Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Singapore Ka Khazana, Mustaqbil Ki Naslain, Sadarti Intikhab

Singapore Ka Khazana, Mustaqbil Ki Naslain, Sadarti Intikhab

سنگاپور کا خزانہ، مستقبل کی نسلیں، صدارتی انتخاب

یکم ستمبر 2023 کو سنگاپور کے عوام براہ راست انتخابات کے زریعے اپنے نویں صدر کے انتخابات میں اپنے ووٹ ڈالیں گے۔ جن میں اولین چار پارلیمان کے ذریعے منتخب ہوئے اور باقی چار 1993 کے بعد براہ راست صدارتی انتخابات کے ذریعے۔

ویسے تو پارلیمانی جمھوریت میں براہ راست صدارتی انتخابات نہیں ہوتے کیونکہ صدر عموماً پارلیمان منتخب کرتی ہے اور وہ وزیراعظم کا تابع مہمل ہی ہوتا ہے۔ سنگاپور کے پارلیمانی نظام میں بھی یہی صورتحال ہے سوائے ایک فرق کے۔

سنگاپور کا صدر ویسے تو روایتی پارلیمانی نظام کے مطابق وزیراعظم کے جنبش ابرو کے اشارے پر ہی کام کرتا ہے، لیکن سنگاپور میں اسے ایک اہم ترین اختیار ملک کے 2000 ارب ڈالر سے ذائد کے قومی خزانے کی نگران و محافظ کی بھی ہے جس کی منظوری کے بغیر حکومت اس رقم کو چھو بھی نہیں سکتی۔

آزادی کے بعد سے اب تک سنگاپور میں نہ صرف ایک کی جماعت پیپلز ایکشن پارٹی PAP کی حکومت ہے بلکہ کسی بھی انتخابات میں اپوزیشن کی دوچار علامتی نمائندگی ہی ملتی ہے گذشتہ 2020 کے انتخابات میں اپوزیشن نے 12 نشستیں حاصل کی تھیں جو اب تک ان کی بہترین کارکر دگی ہے۔

حکومتی جماعت کے تسلسل سے پارلیمان میں مکمل غلبے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض معاملات پر تھوڑی بہت ناراضگی کے باوجود ان کی مجموعی کارکردگی پر عوامی اعتماد اور عوام میں یہ احساس کہ کسی بھی غلط فیصلے کا نتیجہ اس چھوٹے سے ملک کے لئے تباہ کُن ہو سکتا ہے اس لئے دوران انتخاب میں حکومت پر دباؤ رکھنے کے لئے اپوزیشن کو بعض نشتوں پر احتجاجی ووٹ دینے کے سوا عوام میں حکومت کی تبدیلی کی کوئی خواہش نہیں ہے۔

سنگاپور ترقی یافتہ ملک ضرور ہے لیکن یہ کوئی فلاحی ریاست نہیں ہے۔ یہاں حکومت نے عوام کو بہتر خدمات کے ساتھ ملک کو شاندار ترقی دیکر عوام کا معیار زندگی بہتر بنادیا ہے۔ اس وقت سنگاپور کی فی کس جی ڈی پی 82,808 ڈالر امریکہ سے بھی آگے ہے۔

اس کے ساتھ ہی عوام کو ذہن نشین کردیا ہے کہ ان کی زندگیوں کے لئے حکومت نہیں وہ خود ذمہ دار ہیں۔ حکومت ان کے لئے بہتر مواقعے پیدا کرنے کی کوشش کرسکتی ہے لیکن ہر شھری اپنا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔

اس کے لئے شھریوں کو لازمی پرویڈنٹ فند کی اسکیم کے ذریعے ان کی رہائش، صحت کے اخراجات اور بعد از ریٹائیرمنٹ مستقل آمدنی کا انتظام کیا گیا۔ سنگاپور کی 80 فیصد آبادی اپنے گھروں کی مالک ہے اور شرح بے روزگاری پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ بھی عوام کو ذہن نشین کردیا گیا کہ بعض مغربی ممالک کے فلاحی مملکت کا نظام ملک و قوم کے لئے دیرپا نہیں ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف تو عوام اپنی بنیادی ضروریات میں خود کفالت کے عادی ہو گئے دوسری طرف آمدنی و اخراجات میں مناسب توازن کے ذریعے ملکی خزانے میں اضافہ ہوتا چلا گیا اب اس کی مالیت 2000 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

اس خزانے کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں منافع بخش کاروباروں میں سرمایہ کاری کے لیے سنگاپور حکومت کی دو سرکاری انوسمنٹ کمپنیاں قائم کی ہیں۔ اسوقت سنگاپور کی سرکاری انوسمنٹ کمپنی (GIC) گورنمنٹ آف سنگاپور انوسٹمنٹ کارپوریشن اور ٹیماسک ہولڈنگ اثاثوں کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے اور بارہویں نمبر پر ہیں۔

اس کے باوجود یہاں کی حکمران جماعت میں یہ خوف یا احساس رہتا ہے کہ کبھی کوئی اپوزیشن جماعت اقتدار آنے کی صورت میں اس دو ہزار ارب ڈالر کے محفوظ خزانے کی کا منہ غیر ضروری عوامی فلاحی منصوبوں کے لئے کھول کر نصف صدی کی محنت سے جمع کردہ 2000 ارب ڈالر کے خزانے کو لُٹا نہ دے۔

سنگاپور کے بانی وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے والد جناب لی کوان یو نے ایک بار کہا تھا۔

"میں صرف اس موجودہ نسل کا وزیراعظم نہیں ہوں میری نظر میں عوام کی ترجیحات اہم ہیں، لیکن میں عوام میں صرف موجودہ اکثریت نہیں بلکہ میں آنے والی نسلوں کو شامل کرکے دیکھتا ہوں، یہ حکومتوں کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ عوامی دباؤ کا مقابلہ کرکے ٹیکسوں میں کمی و دیگر فلاحی اقدامات کے جو مستقبل کی نسلوں کے لئے نقصاندہ ہو کی مزاحمت کرے۔ اس لحاظ میرے لئے جمھوریت کا مطلب ایسی حکومت جس کا انتخاب موجودہ و مستقبل کی نسلوں کے لئے کیا گیا ہو"۔

حال ہی میں یہی بات موجودہ وزیراعظم نے بھی مختلف انداز میں کہی: "جتنا بھی ممکن ہو میں یہی انداز و رویہ رکھوں گا کہ اس (خزانے میں) اضافہ کرتا چلا جاؤں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری بہ نسبت مستحکم ہوں"۔

جب ان سے پو چھا گیا کہ کیا انہیں اس محفوظ خزانے کے ختم ہونے کا خوف ہے اس پر انہوں نے کہا: "ایک طرف ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے لیے اتنی زیادہ دولت اکٹھی کی۔۔ دوسری طرف میں چاہتا ہوں کہ اس میں جتنا بھی ممکن ہے اضافہ کرتا چلا جاؤں، کیونکہ اگر یہ (دولت)ایک مرتبہ چلی گئی (خرچ ہوگئی) تو پھر واپس نہیں آئے گی۔

ہمیں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے، یہ ایک باغ عدن ہے، یہ بہت زبردست ہے، خوبصورت ہے۔ آپ کو یہ سنتے ہوئے خوشی نہیں ہوگی پر یاد رکھنا کہ یہ وہ باغ عدن ہے جس سے ایک مرتبہ یہاں سے نکلنے کے دوبارہ واپسی ناممکن ہوگی"۔

(موجودہ) وزیراعظم لی سن لیونگ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سنگاپور کی حکومت نے آئین میں تبدیلی کرکے صدر کو عوامی ووٹوں سے براہ راست منتخب کرانے کا نظام شروع کیا جس میں حکومت کے دیگر معاملات تو وزیراعظم کے اختیار و ذمہ داری ہوں گی لیکن خزانے کی محفوظ دولت پر صدر کا کنٹرول ہوگا۔ تاکہ کسی بھی وزیراعظم کو محفوظ خزانے کے معاملے میں کسی ناعاقبت اندیش فیصلے کو روکا جاسکے۔

پہلا براہ راست صدارتی انتخاب 1993 میں ہوا جس میں حکمران جماعت کے آنگ تینگ چیونگ ایک آزاد اُمید وار کے مقابلے میں 58.69 فیصد ووٹ لیکر جیت گئے گو آزاد اُمید وار کے 41.31 فیصد ووٹ لیکر شکست تو کھائی لیکن ایک لحاظ سے سنگاپور کی حکمران اسٹیبلشمنت کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور تھی کہ بغیر کسی خاص انتخابی مہم چلائے بغیر اتنی بڑی تعداد میں خاموش ووٹروں نے حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا۔

اس کے بعد: 1999 اور 2005 کے انتخابات میں ایس آر ناتھن بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ پھر 2011 چار امید واروں میں حکمران جماعت کے ٹونی تان 35.2 فیصد لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں قریب ترین اُمیدوار تان چینگ بوک نے 34.84 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اور تان جی سے نے 25.04 فیصد ووٹ مجموعی طور پر 64.8 فیصد ووٹ حکمران جماعت کے خلاف پڑا۔

