Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bilal Ahmed Batth/
  4. Deewar e Berlin

Deewar e Berlin

دیوار برلن

تاریخ میں جن مشہور دیواروں کا ذکر ملتا ہے ان میں دیوارِ چین، دیوارِ گریہ، دیوارِ براق اور دیوارِ برلن سرِ فہرست ہیں۔ دیوارِ برلن اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ ایک طرف تو یہ سرد جنگ کے طویل دور کی نشانی کے طور پر 28 سال قائم رہی، دوسری طرف یہ راتوں رات مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا باعث بھی بنی۔

دوسری جنگِ عظیم میں برلن شہر فضائی حملوں کی زد میں رہا۔ جس کے نتیجے میں مشرقی برلن سے ہزاروں لوگوں نے نقل مکانی کر کے مغربی برلن کا رخ کیا۔ 1945 دوسری جنگ عظیم کے بعداتحادیوں نے برلن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر اتفاق کیا، اس معاہدے کیے مطابق ملک کا مشرقی حصہ سویت یونین کے حصے میں آیا جبکہ مغربی حصہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حصے میں آیا تاہم یہ دیوار بہت بعد میں تعمیر ہوئی۔ اس کا مقصد کمیونسٹ مشرق سے جمہوری مغرب کی طرف جرمنوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کو روکنا تھا۔

1989 میں گرائے جانے سے قبل یہ دیوار سرد جنگ کی تقسیم کی ایک نمایاں علامت بن چکی تھی۔ اس دیوار کی کل لمبائی 155 کلو میٹر تھی لیکن یہ دیوار مرحلہ وار آگے بڑھتی رہی، پہلا مرحلہ 1961 خار دار تاروں سے شروع ہوتا ہے، دوسرا مرحلہ 1962 سے لے کر 1965 تک کا ہے، جب ان خار دار تاروں کو مضبوظ اور محفوظ بنانا تھا، اس کا تیسرا مرخلہ 1965 سے شروع ہوتا ہے جب باقاعدہ طور پر ایک پختہ دیوار کا آغاز کیا گیا جو 1975 تک جاری رہا، چوتھا اور آخری مرحلہ 1975 سے شروع ہو کر 1989 تک جاری رہا، اس آخری مرحلے کے دوران کنکریٹ سے بنی ساڑھے تین میٹر یہ دیوار باقاعدہ طور پر بارڈر وال میں بدل دی گئی اور نقل مکانی کو روکنے کے لیے مشرقی جرمنی کی طرف سے بارہ ہزار کے لگ بھگ محافظ تعینات تھے۔

9 نومبر 1989 میں دیوار برلن کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا جسکے نتیجے میں مشرقی جرمنی کے لوگ مغربی جرمنی اور مغربی جرمنی کے لوگ مشرقی جرمنی بلا تفریق آ جا سکیں گے، 28 سالہ نفرت کی اس دیوار کو چند ہفتوں میں مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا، یادگار ی طور پر لگ بھگ 3 کلو میٹر کے ٹکڑے کو محفوظ کر لیا گیا۔

دیوار برلن نفرت کی علامت تھی، رکاوٹ تھی ایسے لوگوں کے درمیان جن کا ایک مذہب، ایک آب و ہوا، دریا اور سمندر ایک، رسم و رواج ایک لیکن وہ حکمرانوں کی لگائی ہوئی آگ کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔

ایسے ہی ہمارے ہاں قبیلوں، برادریوں، مسلکوں، فرقوں اور سیاست کی دیواریں ہیں جو ایک مذہب، ایک خدا اور ایک رسولﷺ کے ماننے والوں کے درمیان ہیں۔ مسلک، برادری اور قبیلوں کی یہ دیواریں جب تک پہچان کی حد تک بلند ہوں تب تک وہ صرف نشان ہیں، لیکن جب وہ دیوار بن جائیں تو وہ بھی دیوار برلن ہیں۔

ہمارا معاشرہ نفرت کی ایک ایسی ہی دیواروں کی نظر ہورہا ہے۔ یہ دیواریں دن بدن بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہیں، پورا معاشرہ طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے، ہمارے قبرستان، ہماری مساجد، ہمارے مدرسے، ہمارے ڈیرے، ہمارے ادارے سب طبقاتی اور سیاسی ہو چکے ہیں۔

ایک معاشرے کے مختلف رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں، ذوق کے بھی اور شوق کے بھی، معاشرے انہی رنگوں کے ساتھ رواں دواں رہتے ہیں، معاشرہ ان تمام اکائیوں کو ایک ساتھ لے کے آگے بڑھنے کا نام ہے۔

ہمارے معاشرے کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم نے سارے شعبے اور کام ملتوی کرکے ایک طرف رکھ دئیے ہیں اور ہم بال بچوں سمیت سیاست میں غرق ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ نہ ہمارے پاس کوئی موضوع ہے نہ کوئی سرگرمی کیا صحت مند معاشرے ایسے ہوتے ہیں؟ یہ ہم نے اپنے معاشرے کے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہے، اب صرف جنون ہے، وہشت ہے اور سیاست ہے۔

اب بھی وقت ہے ہم معاف کر دیں خود کو، اپنے دشمنوں کو، اور ان سیاسی، طبقاتی، مذہبی، مسلکی، گروہی، معاشی دیواروں کو گرا دیں۔ دیوار برلن بھی دیوار کے دونوں اطراف میں بسنے والی عوام نے ہی گرائی تھی۔ ہم عہد کریں کہ ہم کسی بھی ایسے مذہبی، طبقاتی اور سیاسی گروہ کا حصہ نہیں بنیں گے جو ہمارے درمیان دیواریں کھڑی کرے گا۔

دیوار برلن کا انہدام اس بات کا مظہر ہے کہ سیاستدانوں کی بنائی ہوئی یہ دیواریں عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور عوامی طاقت کے سامنے ایسی آہنی دیواریں ریت کی دیواریں ثابت ہوتی ہیں۔ اس دیوار کے گرائے جانے کے پیچھے یہی پیغام مضمر ہے۔

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi