستاویزات کا مطالبہ کرنے والے کسی ادارے کے پاس تصدیقی مہر کو چیک کرنے کا کوئی میکانزم موجود نہیں۔ نادرہ جیسے جدید ادارے کی موجودگی میں فرسودہ مہروں کی ضرورت ہونا ایک لمحہء فکریہ ہے۔ یہی حال الیکشن کے عمل کا کہ جہاں انیسویں صدی کی طرح بیلٹ پیپر پر مہر ثبت کرنے کا قدیم نظام رائج ہے۔

راقم الحروف نے جب اس مسئلہ کی تحقیق کی تو یہ انکشاف ہوا کہ اس سب خرابی کے ذمہ دار وہ تمام لوگ ہیں جو 1970 سے پہلے اس دنیا میں آئے۔ نئے ہزاریے کی شروعات پر ان تمام لوگوں کی عمریں چالیس کے قریب قریب تھیں لہٰذا انھوں نے کمپیوٹر اور موبائل کی سہولیات ماننے سے انکار کر دیا اور آج تک خود فراموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمارے ملک کے نظام کی خرابی کی جڑ یہ "بابے" ہیں جو نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی نوجوان نسل کے نمائندوں کو کام کرنے دیتے ہیں۔ بہرحال خوشی کی نوید یہ ہے کہ اس زمانے کے بابے زیادہ تر ریٹائر ہو رہے ہیں اور اس دار فانی سے کوچ بھی کر رہے ہیں۔ امید کی یہ کرن بہت روشن ہے کہ آنے والے چند سالوں میں 70 کی دہائی میں پیدا ہونے والے لوگ کلیدی عہدوں پر فائز ہوں گے اور پھر ہمارا وطن دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا اور اصل ایشین ٹائیگر کے مقام کی طرف رواں دواں ہو گا۔

Check Also

Zuban e Haal Se Ye Lucknow Ki Khaak Kehti Hai

By Sanober Nazir