حلیمہ یعقوب 2017 میں بلا مقابلہ منتخب ہوئیں اور اب ان کی مدت صدارت اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ جہاں تک صدارتی انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والی "بدعت" کی بات ہے کہ چونکہ سنگاپور کے صدر کی بنیادی ذمہ داری سنگاپور کے محفوظ خزانے کی حفاظت ہے کہ اس لئے ممکنہ صدر کے انتخاب میں شرکت کی اہلیت کے لیے انتہائی سخت شرائط ہیں جن پر 99 فیصد آبادی پوری اتر ہی نہیں سکتی جن میں:

1.دیانت دار، اچھی شھرت، اعلیٰ کردار کا حامل

2.کسی سیاسی جماعت کا ممبر نہ ہو (صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے قبل اپنی جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے چُکا ہو)۔

3.کسی بھی اعلیٰ ترین سرکاری و سیاسی عہدے پر کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہو۔

4.کسی بھی اعلیٰ ترین سرکاری و سرکاری بورڈ یا قومی تجارتی کمپنی کی سربراہی کا کم ازکم تجربہ۔

5.نجی شعبے کے تجربے کار کے لئے کسی ایسی کمپنی کا چیف ایگزیکیٹو ہو جو مسلسل حالیہ تین سالوں تک امنافع بخش بھی ہو جس کا کم از کم سرمایہ 500 ملین ڈالر ہو۔

چونکہ سنگاپور کی آزادی کے بعد سے اب تک ایک ہی جماعت کی حکمرانی رہی ہے اس لیے ابتدائی چار شرائط پر پورا اترنے کے لئے سوائے اسٹیبلشمنٹ کے اُمید واروں کے کسی باہر کے شخص کے صدارتی انتخاب میں شرکت کے پُل صراط سے گذرنے کا امکان ہی نہیں رہتا ہے۔ اور نجی شعبے میں گنتی کی چند کمپنیاں ہی 500 ملین ڈالر کے سرمائے ہوں گی جن کے چیف ایگزیکٹو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں۔

یقینا سنگاپور میں حکمران جماعت کے مکمل کنٹرول کے باعث حکومت عوام کو کڑوی ادویات باآسانی پلاتی رہتی ہے لیکن اس وجہ سے عوامی ناراضگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ جس کا اظہار اب تک دو بامقابلہ صدارتی انتخابات میں کیا بھی گیا۔

بعض معاملات میں حکومت سے ناراضگی کے باوجود عوام کو اس بات کا ادارک بھی ہے کہ سنگاپور کی ترقی و کامیابی میں اس حکومت کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان میں حکومت کو گھر بھیجنے کی خواہش بالکل نہیں ہے حسب ضرورت ناراضگی کے اظہار کے لئے احتجاجی ووٹ دینا منظور ہوتا ہے۔ اس کے لیے پارلیمانی انتخابات کی بجائے صدارتی انتخابات واحد موقع ہے جہاں عوام اپنے غصے کا اظہار بغیر حکومتی تبدیلی کے کرسکتے ہیں۔ گذشتہ دونوں صدارتی انتخابات میں سرکاری حمایت یافتہ اُمیدوار کی معمولی فرق سے کامیابی بھی اس ناراضی کی اظہار ہے۔

سنگاپور کے سیاست میں نسلی اثرات

ویسے تو سنگاپور کی 75 فیصد سے زائد آبادی چینی النسل ہے لیکن اس کے علاوہ تامل (انڈین) 7.5 فیصد اور ملائی 15 فیصد اقلیتیں بھی موجود ہیں لیکن براہ راست انتخابات میں کسی بھی اقلیتی نسل کے فرد کا جیتنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔

اس لیے اقلیتوں کے سنگاپور پارلیمان میں داخلے کو آسان بنانے کے لئے GRC (گروپ ری پرینٹٹو سسٹم) جس کے تحت 17 بڑے حلقے میں میں چار سے لیکر آٹھ اُمیدواروں گروپ یا پینل کی صورت میں انتخاب لڑتے ہیں اور اس پینل میں کم از کم ایک اقلیتی اُمیدوار لازمی ہوتا ہے۔ GRC حلقوں میں بجائے انفرادی امید وار کے پورا پینل جیتتا اور ہارتا ہے۔

