Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bilal Ahmed Batth/
  4. Ikhlaqiat Se Aari Pakistani Tv Drame

Ikhlaqiat Se Aari Pakistani Tv Drame

اخلاقیات سے عاری پاکستانی ٹی وی ڈرامے

کسی بھی ملک کی ثقافت کی شناخت کے لیے ڈرامہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے ایک وقت ایسا بھی تھا ہمارے ڈراموں کی دھوم پوری دنیا میں تھی، پی ٹی وی کے ڈرامے بہت سبق آموز ہوتے تھے اور ہماری مشرقی روایات کی عکاسی کرتے تھے اور تربیت کا بہت بڑا ذریعہ تھے، ڈرامہ لکھنے والے بھی بڑے باذوق لوگ تھے۔

60 کی دہائی میں شروع ہونے والا ڈرامے کا سفر 90 کی دہائی تک بام عروج کو پہنچا ان ڈراموں نے معاشرے میں تہزیب و تمدن کو وسعت دی اور کئی نسلوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کی اور ساتھ ساتھ ڈرامے اور فلم کے بہترین ذوق کو تعمیر کیا۔

ڈرامہ نگاری کی یہ تین چار دہائیاں پاکستان کی ثقافتی تاریخ میں کلیدی مقام رکھتی ہیں، ڈراموں کے کردار معاشرے سے آتے تھے اور معاشرہ اپنی کہانیوں کا عکس ڈراموں میں دیکھتا تھا، کہانی اور کردار جاندار اور ایک دوسرے سے اچھی طرح پیوست ہوا کرتے تھے، ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے احساسات ان کہانیوں کا کمال تھے ان ڈراموں کی عکس بندی، زبان و بیان مکالمے اور اداکاری حتی کہ ہر شے اپنی مثال آپ تھے جبکہ یہ محدود وسائل کا زمانہ تھا لیکن اس وقت کے ڈرامے نے دیکھنے والوں کی افکار اور زندگیاں بدل کر رکھ دی تھیں۔

ڈراموں کے یہ لازوال کردار ہمارے معاشرتی روایات کی بھرپور عکاسی کرتے تھے، ان مشہور ڈراموں میں تنہائیاں دھوپ کنارے، خدا کی بستی، جانگلوس، آنگن ٹیڑا، اندھیرا اجالا، دھواں اور بچوں کا مشہور ڈرامہ سیریل عینک والا جن قابل ذکر ہیں صرف یہ نہیں کہ وہ فنکار شاندار تھے بلکہ ڈرامہ نگار بھی شاندار اور باوقار لوگ تھے ان کو اپنی معاشرتی روایات سے محبت تھی، وہ پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والے کردار تھے، ڈرامہ نگاری کا مقصد معاشرتی فلاح تھی نہ کہ کا معاشرتی بگاڑ جیسے کہ آج کل ہو رہا ہے، ان مشہور ناموں میں حسینہ معین، شوکت صدیقی، انور مقصود، اشفاق احمد کے نام نمایاں ہیں جنہوں نے اردو ادب میں بھی بلند خیالات کا ادب تحلیق کرکے اپنے قاری سے خود کو جوڑ لیا اور ادبی دنیا میں بلند مقام حاصل کیا ایک عرصے تک قارئیئن سے ان ڈرامہ نگاروں کو داد ملتی رہی۔

ایک وقت تھا ڈرامہ نشر ہوتے ہی گلیاں و بازار ویران ہو جاتے تھے اور تخیل آباد ہو جاتے تھے، اب گلیاں کوچے بھرے ہوئے ہیں چینلوں کی بھی بھرمار ہے اور لکھنے والوں کی بھی لیکن تخیل اور سوچ کا خانہ حالی ہے اور ویران ہے، سنسنی اور بیراہ روی کے سوا پاکستانی ڈرامہ کچھ بھی نہیں۔

یہ دور چار دن کی بات نہیں کئی دائیوں کا قصہ ہے کہ کس طرح ہمارے معاشرے پہ زوال آیا اور ڈرامہ روبہ زوال ہوگیا، پرائیویٹ چینل سے پہلے جب کیبل کا دور آیا تو لوگوں نے سٹار پلس جیسے بےہودہ اور فرسودہ اور سنسنی ڈرامے دیکھنے شروع کیے اور بعد میں جب پرائیویٹ چینلوں کی بھرمار ہوئی تو انہوں نے بھی وہی سٹار پلس کی روش اختیار کی بلکہ اب تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، اب ہمارا ڈرامہ سوائے گلیمرس اور بے مقصدیت اور بےتکی کہانیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

