Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Singapore Main Pakistanion Ki Mulazmat, Imkanat o Mushkilat (3)

Singapore Main Pakistanion Ki Mulazmat, Imkanat o Mushkilat (3)

سنگاپور میں پاکستانیوں کی ملازمت، امکانات و مشکلات (3)

گزشتہ سال میرے ایک دوست کا سنگاپور PR پاکستانی بچہ سنگاپور کی یونیورسٹی سے گریجوئیٹ ہو کر وہاں پر اپنی حسب مرضی ملازمت تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ اسے ملازمتیں تو مل رہی ہیں لیکن اس کی خواہش کے مطابق نہیں۔ تازہ گریجوئیٹ کو دنیا میں ہر جگہ چیلنج ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی خود کو درست جگہ کھڑا کرنے کے لیے دوقدم پیچھے ہٹ کر درست skillset حاصل کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

ایسی مثالیں کم ہی ہوتی ہیں جب بیرون ملک سے ملازمت کرنے پاکستان آئے۔ اس کے پاس تو پاکستان و کینیڈا کی دوہری شہریت ہے اور سنگاپور PR، کچھ نہ کچھ ملازمت اسے سنگاپور میں بھی مل جاتی اور کینڈا میں بھی۔ لیکن اس نے اپنے حسب خواہش شعبے میں پاکستان میں ملازمت تلاش کی اور ایک سال سے زیادہ یہاں کام سیکھ کر مناسب تجربہ حاصل کرکے اب واپس سنگاپور جانے کے لئے پر تول رہا ہے۔ چونکہ اب اس کے پاس متعلقہ تجربہ بھی ہے امید ہے کہ اسے واپس سنگاپور جا کر اپنی حسب پسند ملازمت تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

جہاں تک ممکن ہو پاکستان میں مقامی کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرنے کی بجائے بین الاقوامی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کا تجربہ حاصل کریں، ایک تو ان کمپنیوں کی تنخواہیں و سہولیات نسبتاََ بہتر ہوتی، دوسرے پروفیشنل ماحول میں کام کرنے کا تجربہ و سلیقہ حاصل ہوتا ہے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ بیرون ملک ملازمت کی درخواست میں سی وی پر کسی مشہور بین الاقوامی کمپنی کا نام بھی انٹرویو اور ملازمت ملنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔

اگر کوئی پاکستان میں یا کسی اور ملک دوبئی، سعودی عرب میں کسی بین الاقوامی کمپنی میں کام کرتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ نیٹ ورکنگ ہوتا ہے اچھی کارکردگی کے ساتھ تھوڑا نام اور نیٹو ورکنگ نہ صرف اپنے ملک بلکہ اس کمپنی کے ببیرون ملک دفاتر جن کا رابطہ پاکستان دفتر سے ہوتا تک پہنچتا ہے۔ وہاں پر بھی اچھی کارکردگی کی عزت و شہرت پہنچتی ہے۔ اگر اس ملک میں مطلوبہ شعبے کا سربرہ آپ کی کارکردگی کی وجہ آپ کو لانا چاہتا ہے تو سلیکشن پروسیس کی رسمی کاروائی تو کرنی پڑتی ہے لیکن تقریباً 90 فیصد کام ہو ہی جاتا ہے۔ (بس امیگریشن کے معاملات کی وجہ سے دیر سویر ہو ہی جاتی ہے)۔

میرے ایک شناسا ایک امریکی کمپنی کے کراچی کے دفتر میں کام کرتے تھے اور ان کا ریجنل ہیڈ کوارٹر سنگاپور سے روزمرہ کام تھا اس لئے کارکردگی بھی اچھی تھی۔ انہوں نے سنگاپور دفتر کے ساتھیوں جو ان کی کارکردگی کی وجہ سے انہیں پسند کرتے تھے انہیں اشارہ کیا کہ انہیں سنگاپور آنا ہے۔ اس کے بعد مناسب جگہ تلاش کرنے میں ایک دیڑھ سال لگا۔ اب وہ وہاں پر بہت اچھی پوزیشن پر کام کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی بیشتر (سب نہیں) بین الاقوامی کمپنیاں عموماً دوبئی، سنگاپور یا لندن سے پاکستان کے کاروبار کی نگرانی کرتی ہیں۔ ان کمپنوں میں اچھی کارکردگی سے بننے والی ساکھ بہت دور تک جاتی ہے۔ آخری راستہ شادی، اس پر جتنی بات کی جائے کم ہے درحقیقت بیٹیوں کے باپ و بھائی کی حیثیت سے میں پسند نہیں کروں گا کہ کوئی میری بہن و بیٹی کے ساتھ امیگریشن کے لالچ میں شادی کرے۔ درحقیقت دنیا کے کسی بھی ملک میں شادی کرنے سے بہت سے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ سنگاپور ان سے مستثنٰی نہیں۔

