Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Cyma Malik/
  4. Jan Bohat Sharminda Hain

Jan Bohat Sharminda Hain

جان بہت شرمندہ ہیں

انسانی تعلقات کی پیچیدہ پگڈنڈیوں پر، ایک عورت کی ماں بننے کی خواہش اور ایک مرد کی باپ بننے کو نامنظور کرنے کے قطعی فیصلے کے درمیان کچھ تنازعات اتنے دردناک ہوتے ہیں کہ ایک جذباتی خانہ جنگی کا باعث بن سکتے ہیں، دو افراد کے درمیان محبت، اعتماد، اور سمجھنے کے بنیادی اصولوں کو آزما رہے ہوتے ہیں۔

ایک عورت کی کوکھ میں حمل ٹھہرتے ہی بچے کو پیدا کرنے کی خواہش روح میں گہری جڑیں ڈالتی ہے۔ ماں بننا ایک تبدیل اور حیران کن تجربہ کو ظاہر کرتا ہے، زندگی کو پیدا کرنے کا موقع، اور مستقبل کے لئے ایک ورثہ چھوڑنے کا موقع۔

ایک مرد کی باپ بننے سے انکار کے پیچھے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں، جیسے ذمہ داری کا خوف، اپنے بارے میں غیرمستقل مزاجی کا احساس یا آرام میں خلل کا ڈر۔

جس عورت کا زبردستی اسقاط حمل کیا جاتا ہے، اسے شدید جذباتی کشمکش کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے حمل کے ختم ہونے اور اپنے بچے کی زندگی کے لا پتہ ہو جانے کی بنا پر بہت غمگینی، افسوس اور نقصان کے جذبات محسوس کرتی ہے۔ اسے اس موقع پر انتہائی اظہار خوشی، ناکامی، اور بے امان ہونے کا احساس ہوتا ہے کیونکہ اس کے ماں بننے کے حق کو نہایت بے دردی سے پامال کیا گیا۔ وہ غصہ، ناراضگی، اور جزباتی طور پر زخمی ہونے کی وجہ سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، وہ خود کو گناہگار محسوس کرتی ہے اور خود کو ملامت کرتی ہے کہ کیا اس نے اس صورتحال کو روکنے کے لیے کچھ کرنا چاہا؟ اگر چاہا تو پھر کیسی لاچار تھی کہ ماں ہو کر اپنے رحم میں پلتے اپنے بچے کی زندگی نہ بچا سکی۔ ایک مرد کے سامنے ٹک نہ سکی۔ ہاں اس بچے کے قتل میں کچھ سہولت کار بھی ہیں جن کے پاس مسیحائی کی زریں سندیں بھی ہیں۔

اس ماں کے نزدیک ایک گناہ، ایک جرم کا ارتکاب ہوا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں یہی اصطلاح استعمال ہوگی۔ جی ہاں"غیر قانونی اسقاط حمل"۔

غیر قانونی اسقاط حمل ایک حالت ہے جب حمل کا خاتمہ ملک یا علاقے کے قوانین یا ضوابط کے خلاف انجام دیا جاتا ہے۔ یہ عموماعطائی یا غیر لائسنس یافتہ اشخاص کے ذریعہ انجام دیے جاتے ہیں۔

غیر صحت بخش حالات میں، یا بغیر معیاری طبی دیکھ بھال کے اسقاط حمل کے خوفناک انجام ہم کئی بار دیکھ، سن چکے ہیں۔

اگر ایک شادی شدہ عورت حمل جاری رکھنا چاہتی ہے، لیکن اس کا شوہر اسے اسقاط کرنے کی زبردستی کر رہا ہو، تو اس بات کو سمجھنا اہم ہے کہ یہ ایک تولیدی زبردستی اور تشدد ہے۔ ایسی صورتحال میں، عورت کی خود مختاری اور فیصلہ سازی کی قوت گئی بھاڑ میں۔

اگر کسی غیر شادی شدہ عورت کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ حمل ختم کرے، اور ڈاکٹر دوسری طرف کی مدد کر رہا ہے کچھ روپے کیلئے، تو یاد رکھیں کہ یہ بھی ایک جرم ہے۔ اس سے ایک مرد کی بھی اپنے ایک وعدے سے بھاگنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اور اب وہ اپنے نکاح کے وعدے کو پورا نہیں کر رہا، بلکہ عورت کو ایک جذباتی اور صحت کے مسئلے میں ڈال گیا۔

علاوہ ازیں محض لطف اندوزی کی نیت سے کیے گئے اس جنسی عمل سے عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں بھی ایک ایسا راستہ مل جاتا ہے کہ آسانی سے پلہ جھاڑ اپنی اپنی راہ جایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ خص کم جہاں پاک۔ یہاں دو مفروضے قائم ہوتے ہیں۔ اول کہ لڑکی بد چلن سو برباد سو اس کے لئے بچے سے چھٹکارہ ضروری۔ دوئم بچہ زندہ رہ کر ان دونو کے تعلق کو مضبوط بھی کر سکتا ہے۔ ہمیں حرام زدگی کرنے والے قبول ہیں حرام زادے نہیں۔

چند سکوں کے عوض ایک عورت سے ماں بننے کا حق چھین کر اس کے بچے کو رحم ہی میں مار ڈالنے والے کرداروں میں دایاں، ایل ایچ وی، ہومیو ڈاکڑ اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے ساتھ ہی نرسیں سر فہرست ہیں۔ مرد پارٹنر خواہ شوہر ہو یا بوائے فرینڈ اپنے قبیح عزائم (عورت کی کوکھ اجاڑنا) میں ان ہی نام نہاد مسیحاؤں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنا پلہ باسہولت چھڑا لیتے ہیں کہ جنسی تعلق قائم کرنا آسان اور ہر دو کیس میں بچے کی ذمہ داری مشکل لگ رہی ہوتی ہے۔ اور ہمارے ملک میں تو اس کام کے لئے ادویات بھی کھلے بندوں فروخت ہو رہی ہیں مگر حق و انصاف کہیں نہیں ملتا۔

صحت کے مسائل کی بات ہو تو بھی عورت کی جان خطرے میں ڈال دی جاتی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر یا طبی پیشہ وروں کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔

1۔ اخلاقی ذمہ داری: ڈاکٹروں کی مہارت میں ان کے مریضوں کی خود مختاری، اقرار، اور خوشحالی کو ترجیح دینے کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔

2۔ قانونی ذمہ داری: صحت کی دیکھ بھال بغیر مکمل رضاکاری یا زبردستی کے کسی عمل کی صورت میں، ہیلتھ کئیر پرووائیڈرز مریض کو نقصان یا چوٹ پہنچنے کی صورت میں جواب دہ ہوتے ہیں۔

3۔ قانون کی ذمہ داری: خصوصی معاملات حمل میں اپنا کردار نبھاتے ہوئے حمل گرانے یا جاری رکھنے کے بارے میں بروقت فیصلہ سنانا۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ باوجود شادی کے اسقاط کے نتائج ممالک، علاقے، اور ثقافت پر منحصر ہوتےہیں۔

مگر دنیا بھر کی عورت کے پاس اپنے جسم، صحت، اور خوشی کے بارے میں فیصلے کرنے کا حق ہے۔ اس کے ساتھ ان معاملات میں مجبور کرنا یا اس کے ساتھ زبردستی کرنا گناہ عظیم ہے جس کے نتیجے میں کچرے میں بن بیاہی ماؤں کے ہی نہیں بلکہ مردوں کی بیاہتاوں کی کوکھ سے نوچ کر نکالے گئے بچوں کی ہچکی بھی ملتی ہے جو اپنی ماؤں سے کہتی ہے اب جنت میں ملیں گے۔

ان بچوں کے نام جو اپنی پناہ گاہ میں مار دئیے کئے۔

"جان بہت شرمندہ ہیں"۔

Check Also

Pakistani Qaum Nakara Aur Maflooj Nahi

By Saira Kanwal