عہد حاضر کے پاکستانی ڈراموں نے نوجوان نسل کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ڈرامہ نگار بھی زنگ آلود ہو چکے ہیں اب وہ بھی ریٹنگ کے چکر میں ایسے ڈرامے لکھتے ہیں جو سنسنی خیز ہوں، تقریبا ہر ڈرامہ میں ساس بہو کی لڑائی، عشق و محبت کی فضول کہانیوں، دیور بابھی کے سکینڈلز، اور گھر سے بھاگ کر شادیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں، پہلے ڈراموں میں وہ کچھ دکھایا جاتا تھا جو معاشرے میں ہوتا تھا لیکن جو ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے معاشرہ وہی کچھ کرنا شروع کر دیتا ہے، اب پاکستانی ڈرامے کارپوریٹ کلچر کے زیر سایہ پرورش پاتا ہے، جو کارپوریٹ کلچر کی ڈیمانڈ ہے ہمارہ لکھاری وہی کچھ لکھتا اور ٹی وی چینل بھی وہی کچھ چلاتے ہیں، کارپوریٹ کلچر کی ایما پہ ہی بڑی بڑی کاریں، کوٹھیاں اور لگثری لائف سٹائل دیکھایا جاتا ہے اور ناظرین کو بہکایا جاتا ہے، ڈرامے دیکھ کر لوگ فیشن کرتے ہیں، ڈرامے دیکھ کر بچوں کے نام رکھتے ہیں اور ڈرامے سے متاثر ہو کر ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں گھر سے بھاگتے ہیں، آزادی کے نام پر ماں باپ کی تذلیل اور نافرمانی ان ڈراموں کا ہی شاخسانہ ہے۔

گزشتہ دھایئوں سے پاکستانی ٹیلی ویژن پہ ڈرامے کے نام پہ عورتوں کے آنسو اور آہیں ہیں، سچ ہے کہ عورت ہمارے معاشرے میں محکوم ہے مگر صرف اسی کے تو دکھ نہی اس معاشرے میں بچوں پہ بھی بہت ظلم ہوتے ہیں، یہاں مرد بھی مظلوم ہیں، کیا اس معاشرے میں انصاف سب کو ملتا ہے؟ کیا لوگ ہسپتالوں اور باقی اداروں میں ذلیل و خوار نہی ہوتے؟ معاشرے کے ان مسائل پہ ڈرامہ کیوں نہی لکھا جاتا، سیاست اور نظام انصاف کے مسائل پہ کیوں نہی ڈرامہ نگاری ہوتی، منظر تبدیل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، ہر ڈرامہ کی ایک ہی کہانی ہے۔

صرف آج کا ڈرامہ ہی ذوال پذیر نہی ہوا بلکہ ناظرین کی پسند بھی پسماندگی کا اعلی نمونہ بن چکی ہے، یعنی یہ بھی زوال کی ایک داستان ہے کہ ناظرین بھی ایسی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں جو عشق ومحبت اور خاندانی لڑائی جھگڑوں کے گرد گھومتی ہیں، آج کے ڈرامے نے معاشرتی قدروں کو روند کر رکھ دیا ہے تمام ڈرامہ نگار ایک ہی کہانی کو دہرا رہے ہیں دیکھنے والے پسند بھی کر رہے ہیں اور اور داد تحسین بھی دے رہے ہیں پھر چاہے 2011 میں نشر ہونے والا ڈرامہ ہم سفر ہو یا پھر 2020 میں معاشرے کی ذہنی پستگی کو عیاں کرتا ہوا ڈرامہ میرے پاس تم ہو۔

خدارا اپنے بچوں کو ان ڈراموں سے دور رکھو، آج کا ڈرامہ سوائے سراب کے کچھ بھی نہیں یہ ہماری اخلاقی اور معاشرتی قدروں کا قاتل ہے، نوجوان نسل بڑی تیزی سے ان ڈراموں کے زیر اثر ہے، ماں باپ کو اپنے بچوں کی ذہنی اور روحانی تربیت کا بیڑا خود اٹھانا پڑے گا اور بچوں کو ان فضول ڈراموں سے بچانے کے لیے خود ہی کوشش کرنی پڑے گی۔

Check Also

Chyontiyan Kaise Bhagaain?

By Muhammad Qasim Saroya