لیکن سنگاپور اس معاملے اس لحاظ سے سخت محتاط ہے کہ شادی کے فوری بعد کسی بھی غیر ملکی شوہر یا بیوی کو اپنے شریک حیات کی اسپانسرز شپ کی بنیاد پر ایسا طویل المدت ویزہ دیا جاتا ہے جس کی مدت ایک سال یا دو سال تک ہوتی ہے اور اس کی توسیع ہوتی رہتی ہے (اس ویزے کے اجرا کے لئے شریک حیات (مرد و عورت) کی آمدنی ایک اہم عنصر ہے ویسے بھی سنگاپور کی خواتین میں کام کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔

سنگاپور کے شہری و PR کے شریک حیات کو ملنے والے طویل المدت ویزے LTVP پلس کہا جاتا ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس ویزے کا حامل سنگاپور میں کہیں بھی کسی قسم کی ملازمت سے بغیر مزید کسی ورک ویزے کے قانونی کسی قسم کا بھی (کام کرنے کا مجاز ہوتا ہے)۔ صرف کسی بھی جاب شروع کرنے سے قبل وزارت افرادی قوت سے اجازت نامہ LOC یعنی Letter of Consent لینا پڑتا ہے۔ جو باآسانی مل جاتا ہے اور اس LOC پر کام کرنے والے کو اس کمپنی کے کوٹے کے غیر ملکی افراد میں گِنا بھی نہیں جاتا۔ ایک لحاظ سے آزاد ویزہ سمجھ لیں۔

شادی کے چار پانچ سال ایک آدھ بچے کی پیدائش کے بعد جب امیگریشن کو یقین ہو جائے یہ شادی مستحکم اور حقیقی ہے، اس کے بعد غیر ملکی شریک حیات کو PR یعنی پرمننٹ ریسیڈنس مل سکتا ہے۔ اور مزید تین چار سال بعد شہریت۔ یعنی شادی سے شہریت تک آٹھ دس سال کا پروسیس ہوتا (اگر مل جائے تو)۔ اگر کسی نے یہاں کے شہری سے شادی کی ہے تو زندگی اس لحاظ سے آسان ہے کہ اگر اسے پرمننٹ ریسیسڈنس نہ بھی ملے تب بھی اس کی بیوی و بچوں کی پیدائش کی شہریت کی وجہ سے فیملی بچوں کی تعلیم ہاؤسنگ کو سہولت تو مل ہی رہی ہوتی ہے۔

ویسے شادی کے فوائد اپنی جگہ، اب ہوائی یا سفری رشتے و عشق کا زمانہ گزر چُکا ہے۔ یہ ضرور ہے جو یہاں طویل عرصے E-Pass یا S-Pass پر کام کر رہے ہوں ان کا سوشل سرکل بن جاتا ہے اور وہاں شادیاں ممکن ہے۔ اگر کسی کی فیملی کے ذریعے رشتہ مل جائے تو اور بات ہے پہلے زیادہ تر پاکستانی اپنے بچوں کے لیے پاکستان سے رشتے تلاش کرتے تھے پر اب وہاں کی پاکستانی فیملیاں بھی بڑھ رہی ہیں اور اب زیادہ تر آپس میں وہاں ہی رشتے مل جاتے ہیں۔ پھر بھی پاکستانیوں میں وطن آ کر شادی کرنے کا رجحان باقی ہے، آئندہ ماہ میرے ایک دوست کے بچے کی بارات سنگاپور سے کراچی آ رہی ہے اور حال ہی میں دوسرے دوست کی بچی کی منگنی بھی کراچی میں ہوئی۔

کوئی بھی راستہ چُنا جائے ایک ملک سے دوسرے ملک نقل مکانی آسان فیصلہ نہیں ہوتا اس کے لیے جتنا ممکن ہو پیشگی تیاری (بالخصوص تعلیم کے آخری چند سالوں میں ) بعد کی مشکلات سے بچا کر سفر آسان بنا سکتی ہے۔

آخر میں وہ دوست جو ان تمام مشکلات و مسائل سے نمٹنے کے بعد سنگاپور میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ان کے لئے۔

سنگاپور ایک ماڈرن معاشرہ ضرور ہے لیکن یہاں بطور مسلمان زندگی گزارنا اتنا مشکل نہیں شہر کے تقریباً ہر حصے میں مساجد یا نماز کی جگہیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حلال کھانا باآسانی ملتا ہے۔ یہاں مسجد، مندر و گرجا بھی ہے اور چائے خانے و مئے خانے بھی، اب آپ پر ہے کہ کس قسم کی زندگی گزارنا پسند کریں۔

Welcome to Singapore

سنگاپور میں غیرملکی کارکنان کے E-Pass یا EP کے لئے ترجیحی شعبوں کی فہرست اور مزید معلومات کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں۔

ختم شد۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz