Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Aye Puttar Hattan Te Nai Vikde

Aye Puttar Hattan Te Nai Vikde

ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے

گئے دنوں کی بات کسی صوبے کے وزیراعلی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہو گئے اور انہیں علم ہوا کہ مخالفین ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے ہیں۔ اس پر ان کے مشیر نے مشورہ کہ تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیں۔ اس پر اُنہوں غصے سے جواب دیا ارے بے وقوف ہم اپنے گھر میں آیا ہوا گائے کا بچہ واپس نہیں کرتے یہ تو وزارت اعلی ہے۔

یہی ہمارے ملک کی بدقسمت حقیقت ہے یہاں پر کوئی بھی دولت، مرتبہ و مقام اپنی مرضی سے چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔ کرسی سے ہر قیمت پر چمٹا رہنا ہماری روایت ہے۔ کوئی سرکاری سیاسی و سماجی عہدیدار اپنی نشستوں سے چمٹا رہتا جب تک اسے ڈانڈا ڈولی کرکے باہر نہ نکالا جائے۔

اس کے برعکس گذشتہ روز پاکستان کی سیاسی روایات میں کچھ انقلابی اقسام کے واقعات پیش آئے جن میں سب سے پہلے جماعت اسلامی کراچی کے امیر اپنے اعلان کردہ جیتی نشست سے یہ کہتے ہوئے دستبرداری کا اعلان کیا کہ درحقیقت ان کے حاصل کردہ ووٹ الیکشن کمیشن کے ظاہر کردہ ووٹوں سے زیادہ ہیں۔ لیکن ان کے مخالف پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ اب سے بھی زیادہ ہیں اور وہی اس نشست کے حقیقی فاتح ہیں۔ اس لئے وہ اپنی نشست سے دستبردار ہوتے ہیں۔

جس معاشرے میں آئی لکشمی، مقام و مرتبہ چاہے آپکا حق ہویانہیں کسی صورت میں نہ چھوڑنے کی روایت اسے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ایک سیاسی زلزلہ کی صورت بن گئی۔ صورتحال یہاں تک پہنچی کہ "طاقتور حلقے" اپنی اس سیاسی رشوت میں ناکامی پر کھسیا کر الیکٹرونکس میڈیا کو یہ ہدایت دینے پر مجبور ہو گئے کہ اس خبر پر مزید گفتگو نہ کرکے اس کی اہمیت کم کردی جائے۔

ابھی اس ذلزلے کے جھٹکے جاری تھے کہ جماعت اسلامی ہے نے ایک اور بم پھوڑا جب یہ اعلان جاری کیا کہ انتخاب میں خاطرخواہ کامیابی ملنے پر ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، اس کے مرکزی امیر جناب سراج الحق نے اپنے عہدے اس استعفیٰ پیش کردیا۔

کیا سراج الحق واقعی ناکام رہے؟

یقینا اس مرتبہ جماعت اسلامی قومی اسمبلئی کی ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن موجودہ حالات میں جب پورے ملک میں پی ٹی آئی کے لہر اور سونامی کے سامنے یہ نتیجہ اتنا پریشان کُن نہیں ہے۔ درحقیقت جماعت اسلامی کے ووٹوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کراچی میں زیادہ تر نشتوں پر جماعت اسلامی ووٹوں کی حقیقی تعداد کے مطابق دوسرے نمبر پر آئی ہے۔

اسی طرح پنجاب کے ان حلقوں جہاں جماعت اسلامی نے حصہ لیا ہے عوامی حمائت میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیڈر شپ ڈیولپمنٹ میں حافظ نعیم جو کراچی ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے تیزی سے قومی افق پر ابھرتے ہوئے ستارے ہیں کی بلند پرواز بھی سراج الحق کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس لحاظ سے انہیں ناکام کہنا مناسب نہیں ہوگا۔

اس لحاظ سے یہ دو استعفیٰ ہمارے معاشرے کی روایات کے لحاظ سے زمین دہلانے والے اقدام تھے۔ جس پر قوم نے مجموعی طور پر تحسین کی ہے۔ لیکن "اُن" کے دربار میں بوکھلاہٹ کا عالم بھی ہے۔

کسی دوسری جماعت کے ایک حامی نے شوشل میڈیا پر اس خواہش یا حسرت کا مظاہرہ کیا کہ کاش ان کی جماعت میں بھی حافظ نعیم جیسے قائدین ہوتے۔ پر میرا صرف اتنا سا تبصرہ ہے۔ کہ اگر حافظ نعیم پی ٹی آئی کراچی کی بھی قیادت کرتے تو اتنے کامیاب نہیں ہو پاتے۔

اس لئے کہ حافظ نعیم کو اس مقام پر پہنچانے میں جماعت اسلامی کے جانثار کارکنان کے مفت شبانہ روز محنتوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔

انہیں یہاں پہنچانے کی قیمت سالہا سال کی مشقتیں و مہمات اور کارکنان کے سالانہ لاکھوں man hours کی انوسٹمنٹ کی صورت میں جماعت اسلامی اور کارکنان نے اداکی ہے۔

یہ ایک ریڈی میں میڈ پروڈکٹ نہیں جو بازار سے خرید کر فوری طور نتائج دکھانا شروع کردے۔ یہی فرق جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں ہے۔ جماعت کارکن و لیڈر بناتی ہے اور دوسری جماعتوں بازار سے off the shelf مال اُٹھاتی ہیں۔

آف دی شیلف پرودکٹ ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔ حسب ضرورت استعمال کی جاتی ہیں پر کہیں نہ کہیں گاڑی رُک جاتی ہے۔

کسٹم میڈ پروڈکٹ میں ڈیولپمنٹ پیریڈ طویل اور صبر آزما ہوتا ہے۔۔ لیکن جب وہ استعمال میں آتی ہے تو وہ صارف کے لئے صد فیصد موزوں وکاآمد ہوتی ہے۔

جماعت اسلامی بازار کا مال نہیں خریدتی۔۔ ان کا ہر لیڈر خانہ ساز اور دہائیوں کی تربیت و قربانیوں کے بعد قیادت کے منصب تک پہنچتا ہے۔

ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے

کی لَبھنی ایں وچ بازار کُڑے

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq