Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bilal Ahmed Batth/
  4. Imdad e Bahmi Ka Aalmi Din Aur Kisan Ittehad

Imdad e Bahmi Ka Aalmi Din Aur Kisan Ittehad

امداد باہمی کا عالمی دن اور کسان اتحاد

ہر سال جولائی کا پہلا ہفتہ امداد باہمی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے 1992 میں کیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد اگاہی دینا ہے کہ باہمی تعاون و اشتراک کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل ممکن ہے۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف تنظیموں کے زیر انتظام سیمینارز اور کانفرنسز کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس سے عوام الناس میں امداد باہمی کے بارے میں شعور و اگاہی پیدا کیا جانا مقصود ہوتا ہے۔

قران کریم اور حدیث مبارکہ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے، مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے بھائی چارے کی مثال ہمارے لیے عملی نمونہ ہے۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں تنظیمیں لوگوں کے مشترکہ مفادات کے لیے کام کرتی ہیں اس سے جہاں لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بدلاؤ آتا ہے وہیں اس ملک کو معاشی اور معاشرتی فوائد بھی ملتے ہیں۔

امداد باہمی کی تنظیمیں صحت اور تعلیم سے لے کر کاشتکاری اور ماحولیات کے شعبوں تک پھیلی ہوئی ہیں، کاشتکاری اور زراعت سے متعلق تنظیمیں کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف آگاہی سیمینار منعقد کرتی ہیں۔ کسان اتحاد ایسی ہی ایک تنظیم ہے یہ پاکستان کے کسانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جس کا مقصد کسانوں کی معاشی بہبود ہے، تنظیم کے چیئرمین خالد حسین باٹھ ہیں جو بہت متحرک اور دلیر انسان ہیں۔

صوبائی اور وفاقی محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر کسانوں کے مسائل کو ختم کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں، پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور افرادی قوت کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے اور پاکستان کی پہچان بھی ایک زرعی ملک کے طور پہ ہوتی ہے لیکن ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے زراعت کا شعبہ زوال کا شکار ہے۔ سب سے اہم مسائل ناقص بیج، کھادکی عدم دستیابی اور ڈیلر کے من مانے ریٹ، مہنگی بجلی، سستے قرضوں کے حصول میں دشواری، مہنگی زرعی مشینری، جانوروں کے ہسپتالوں کی کمی، فصلوں کی منڈی تک مشکل رسائی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، کھاد پر کھاد مافیا کا کنٹرول ہے، بیج پر بیج مافیا قابض ہے، کیڑے مار دواؤں پر متعلقہ انڈسٹری کا کنٹرول ہے۔ وہ جب چاہیں جتنا مرضی چاہیں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسانوں کے مسائل کو جب تک حکومتی سطح پر توجہ نہیں ملتی نہ تو کسان خوشحال ہو سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان۔

زراعت سے وابستہ افراد زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ دیگر صنعتوں کی طرح زراعت سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی فری تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں زراعت کے ضلعی دفاتر کسانوں کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں، کسان اتحاد کے ضلعی صدر سیف الرحمن وڑائچ انتہائی محنتی اور مخلص انسان ہیں اور اپنے ڈیرے پہ کسانوں کے اجتماع کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور محکمہ زراعت کے افسروں سے کسانوں کے لیے مشاورت کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔

اگر کسان اتحاد ایسے ہی لگن اور محنت سے کام کرتا رہا تو بہت جلد وہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر لے گا، یہ اتحاد کسانوں کی معاشی بہبود کے لیے ہے اس لیے اسے ہر طرح کی سیاست اور معاشرتی گروہ بندی سے پاک ہونا چاہیے، لیکن اگر یہ سیاسی اور گروہی مسائل کا شکار ہوگیا اور عہدوں کی بندر بانٹ میں لگ گیا تو نہ تو یہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا اور نہ ہی کسانوں کا اعتماد۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ کسانوں کے مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کرے، ملک میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کو متعارف کرائے، زیادہ پیداواری بیج، کھادوں کا حصول، سستی بجلی اور سستے قرضوں کا حصول آسان بنائے۔

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi