Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Ye Kaisi Jamhuriat Hai?

Ye Kaisi Jamhuriat Hai?

یہ کیسی جمہوریت ہے؟

کئی چینلوں کو دیکھتا ہوں، اخبارات کو دیکھتا ہوں، ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور باقی جگہوں یعنی گلی محلوں اور بازاروں میں لوگوں سے سنتا ہوں۔ ہر کوئی جمہوریت کے حوالے سے باتیں کررہا ہیں۔ جمہوریت کیا ہے یا کسے کہتے ہیں؟

جمہوری حکومت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے کہ جس میں طاقت عوام کو دی جاتی ہے، جو اسے براہ راست یا منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر بولنے کی آزادی، قانون کی حکمرانی، اور انصاف وغیرہ جیسے بہت سے بنیادی اصول شامل ہوتے ہیں۔

اس کا مقصد مجموعی بھلائی کو ترجیح دینا اس کے علاؤہ انسانی حقوق کی حفاظت کرنا اور اس چیز کو یقینی بنانا کہ حکومت عوام کی ضروریات کے لیے ہر وقت ذمہ دار رہیں۔

لیکن ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ ہر جگہ کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے، ہر جگہ کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے، ہر جگہ کے لوگوں کی اپنی ایک آب و ہوا ہوتی ہے اور اس آب و ہوا میں ہر طرح کی چیزیں ایک ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے اگر ہم جمہوریت کے حوالے سے ہم ان علاقوں کا ذکر کریں، ہم ترقی پزیر ممالک کا ذکر کریں تو یہی کہوں گا کہ ان علاقوں میں جمہوریت وہ کامیابی کی علامت نہیں ہے، جمہوریت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔

میں یہی کہوں گا کہ ہمارے جیسے ملکوں کے اندر جمہوریت ایک ایسی بَلا ہے، ایک ایسی بدصورت خاتون ہے جس کو میک کپ کرکے ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہیں اور وہ اتنی حسین بنا دی گئی ہے کہ آج ہم میں سے ہر کوئی اسی خوبصورت خاتون کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اسی جمہوریت کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن جمہوریت کا اصل چہرہ جس طرح میں نے ابھی بتایا کہ انتہائی بدصورت ہے اس کو میک آپ کے ذریعے خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

کیسی جمہوریت کہ جس میں عوام کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں، کیسی جمہوریت کہ جس میں امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے کیسی جمہوریت کہ جہاں پر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو کوئی اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا، کیسی جمہوریت کہ جس میں ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے، کیسی جمہوریت کہ غریب اگر چوری کرتا ہے تو انکی سزا کو ختم کیا جاتا ہے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عدالتیں دکانیں بنی ہوئی ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں مظلوم انصاف مہنگے داموں خرید رہا ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر ظلم کے بنیادی حقوق کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہو، پختونخوا اور بلوچستان سب کے سامنے ہیں یہ کیسی جمہوریت ہے۔

اگر بلوچ مسنگ پرسنز کی بات کریں تو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زیادہ تر افراد لاپتہ ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے بلوچ مائیں اور بہنیں سڑکوں پر ہیں اور اپنے پیاروں کے تصاویر انھوں نے ہاتھوں میں پکڑی ہیں کہتی ہے کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو۔ گزشتہ کئی دنوں سے ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔ کہ بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے گھروں سے نکلی ہیں اور ریاست سے مطالبہ کررہی ہے کہ ہمارے پیاروں کو زندہ سلامت رہا کرو۔

یہ کیسی جمہوریت ہے۔۔

سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ مائیں اور بہنیں روز کبھی پرس کلب کے سامنے تو کبھی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ ان کے جو مطالبات ہیں وہ کیوں پورے نہیں ہوتے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ بلوچستان سے بندوں کو کیوں لاپتہ کیا جاتا ہیں؟

