1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Bachon Ki Tarbiyat Ke Liye Maar Peet Zaroori Nahi Hai

Bachon Ki Tarbiyat Ke Liye Maar Peet Zaroori Nahi Hai

بچوں کی تربیت کے لیے مار پیٹ ضروری نہیں ہے

بچوں کی تربیت بہت نازک ذمہ داری ہے جس میں انتہائی چھوٹی چھوٹی باتیں شامل ہوتی ہیں جن کو ہم خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے یا نظر انداز کر جاتے ہیں لیکن ان کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ اکژ ہمیں احساس نہیں ہو پاتا کہ کیسے ہمارے الفاظ اور رویے بچوں کی شخصیت پر اپنے نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم بے خبر رہتے ہیں اور اسی بے خبری میں بہتے چلے جاتے ہیں، اس کا ادراک تب ہوتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

کوئی بھی بچہ کچھ بھی سیکھ کر اس دنیا میں نہیں آتا یہ ہم یعنی والدین اور گھر والے ہوتے ہیں جن سے بچہ آنکھ کھولتے ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ بچے کو صبح اٹھانے کے انداز سے لے کر رات کو سلانے تک ہمیں کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر صبح سویرے آپ بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے اٹھائیں اور اس کے برعکس پیار و محبت اور لاڈ کرکے اٹھائیں تو نتیجتاً ان کے رویوں میں فرق صاف نظر آئے گا۔ اٹھ تو وہ دونوں صورتوں میں جائے گا لیکن، پیار و محبت، بوسے اور لاڈ سے اٹھانے پر اس کے اندر احساسِ محبت جنم لے گا۔ وہ خود کو اہم، پرسکون و مکمل محسوس کرے گا اور وہی مثبت وائبز اور انرجی (توانائی) اس کا سارا دن گزارنے میں اس کی مدد کرے گی۔

اس کے برعکس جب ہم بچے کو ڈانٹ کر، غصہ ہو کر چیخ کر، اول فول بول کر اٹھائیں گے تو اس کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خود کو غیر ضروری، غیر اہم اور بوجھ سمجھے گا اور بے دلی، مَرے اور بجھے ہوئے دل کے ساتھ اپنا سارا دن گزارے گا۔ اسی طرح جب ہم بچے کو رات کو سلاتے ہیں وہ انداز بھی اس پر گہرا اثر ڈالتاہے۔ سونے سے پہلے بچے کو تھوڑا وقت اپنے قریب کریں، باتیں کریں، لاڈ اٹھائیں، کوئی کتاب پڑھیں بے شک چند صفحات ہی کیوں نہ پڑھے جائیں یا کوئی کہانی سنائیں۔ اکژ بچوں کو سونے کے اوقات میں دن بھر کی باتیں یاد آتی ہیں تو ان باتوں کو توجہ سے سنیں، پیار کریں اور اتنی اہمیت دیں کہ وہ خود کو اہم محسوس کرے۔

ہم ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں، سفر کی دعا، ربِ زدنی علما اور دیگر دعائیں اور آیتیں پڑھتے ہیں، آیت الکرسی کا دم کرتے ہیں۔ ان دعاؤں سے بچوں پر ایک خاص اثر ہوتا ہے بلکہ ان کے سامنے باآواز بلند پڑھیں اس طرح وہ بھی سیکھ جائیں گے، ان کو بھی پڑھنے کی عادت ہوگی بلکہ ان کو ان آیتوں کا مطلب اور اہمیت سے بھی آگاہ کریں۔ میری والدہ ہم سب بہن بھائیوں پر گھر سے نکلتے وقت آیت الکرسی کا دم کرتی تھیں، ہم کبھی بھی بغیر ان کے دم کے گھر سے نہیں نکلے تھے اور وہی عادت ہم میں بھی آ گئی اور آج ہم اپنے بچوں پر دم کرتے ہیں حتٰی کے گاڑی سے اتارتے وقت ان پر پڑھ کر پھونک مارنا اور جب تک وہ اسکول کے اندر داخل نہ ہو جائیں ان پر آیت الکرسی کا ورد کرتے رہنا ایک خوبصورت روایت بن گیا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

