1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Qissa e Pareena

Qissa e Pareena

قصہ پارینہ

کتب بینی کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دنیا کو کتاب کی اہمیت کا پورا پورا ادراک ہے۔ پوری دنیا میں لٹریچر کو پڑھا جاتا ہے۔ سراہا جاتا ہے اور ہر سال بہت سی کتب بہترین بک سیلر کا خطاب حاصل بھی کرتی ہیں۔

ہم دوسرے معاملات کی طرح اس شعبے میں بھی روبہ زوال ہیں۔ کوئی نئی تخلیق کوئی نیا زاویہ کچھ بھی ایسا نہ لکھا جارہا اور نہ ہی اب اس کو پڑھنے والے میسر ہیں۔ جب اس چیز کا گاہک ہی مارکیٹ میں نا پید ہو تو کون اپنی پراڈکٹ بیچنے کے لئے مارکیٹ میں لے کر آئے گا۔

بک سینٹر ختم ہو رہے۔ پبلشر کو الگ سے روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم کوئی بھی نئی لائبریری نہیں بنا رہے۔ ہمیں بغور جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کچھ نیا ایسا کریں کہ نئی نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کیا جا سکے۔

بہت سوں کے نزدیک جدت طرازی ایک بڑی وجہ ہے۔ اور ان کا یہ گیان کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ کتاب کی جگہ موبائل ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ نئی نسل کی دلچسپی کا محور بدل چکا ہے۔ سب ایک سائنسی طرز پر بچوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم ایک کتاب خریدنے کی بجائے ہوٹلنگ پر اپنا سارا بجٹ خرچ کر لیں گے اپنے بچے کو پیزا تو لے دیں گے اس سے آدھی قیمت کی کتاب خرید کر نہیں دیں گے۔ کتب بینی کے حوالے سے دیکھا جائے تو چالیس سال سے اوپر کے لوگ اب آخری کھیپ ہیں جو مطالعہ میں تھوڑی بہت دلچسپی رکھتی ہے۔ لگتا کتب بینی اب قصہ پارینہ ہو چکی ہے۔

جیسے بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں ایسے ہی کتاب کا معاملہ ہے۔ اب اس طرح ہاتھ میں لیکر یا سرہانے کی نیچے رکھ کر اب خال خال لوگ ہی ہیں جو یہ سب کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا زمانے کے حساب سے ہمیں ای ٹیکنالوجی پر اپنے تمام لٹریچر منتقل کرنا ہوگا۔ نئے لکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کریں۔ اپنا لکھا ہوا مواد نیٹ پر شئیر کریں۔ زیادہ سے زیادہ ای لائبریرئز لانچ کی جائیں۔ زیادہ سے زیادہ ویب سائٹس لانچ کی جائیں۔ اسکول کالجز کی سطح پر کتب بینی کو بذریعہ ای ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ لکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ نئی نسل کی پسند سوچ کے مطابق لکھیں۔ تا کہ ان کے اندر پڑھنے کی دلچسپی بنی رہے۔ لمبی لمبی سیریز لکھنے کی بجائے مختصر لیکن پر اثر تحریریں لکھی جائیں۔ بوریت کا عنصر کم ہو۔

بیشک کتاب سے بہتر کوئی دوست نہیں ہوتا۔ مشاہدہ یہی کہتا کہ جو لوگ کتب بینی میں مشغول رہتے ان کی زندگی میں ٹھراؤ آ جاتا ہے۔ بلاوجہ بحث و مباحثہ سے اجتناب کرتے قوت برداشت میں اضافہ ہو جاتا مخالف فریق کی سخت سے سخت بات کو برداشت کر لیتے ہیں مخالف فریق کو دلائل سے اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں۔ ایک پر امن معاشرہ کے لئے کتب بینی اہم رول ادا کرتی ہے۔ ہمیں اس عالمی دن کے موقع پر خود سے عہد کرنا ہوگا کہ کتب بینی کو فروغ دیں گے اپنے بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کریں گے۔ چاہے ای ٹیکنالوجی کی مدد سے یا فزیکل کتاب خرید کر دینے سے کنجوسی سے کام نہیں لیں گے۔

جب تک ہم اپنے بچوں میں نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے ایک اچھی قوم میں تبدیل نہیں کر سکتے۔

اگر یہی صورتحال رہی تو کتب بینی ایک قصہ پارینہ بن جائے گی۔

Check Also

Adalti Islahat Aur Mojooda Adliya

By Raheel Moavia