تیسرا سوال لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟

اگر کسی لاپتہ افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟

کیا ساری عمر یہ بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کے لیے سڑکوں پر بیٹھیں گی۔ آخر یہ عدالتیں کس چیز کے لیے ہیں لیکن کسی کو گھر سے یا راستے سے اٹھانا یہ ایک انتہائی غیر قانونی عمل ہے۔ اب جب یہ خواتین گھروں سے نکلتی ہیں اور سڑکوں پر بیٹھتی ہیں اس سے پاکستان کا امیج دنیا میں خراب ہوتا ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں۔ ان سب کو عدالت میں پیش کرنا یہ اس مسلے کا واحد حل ہے۔ آخر یہ مائیں اور بہنیں کب تک سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتی رہے گی۔

پاکستان میں ایک مسٔلہ یہ ہے، میں اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں۔ کہ پاکستان میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر وقت سیاست پر باتیں ہوتی ہیں۔ سیاست پر روزانہ پروگرامز ہوتے ہیں لیکن وہ اس قسم مسائل پر بات نہیں کرتے بہت کم ایسے صحافی ہیں جو اس مسئلہ پر بات کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی میڈیا پر زیادہ تر سیاست پر بات ہوتی ہے۔ اس کے علاؤہ بھی بہت سے ایسے سوشل ایشوز سماجی مسائل ہیں جن پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ میڈیا کا ایک فارمولا ہے جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے۔

یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں کوئی اپنے حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتا، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک صحافی سچ لکھ اور بول نہیں سکتا اور اگر لکھے بھی تو ایڈیٹرز صاحبان اور میڈیا مالکان اشتہارات اور بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے ان صحافیوں کی لکھائی یا باتوں کو مسترد کرتے ہیں وجہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑا ہوتا ہے یعنی بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے وہ بڑے بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے یہ بوٹ ان کے لیے آئینہ ہوتی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ظلم برداشت کررہے ہیں۔ میں ایسی جمہوریت کا اور کیسے تذکرہ کروں مجھے نہیں چاہیے ایسی جمہوریت۔۔

بقولِ ڈاکٹر اعظم

یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر

کبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں

پاکستان میں ہر سیاست دان بوٹ میں اپنا چہرہ کیوں دیکھتا ہے؟ اور بوٹ سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟ آخر اس بوٹ میں ہے کیا ملک کو تو ویسے بھی بوٹ اور سیاستدانوں نے اس جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا کہ ترقی کرنے کی تمنا جو تھوڑی بہت غریب عوام کے دلوں میں تھیں وہ بھی ختم ہوئی۔ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن زلیل ہوتا ہے اور ان صاحبان کے بچے باہر ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اگر سیاست دانوں کی بات کریں تو وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان کی کرپشن عوام کو نظر آتی ہے اور چونکہ بوٹ زور آور ہے تو ان کا کسی کو پتا نہیں چلتا اگر جاگیرداری نظام کی بات کریں تو پاکستانی سیاست میں جاگیرداری نظام بہت عام ہے جس طرح جاگیرداری نظام میں والد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اس کا جانشین ہوتا ہے اسی طرح پاکستانی سیاست میں بھی ہے دادا کے بعد بیٹا بیٹے کے بعد پوتا اور اس طرح سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان حالات میں ملک و قوم ترقی نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے پاکستان میں شروع سے یہی نظام چلتا آرہا ہے۔

ان سب کے باوجود نظر گل نظر جوکہ ایک سادہ آدمی ہے اخبار بھی حجام کی دکان میں پڑھتا ہے اتنا غریب ہے باقی آپ خود اندازہ لگا لے کہ کتنا سادہ آدمی ہوگا کسی نے اس کو کہا ہے کہ پختون خواہ میں شہد کی نہریں بہیں گی جس نے بھی ان کو یہ بتایا ہے ٹھیک نہیں کیا بیچارہ کافی پریشان ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے عجیب کشمکش میں مبتلا ہے۔

Check Also

Dil Torna Mana Hai?

By Javed Ayaz Khan