عموماً GRC سسٹم کا فائدہ حکمران جماعت کو ہوتا ہے کہ لیکن 2020 میں حکمران جماعت کو اسوقت شدید جھٹکا لگا جب وہ دو GRC میں انتخاب ہار کر اپوزیشن ورکرز پارٹی کو نو نشستیں دے گئی یہ سنگاپور کی تاریخ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اہم ترین عنصر یہ بھی ہے کہ سنگاپور کی 75 فیصد سے زائد آبادی چینی النسل ہے۔ حالانکہ یہاں عمومی روئیوں میں کھلی نسل پرستی اظہار تو نہیں ہوتا بالخصوص نئی نسل تو اس تعصب سے بڑی حدتک آزاد ہو چُکی ہے لیکن پھر بھی کسی براہ راست انتخاب میں کسی اقلیتی نسل کے فرد کی کامیابی انتہائی مشکل نظر آتئ ہے۔

اس فقیر کی یاد داشت کے مطابق صرف (جے بی جیرتنام) J. B Jayratnam یاد آتے ہیں (ممکن ہے اور بھی ہوں لیکن میری یاد داشت میں صرف ایک ہی ہیں) جو سری لنکن تامل تھے، جنہوں پوری زندگی اپوزیشن کی سیاست کی اور ایک ہی حلقے سے دو مرتبہ ون ٹو ون مقابلے میں بھی منتخب ہوئے۔

موجودہ صدارتی انتخابات میں اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ دو براہ راست صدارتی انتخابات میں سارے فریقین چینی النسل سنگاپوری تھے۔ اس لئے مقابلہ لسانی و نسلی عصبیت سے بالاتر ہو کر صرف سیاسی نظریات کے درمیان تھا۔

لیکن اس مرتبہ حکمران جماعت کے اُمید وار انڈین نژاد Tharman Shanmugaratnam، (تھرمان شنموگارتنام) سابق نائب وزیراعظم، سابق وزیر خزانہ اور سنگاپور کے مرکزی بینک کے تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے کردار اور رکھ رکھاؤ پر بھی کوئی دھَبہ نہیں ہے۔

مخالف اُمید وار Tan Kin Lian پہلے 2011 کے صدارتی انتخابات میں قسم آزمائی کر چُکے ہیں اور تقریباً 4 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس مرتبہ انہیں اپوزیشن کی بعض جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ 2011 کے صدارتی انتخابات میں 34.84 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے تان چینگ بوک بھی ان کی حمایت کررہے ہیں۔

دوسرے اُمیدوار Ng Kok Song قابلیت کے لحاظ سے کم نہیں ہیں ان کا 45 سالہ شاندار کیرئیر بشمول سنگاپور کے مرکزی بینک MAS اور سنگاپور کی سرکاری انوسمنٹ کمپنی (GIC) گورنمنٹ آف سنگاپور انوسٹمنٹ کارپوریشن میں گذرا ہے بلکہ وہ GIC کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

حکومتی اُمیدوار کے مدمقابل دونوں اُمیدوار اہلیت کی بنیادی شرائط پر توپورا اترتے ہی ہیں لیکن ان کے شوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر بعض چیزیں دیکھنے پر ان کی شخصیت پر بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں خیر یہ حکمران PAP کا عمومی طریقہ کار ہے کہ وہ مخالف اُمیدوار زندگی میں سے کوئی کمزور لمحہ یا نکتہ تلاش کرکے اپنے پاورفل میڈیا و شوشل میڈیا کے ذریعے کردار کشی کرکے اسے عوام کی نظروں سے گرانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ تقریباً ہر پارلیمانی انتخابات میں نظر دیکھا گیا ہے۔

اس کے باجود میڈیا کمپین کے ذریعے انتخابی نتائج متاثر کرنے کی کوششیں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی گذشتہ عام انتخابات میں یہ کوششیں اُس وقت اُلٹی پڑ گئی جب انہوں نے اسوقت پاکستانی نژاد رئیسہ خان کو ٹارگیٹ کیا۔ لیکن اس کے باوجود حکمران جماعت وہ GRC ہار گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قابلیت کے لحاظ سے تینوں اُمیدوار صدارتی عہدے کی ضروریات پر پورے اترتے ہیں، لیکن حکمران پارٹی کے اُمیدوار تھرمان شنمو گارتنام Tharman Shanmugaratnam نے بہتر انتخابی مہم چلائی ہے۔ اسے سرکاری میڈیا کی حمائت بھی حاصل ہے اور پوری مہم کے دوران اس نے خود کو ایک سنجیدہ و باوقار شخص کی طور پر پیش کیا ہے۔

اگر چینی النسل اور انڈین تامل النسل اُمیدواروں میں براہ راست مقابلہ ہوتا تو شاید تھرمان شنمو گارتنام کی شکست یقینی ہوتی لیکن اس سہ طرفی مقابلے میں کسی کی کامیابی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz