Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Hum Mein Se Kon Kon Hai Gadhora?

Hum Mein Se Kon Kon Hai Gadhora?

ہم میں سے کون کون ہے گدھوڑا؟

میں نے سب سے پہلے تو اردو لغت بورڈ کی لغت دیکھی۔ دیگر لغات پر بھی نظر دوڑائی مگر گدھوڑے لفظ دکھائی نہ دیا۔ ایک نظر گوگل پر بھی سرچ کر لیا کہ اس میں غلط سلط سب ہوتا ہے مگر مبارک ہو گدھوڑے کا لفظ کہیں نہ ملا۔ خوشی ہوئی کہ اب ہم اسے کلیم کر سکیں گے۔

جسمانی لحاظ سے گھوڑے اور گدھے کی مخلوط نسل کو خچر کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے چند ایک علاقوں اور زبانوں میں گدھوڑے کا لفظ مستعمل ہو جس کے مطالب مختلف یوں مگر مجھے تو اپنے مطلب کی بات کرنی ہے۔ جس گدھوڑے کی میں بات کر رہا ہوں، وہ ان سے مختلف ہے اور میرے ذہن کی اختراع ہیں جسے ممکن ہے اصطلاحا بھی استعمال کیا جانے لگے۔

گدھوڑے دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں اور بہت ارزاں نرخ پر ہنسی خوشی دستیاب ہوتے ہیں۔ یر حکم مانتے ہیں، بے چوں چراں مالک کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ میری ان سے ملاقات مختلف دفاتر میں ہوئی۔ میں نے انہیں بڑی تعداد میں۔ خوشی خوشی بندھا دیکھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ دفاتر میں ان کا کیا کام؟ جناب یہ انسان ہوتے ہیں اور ایک خاص ذہنی کیفیت کے سبب میں نے انہیں اس اعلی مرتبت نام " گدھوڑے" کے بام سے سرفراز کیا ہے۔

مضمون طویل کرنے کا ارادہ نہ تھا مگر گدھوڑے کے چند ایک اوصاف ملازمانہ تو بتانے ہی پڑیں گے۔ ان ہر گدھوں کی طرح کام لادا جاتا ہے اور گھوڑوں کی برق رفتاری سے کام کو انجام دلوایا جاتا ہے۔ یہ کام ملنے پر اتنے جذباتی ہوتے ہیں جیسے ایک زمانے میں ہماری کرکٹ ٹیم کے اوپنر مدثر نذر بالنگ کرانے پر ہو جایا کرتے تھے۔ ان گدھوڑوں کا یہ ہے کہ جس جگہ ملازمت کے کھونٹے سے بندھے اور پٹہ پڑا بس سمجھ لیں اب یہ نہ جانے کے۔

ان کا نظریہ ملازمت یہ ہوتا ہے کہ ہر کام نکلوالو مگر ملازمت سے نہ نکالو۔ یہی وجہ ہے انہیں موت سے زیادہ ملازمت سے نکالے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ ان گدھوڑوں کی باگیں مالک یا باس کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ جہاں مالک یا باس نے نظر ٹیڑھی کی یا راہ چلتے سلام کا جواب ہی نہ دیا تو سمجھیں یہ اسے ملازمت سے سلام آخر سمجھتے ہیں بس نہیں چلتا کہ یہ گانا گانا شروع کردیں:

اپنے دفتر میں بندھا رہنے دے کام آئیں گے

تنخواہ ان کی ہر سال واجبی سی بڑھتی ہے اور ترقی سے تو انہیں ویسے بھی چڑ ہوتی ہے۔ ہر صورت میں" راضی با روزی " رہتے ہیں۔ ایک جہاندیدہ ملازم کا کہنا ہے: محنت سے صرف نوکری بچتی ہے۔ ترقی کسی اور چڑیا کا نام ہے جو کبھی ان کے ہاتھ نہیں آتی۔

"ملازمت میں غلامی" کے قائل، بیک وقت دو خصوصیات کا مجموعہ یا عجوبہ یہ گدھوڑے محنتی، فرض شناس، وفادار اور "جی حضوری سے لبریز " ہوتے ہیں۔ کسی بھی ہڑتال یا شدید بارش میں جو چند ایک لوگ بس کے انتظار، موٹرسائیکل یا چھوٹی گاڑی میں دفتر جاتے نظر آئیں، ان میں ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب یہی گدھوڑے ہوتے ہیں۔ مالک یا باس کے تمام تر جبر و ظلم کے باوجود اس میں مسیحا تلاش کر ہی لیتے ہیں اور ہر نئے ملازم کو مالک یا باس کی فیاضانہ مزاجی کا بتانا ملازمت کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ مالک یا باس کی ایک ہلکی سی تھپکی یا سب کے سامنے کاندھے پر ہاتھ رکھ دینا انہیں تازہ دم گدھوڑا بنا دیتی ہے۔

یہ گھڑی دیکھ کر نہیں بلکہ کیلنڈر دیکھ کر دفتر آتے ہیں۔ گلے میں گھنٹے کا ٹنٹا ہی نہیں باندھتے۔ صبح سوئپر اور یہ ساتھ ساتھ آتے ہیں اور رات سب سے آخر میں دفتر چھوڑتے ہیں۔ اس میں بھی پہلے اپنے باس کو کال کر اس طرح جانے کی اجازت مانگتے ہیں جیسے ہاف ڈے کرکے گھر جا رہے ہوں:

سر کام مکمل ہوگیا۔ کوئی اور کام ہو تو بتائیں ورنہ میں جاوں۔

چھٹی کی گھٹی انہیں پلائی ہی نہیں گئی ہوتی۔ اگر انہیں اپنے مرنے کی خبر (جو کہ ممکن ہی نہیں) ہو جائے تو انتہائی مجبوری کے عالم میں چھٹی کی درخواست لے کر مالک یا باس کے پاس پہنچ جائیں۔

گدھوڑا: سر۔۔ وہ کیا ہے کہ مجھے مرنا ہے۔ اس کے لئے یہ درخواست لایا ہوں چھٹی کی۔

مالک: چھٹی؟ آپ کو اندازہ ہے آج کل آفس میں کتنا کام ہے۔ کسی اور وقت یہ چھٹی لے لینا۔

گدھوڑا: (بہت لجاجت سے) سر۔۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن سر اگر اپنے مرنے پر میں نہ ہوا تو بڑا مسئلہ ہو جانا ہے۔ آخر میں لوگ میرا چہرہ ہی تو دیکھیں گے۔

مالک: (رضامندی کا اظہار سوچتے ہوئے) اور کام کا کیا ہوگا؟

گدھوڑا: (خوشی سے پاگل) سر۔۔ بس سوئم کے اگلے روز دفتر میں ہوں گا۔

گدھوڑے کسی بھی جائے ملازمت پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترقی کرتے کاروبار میں مالک یا باس کی تنی گردن اور دم خم کے پیچھے یہی ہوتے ہیں کیونکہ مالک یا باس نے قمیض اور کبھی کبھی کوٹ بھی پہنا ہوتا ہے اس لیے یہ گدھوڑے کبھی نظر نہیں آتے۔ کام کی ایمرجنسی ہو جائے تو رات گئے تک کام، گھر پہنچ کر بیوی بچوں پر ایسے رعب ڈالتے ہیں کہ جیسے دفتر میں صرف ان کا توتی بولتا ہے۔ اگلے روز صبح کلائنٹ سے میٹنگ ہو تو ان کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ اس میں دفتر کے "شو پیس" ملازمین شریک ہوتے ہیں۔ میٹنگ ختم ہونے ہر ان شو پیس ملازمتیں سے پوچھتے ہیں کہ میٹنگ کیسی رہی؟

میٹنگ اچھی رہی تو کوئی تذکرہ نہیں اور اگر میٹنگ میں ان کی وجہ سے کچھ الٹا سیدھا ہوگیا تو پھر ساری "ہیٹنگ" ان کے حصے میں آئی ہے۔ ان کا فلسفہ ملازمت "لگی لگائی کو چھوڑنا اچھی بات نہیں" ہوتا ہے۔ انہیں عزت روزانہ اور اجرت ماہانہ ملتی ہے۔ مالک یا باس ان کی نفسیات اور غلام مزاجی سے واقف ہوتے ہیں اس لئے انہیں ان کی اوقات بھی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ بیمار پڑ جائیں اور اگر مالک یا باس کسی کام کی وجہ سے کال کردیں اور آخر میں طبیعت کا پوچھ لیں تو سمجھیں اب ڈاکٹر کی کسی دوا کی کوئی ضرورت نہیں۔

گدھوڑوں کے گھر والے ان کے حوصلے کو چڑیا کے گھونسلے سے زیادہ ناپائیدار بنا دیتے ہیں۔ جہاں انہوں نے کوئی ملازمت میں اونچ نیچ کی بات کی۔ گھر کی عورتیں ایسی صورت بناتی ہیں کہ جیسے ملازمت کی آخری ہچکیاں نہیں گدھوڑے کی آخری سانسیں چل رہی ہو۔ پھر وہ وہ پیشاب و دست آور خطرات کی کوڑی لائی جاتی ہے کہ گدھوڑے کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ گھر کے بزرگ اور عورتیں ان گدھوڑوں کو پتھر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

دیکھو، پتھر دیوار میں لگا ہو (مطلب ملازمت) تب ہی کسی کام کا ہوتا ہے۔ راہ پر پڑے پتھر کو تو ہر کوئی ٹھوکر مار کر چلا جاتا ہے۔

گدھوڑوں کی ویسے تو اپنی الگ ہی کلاس ہوتی ہے لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ان کا زیادہ تر تعلق مڈل کلاس سے ہوتا ہے جن کی پوری زندگی خوف کے سائے تلے گزرتی ہے۔ انہیں کچھ سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے جیسا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس ہر کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر مجھے اندازہ ہے کہ جن کے لئے لکھی جائے گی وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگائیں گے۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہ گدھوڑے اپنی صلاحیتوں سے ناواقف ہوتے ہوئے یا واقف ہونے کے باوجود خوف کے سبب اپنے آپ کو بہت سستا خرچ کرتے ہیں۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz