Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ilyas Kabeer/
  4. Dr. Amir Sohail Ke Matan Se Iktissab

Dr. Amir Sohail Ke Matan Se Iktissab

ڈاکٹر عامر سہیل کے متن سے اکتساب

ڈاکٹر عامر سہیل کا دل و دماغ اور مزاج و مذاق ہمیشہ ہمہ وقتی علمی مصروفیت کا متقاضی اور مشتاق رہا ہے۔ وہ چوں کہ تحریر و تقریر کے رسیا بلکہ کن رسیا ہیں اس لیے منتظمانہ سلسلہ ہائے دراز ان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ وہ اس دوران شدید بیزاری اور تکان کی گپھا میں چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بیزاری انھیں اپنے یمین و یسار سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ شاید اسی بے ربط ترتیبِ کار کی وجہ سے ان کی تحقیق و تنقید کی ندی میں جز وقتی ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ لیکن وہ انجماد کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اس میں جلد ہی ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کا کچھ نیا کام سامنے آتا ہی رہتا ہے۔

"اکتساب" ڈاکٹر عامر کے اسی ارتعاش کی نئی صورت گری ہے۔ تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی ان لکھتوں میں ان کا استادانہ اسلوب بار بار اپنے جلوے دکھاتا ہے۔ اس میں انھوں نے بیسویں صدی میں رونما ہونے والی ادبی تحریکوں داداازم، سرریلزم، وجودیت، علامت نگاری، رومانویت، ترقی پسندی اور حلقہ اربابِ ذوق سمیت متعدد موضوعات کو اپنے تنقیدی مباحث کا حصہ بنایا ہے۔

"اکتساب" میں اردو کے رومانوی طرزِ فکرکے نمائندہ صاحبِ اسلوب سجاد انصاری کی تخلیقی کائنات کا بڑی عمیق نگہی سے تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے رومانوی نثر نگار سجاد انصاری کی کتاب "محشرِ خیال" کی ترتیبِ نو بھی کر رکھی ہے۔ اس کتاب نے اپنے جداگانہ اور جرات آمیز اسلوب کی بدولت مسلسل رد و قبول کا محشر برپا کیے رکھا۔ پہلے اسے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایم اے کے نصاب میں شامل کیا گیا، لیکن بعد ازاں بعض حلقوں اور عبدالماجد دریا بادی اور مولانا حبیب الرحمن شیروانی وغیرھم کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا تو اسے نصاب سے خارج کر دیا گیا۔ اس کتاب کے چند اقتباسات سجاد انصاری کی جراتِ اظہار کے آئینہ دار ہیں:

"عورت کے بغیر نہ دنیا یہ دنیا ہوتی جس کا ایک کرشمہ عقبیٰ کے ہزاروں نیرنگیوں سے زیادہ دل کش ہے اور نہ بہشت جس کا لالچ دلا کر مذہب نے جوانِ صالح کو نفس کشی اور لذت شکنی کے ایسے مصائب برداشت کرنے کے لیے آمادہ کر دیا۔ "

۔۔

"حقیقت یہ ہے کہ ایک حُسن شناس کے لیے حُسن ہی اس کی جزا ہے اور ایک بد مذاق کے لیے وہی اُس کی سزا۔ "

۔۔

" ایک لطیف گناہ ہزاروں خشک نیکیوں سے بالاتر ہے۔ عقبیٰ کی دور اندیشیاں اُسی دماغ کے لیے ہیں۔ جس میں دنیا کی حقیقی رنگینیوں میں محو ہو جانے کی صلاحیت نہیں۔ "

۔۔

"مجھے عقبیٰ سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ اُس کا منتظر ضرور ہوں۔ میں قرۃ العین (طاہرہ) کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں۔ "

۔۔

"فرشتے کی انتہا یہ ہے کہ شیطان ہو جائے۔ ایک حقیقت جب پلٹتی ہے دوسری حقیقت ہو جاتی ہے۔ خدا نے ابتدا میں صرف فرشتوں کو پیدا کیا تھا، اس وقت تخلیقِ شیطنت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ خود ملکوتیت میں تمام عناصرِ شیطنت مضمر ہیں۔ سلسلہ ارتقا سے شیطان خود بخود پیدا ہو جائے گا۔ "

اس کتاب کا نہایت اہم مضمون "مغائرت کے تصورات، استعماریت اور ادبی صورت حال" ہے جسے انھوں نے انیسویں صدی کے تناظر میں دیکھا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ مغائرت کی بحث کا آغاز فٹشے اور ہیگل کے فلسفے سے ہوا۔ لیکن مارکس نے اس کو مربوط مادی نظریے کے طور پر پیش کیا۔ مغائرت کی مکروہ شکل استعماریت پیدا کردہ ہے۔ استعماری جبر کس رنگ ڈھنگ سے مقامی فکر و دانش اور زبان و ثقافت کو مغائرت زدہ کرتا ہے۔

مجید امجد ڈاکٹر عامر کا محبوب شاعر ہے۔ یہی "محبوبائی" انھیں پی ایچ ڈی کی سندی تحقیق کی جانب کھینچ لائی تو انھوں نے اسے محض مقالہ نہیں بنایا بلکہ اسے مروجہ تحقیقی یبوستگی سے بچاتے ہوئے اپنے خوش کن اسلوب میں بیان کر دیا۔ "مجید امجد: بیاضِ آرزو بکف"، "مجید امجد: نقش گرِ ناتمام"، "مجید امجد شناسی بحوالہ مجلہ اوراق" اور "انگارے" کا "مجید امجد نمبر" اسی محبت کی مختلف النوع شکلیں ہیں۔

مجید امجد سے اسی عشق نے ڈاکٹر عامر کو اپنی اور کھینچا تو وہ مزید درج ذیل چار نئے مضامین محبینِ امجد کے سامنے لائے:

1۔ فسانہ آدم": مجید امجد کی ایک نادر قلمی دستاویز"

2۔ اکیسویں صدی کا نظامِ زر اور مجید امجد

3۔ مجید مجد کی شعری ہیئتیں: تحقیقی مطالعہ"

4۔ مجید امجد کی غزل گوئی کے فکری ابعاد

اؤل الذکر مضمون میں ڈاکٹر عامر نے مجید امجد کا ایک ایسا قلمی نسخہ دریافت کیا ہے جو امجد کے سائنسی شعور اور علمِ فلکیات پر گہری نظر کا غماز ہے۔

ثانی الذکر مضمون میں مجید امجد کے فکر و فن کو اکیسویں صدی میں رونما بلکہ مسلط ہونے والے نظامِ زر کے سیاق میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زر نے فرد سے اس کی بنیادی شناخت چھین کر اسے مشین بنا دیا ہے۔ مجید امجد جیسا بڑا تخلیقی ذہن اس صورتِ حال سے کیسے چشم پوشی کر سکتا تھا، سو انھوں نے اس حوالے سے اپنی نظموں میں بڑا بھرپور تخلیقی اظہار کیا۔

ثالث الذکر مضمون میں مجید امجد کی شعری ہئیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اسے چار عہود میں تقسیم کیا ہے۔ امجد کے ہاں یہ ہیئتی تجربے اس کی بنیادی شناخت کا باعث ہیں۔

موخر الذکر مضمون کو "مجید امجد کی غزل گوئی کے فکری ابعاد" کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ مجید امجد کی نمایاں شناخت تو ایک نظم گو شاعر کی ہے۔ لیکن انھوں نے غیر روایتی غزلیں بھی کہہ رکھی ہیں۔ اگرچہ ان کی اکثر غزلوں پر نظم کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ بہرحال ان کی قادرالکلامی کا نمایاں ثبوت ہیں کہ غزل جیسی صنف میں بھی ان کا تخلیقی وفور بدرجہ اتم موجود ہے۔

ڈاکٹر عامر سہیل کی تحریروں میں یہ برکت اور اعجاز ان کی برسوں کی مطالعاتی یکسوئی اور گہری سنجیدگی کی غماز ہے۔ اگر "اکتساب" کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تو یقینِ واثق ہو جاتا ہے:

کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی

عکس پبلی کیشنز لاہور کے دوست محمد فہد نے ڈاکٹر عامر سہیل سے کسبِ فیض کرتے ہوئے ان سے "اکتساب" میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وثوق اغلب ہے کہ وہ ڈاکٹر عامر کے متعدد ایسے متون سامنے لائیں گے جو قریب قریب تسوید ہو چکے ہیں۔

Check Also

Netflix Ki Heera Mandi Aur Ashfaq Ahmed Ka Talqeen Shah

By Nusrat Javed