تربیت کرنے کے لیے ڈانٹنا یا مارنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ کچھ دن پہلے ایک گاڑی پاس سے گزری جسے ایک خاتون چلا رہی تھیں ساتھ والی سیٹ پر بچہ بیٹھا تھا اس کی عمر چھ یا سات سال ہوگی۔ وہ خاتون بہت غصے میں تھیں اور چِلا رہی تھیں سگنل پر رکیں تو بچے کو تھپڑ مارنے لگیں۔ یہ دیکھ کر دل مٹھی میں آ گیا۔ سب لوگ ان کو دیکھ رہے تھے بچہ سر جھکا کر مار کھائے جا رہا تھا اور گالیاں بھی سن رہا تھا لیکن ماں کا غصہ تھا کہ کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ جیسے ہم بڑوں کی عزتِ نفس ہوتی ہے بالکل اسی طرح بچوں کی بھی ہوتی ہے وہ بھی ہر بات محسوس کرتے ہیں۔ بچے کو پیار سے بات سمجھائیں، ان کو کبھی بھی لوگوں کے سامنے نصیحتیں نہ کریں نہ ڈانٹ ڈپٹ کریں، مناسب وقت کا انتظار کریں اور محبت سے سکون سے ان کی سطح پر آ کر بات سمجھائیں۔

ایک والدہ تھیں کافی پڑھی لکھی، سمجھدار اور ماڈرن۔ کہنے لگیں میری بڑی بیٹی جو کہ آٹھ سال کی ہے بہت بدتمیز ہوگئی ہے، کوئی بات نہیں مانتی۔ مجھے تجسس ہوا اور پوچھا! اچھا کیا کہتی ہے آپ کی بیٹی۔ کہنے لگیں کہ اب کل کی ہی بات لے لیں میں بہت تھکی ہوئی تھی اور یہ مجھے بہت تنگ کر رہی تھی، میں نے اسے ڈانٹا کہ ابھی مجھ سے بات نہ کرو، دفع ہو جاؤ یہاں سے، اپنی شکل گم کرو، میرا دماغ خراب نہ کرو، فوراً اٹھو یہاں سے اور چلی جاؤ۔ میں ایک ماں کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر گھبرا گئی پھر ہمت کرکے پوچھا کہ آپ کی بیٹی نے جواب میں کچھ کہا یا خاموشی سے چلی گئی؟ وہ خاتون کہنے لگیں کہ میری بیٹی اتنی بدتمیز اور منہ پھٹ ہے آگے سے کہنے لگی کہ جتنا آپ کا گھر ہے اتنا ہی یہ میرا بھی گھر ہے، میں کہیں نہیں جا رہی اگر آپ کو مسئلہ ہے تو آپ چلی جائیں۔ پھر خاتون کہنے لگیں کہ مجھے اس کے جواب پر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا کہ ایک کھینچ کے تھپڑ لگاؤں گی۔ آگے سے بیٹی بولی مار لیں جتنا مارنا ہے کیا کر لیں گی آپ؟ زیادہ سے زیادہ کمرے میں بند کر دیں گی، آپ وہ بھی اپنا شوق پورا کر لیں۔

اس سارے واقعے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے، غلطی کس کی ہے، بچی کی یا ماں کی؟

بچے کو اِس مقام تک پہنچانے والا کون ہے آخر؟ میرے خیال میں یہ والدین کی غلطی ہے جنہوں نے مار پیٹ، گالم گلوچ، نازیبا الفاظ استعمال کیے حتٰی کہ بچے کو سزا کے طور پر کمرے میں بند بھی کیا جس سے بچہ مزید بگڑ گیا، وہ باغی ہوگیا اور اس کے اندر سے ڈر و خوف ختم ہوگیا۔ یعنی اب وہ اس مقام پر آ گیا ہے جہاں اس کو کسی بات سے فرق نہیں پڑتا۔

بچے کی تربیت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ گھر کا ماحول، والدین کا آپس کا تعلق، بات کرنے کا انداز اور دیگر گھر والوں کا آپس میں گفتگو کرنے کا انداز، رویے سب بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس وقت تک شادی نہیں کرنی چاہئیے جب تک لڑکا اور لڑکی اس بات کو سمجھ نہ لیں یا ذہنی طور پر تیار نہ ہوں کہ ان کی ایک فیملی ہوگی، بچے ہوں گے جن کی تربیت کرنا ان کا فرض ہے بلکہ شادی سے پہلے ان کی کونسلنگ ہونی چاہئیے کہ کیسے زندگی گزارنی ہے۔ شادی کوئی مذاق نہیں، نہ ہی گڑیا اور گڈے کا کھیل ہوتا ہے، یہ ذمہ داریوں کا نام ہے، رشتے نبھانے کا نام ہے، خود کو بدلنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں شعور کی کمی ہے، زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھائےہی نہیں جاتے جس کی وجہ سے ہم غلطیاں کرتے ہیں اور ان کا خمیازہ بھی اٹھاتے ہیں۔

جب معلوم ہو کہ بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے تو پھر کونسنگ کی سہولیات لینے میں عار محسوس نہ کیا جائے کہ کیسے اس کی پرورش کرنی ہے، اس کو کیسا ماحول دینا ہے کیونکہ ماں بننے والی بچی خود نا تجربہ کار ہے۔ بچہ پیدا کر لینا کمال نہیں ہے ان کی تربیت کرنا، اچھا انسان بنانا ہی اصل مہارت ہے۔

یاد رہے تربیت صرف ماں نہیں کرتی بلکہ پورا خاندان اس عمل میں شامل ہوتا ہے جس میں والد کا کردار اور گھر کا ماحول سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے وہ خود مشاہدہ کرتا ہے اور سیکھتا ہے۔ وہ وقت کے ساتھ سمجھدار ہوتا چلا جاتا ہے۔

کبھی بھی، کسی بھی صورت میں اپنے بچوں کو مار پیٹ کر نہ سمجھائیں بلکہ پیار و محبت سے پروان چڑھائیں۔ کچھ لوگوں کی یہ ذہنیت ہوتی ہے کہ جب تک بچے کو ماریں گے نہیں وہ سدھرے گا نہیں یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ مارنا کبھی بھی، کسی بھی مسئلے کا حل نہیں رہا۔

اپنے بچوں کی قابلیت پر کبھی شک نہ کریں بلکہ ان کی صلاحیتوں کو بڑھائیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ ان کے ساتھ دوستانہ ماحول قائم کریں گے۔ ان کو اور ان کی باتوں کو اہمیت دیں گے، ان کے کام کو سراہیں گے، تعریف کریں گے۔ ہم بڑے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ہر بار صحیح ہیں۔ کئی معاملات میں ہم اپنے بچوں سے سیکھتے ہیں، کبھی بچوں کو طعنہ نہ دیں، کبھی ان کا کسی سے موازنہ نہ کریں۔ کبھی ان کے سامنے رونا دھونا نہ ڈالیں، غصہ نہ کریں کیونکہ جیسا ہم کرتے ہیں یا مختلف حالات و واقعات میں رویہ اختیار کرتے ہیں، ہمارے بچے وہی لاشعوری طور پر، دانستہ اور نادانستہ طور پر سیکھتے ہیں۔ ان کو حسد کرنے والا نہیں بلکہ دوسروں ک ساتھ مل کر چلنے والا، اپنے ساتھیوں کی کامیابیوں پر خوش ہو کر تالی بجانے والا بنائیں۔

بچوں کی درست سمت میں رہنمائی کریں، ان کو محنت کرنا، فیصلہ لینا اور اس پر ڈٹ جانا سکھائیں، اپنی محبت سے ان کا اعتماد بڑھائیں۔ بچے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں ان کو، ان کی ذہنیت کے مطابق سائیکالوجیکلی ٹریٹ کریں۔ تربیت مار پیٹ کر نہ کریں بلکہ خود مثال بن کر ان کو سکھائیں پھر فرق آپ خود محسوس کریں گے۔ خود کو، اپنی سوچ کو بدلیں اپنے لیے، اپنی اولاد کی تربیت اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے۔

Check Also

Qaumi Zuban Ki Be Hurmati

By Prof. Riffat Mazhar