Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Aik Zindagi Aik Makaan Ke Liye

Aik Zindagi Aik Makaan Ke Liye

ایک زندگی ایک مکان کے لیے

جس رات آپ کا بچہ روتا ہے، آپ نیم خوابیدہ آنکھوں کے ساتھ اسے اٹھا کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں، پہروں اُسے اٹھا کر کمرے میں ٹہلتے رہتے ہیں، کسی پنڈولم کی طرح دائیں سے باہیں اور بائیں سے دائیں چکر کاٹتے رہتے ہیں، اُس دن پہلی مرتبہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ یا والد نے ایسی کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی؟

والدین کے رتجگوں کا یہ پہلا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب آپ کی زندگی کے کوئی تین عشرے گزر چکے ہوتے ہیں۔

تب آپ سوچتے ہیں، او میرے خدایا! تب تو آج جیسی آسائشیں نہیں تھیں، میری والدہ نے رات کو اٹھ کر کتنی مرتبہ میرا لنگوٹ بدلا ہوگا، تب ہیٹر تو نہیں تھے، اگر چارپائی گیلی ہوئی ہوگی تو والدہ سردیوں میں اس گیلی جگہ خود لیٹ گئی ہوں گی؟ میرے رونے سے والد بھی رات کو کئی مرتبہ جاگے ہوں گے اور پھر مزدوری کے لیے صبح کام پر بھی گئے ہوں گے۔

والدین کے رتجگوں کا یہ پہلا احساس آپ کو اپنے پہلے رتجگے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن تب تک بہت سوں کے والدین اس دنیا سے ہی کوچ کر چکے ہوتے ہیں۔

اولاد والدین کی محبت کو محبت ہی نہیں سمجھتی۔ والدہ کی چاہت کو، والد کی شفقت کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاتی۔ جب ان چیزوں کی سمجھ آتی ہے، جب آپ ایک عاشق کی طرح جوابی محبت کرنا شروع کرتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

کوئی پندرہ بیس برس پہلے تقدیر نے کروٹ لینا شروع کی تو مجھ سمیت بھائیوں کے دن بدلنا شروع ہو گئے۔ ایک دن آیا کہ سائیکلوں والوں نے کاریں خرید لیں۔ ایک مزدور کے بیٹوں نے زمینیں خریدیں اور اپنے اپنے گھر بنا لیے۔

چند برس پہلے کی بات ہے کہ میں پاکستان گیا ہوا تھا۔ گھر میں آتے جاتے ایک فقرہ کان سے گزرا کہ والد صاحب تو کچھ نہ بنا سکے لیکن ہم نے بہت کچھ بنا لیا ہے۔

اس وقت میں نے یہ فقرہ سُنا اَن سُنا کر دیا۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے یہ فقرہ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح آ کر لگ رہا ہے۔

میرا جرمنی میں کبھی بھی کوئی گھر خریدنے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ پاکستان میں بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ فقط اور فقط والد صاحب تھے، جن کی ساری عمر ایک گھر تعمیر کرتے ہوئے بیت گئی لیکن جب دو کمرے، ایک باورچی خانہ اور ایک بیٹھک تعمیر ہوئی تو حصہ مانگنے والے تیار کھڑے تھے۔

میں چھوٹا سا تھا تو بیٹھک کی صرف چھوٹی چھوٹی دیواریں کھڑی تھیں۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا تو گھر کا کچا صحن سرخ اینٹوں سے فرش میں تبدیل ہوتا گیا۔ ایک وقت آیا کہ کچی چھت لینٹر میں تبدیل ہوگئی، گھر میں چونے کی کلی کی بجائے پہلی مرتبہ پینٹ ہوا، کولر کی جگہ فریج آئی، کئی برسوں بعد بیٹھک کی بھی چھت مکمل ہوگئی۔

میرے لیے یہ سب کچھ نارمل تھا، اس میں کیا انوکھی بات ہو سکتی ہے؟ سبھی کے گھر تعمیر ہوتے ہیں، سبھی کے لینٹر پڑتے ہیں۔

لیکن اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ سب کچھ نارمل نہیں تھا۔ ایک مزدور کی زندگی بھر کی کمائی پانچ مرلے کا ایک مکان بنانے پر لگی تھی۔ تھکی ہوئی آنکھوں نے کتنی راتوں کو سونے سے پہلے یہ حساب کتاب کیا ہوگا کہ اس مرتبہ صحن کی اینٹوں کے لیے پیسے جمع کرنے ہیں۔

ایک لاغر جسم نے کتنی مرتبہ یہ ہمت کی ہوگی کہ بخار کے باوجود آج کام پر گیا ہوگا تاکہ اولاد کے خرچے پورے ہو سکیں۔

بیٹھک پر لگنے والے سیمنٹ کی بیس بوریوں کے لیے کتنے برس پیسے جمع کیے ہوں گے؟

ہمارے محلے میں بابا چَنن ہوا کرتے تھے۔ ہم گُلی ڈنڈا کھیلنے کے لیے ان سے گُلی بنوایا کرتے تھے اور مزدوری کی جگہ ایک اینٹ دیا کرتے تھے۔

مجھے اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ بابا پیسوں کی بجائے مزدوری میں ایک اینٹ کیوں لیتا ہے؟

لیکن اب سمجھ آیا ہے کہ بابے چَنن نے چار پانچ سال کی محنت سے فقط ایک دیوار مکمل کی تھی۔

اب خیال آتا ہے کہ انسان ساری زندگی تین کمروں کا مکان بنانے میں کھپا دیتا ہے اور اولاد بے دھیانی میں یہ کہہ دیتی ہے کہ ہمارے والد تو ہمارے لیے کچھ خاص نہیں بنا سکے تھے۔

ہاتھوں پر پڑنے والی چَنڈیاں، جون جولائی کی مزدوری، دھوپ سے بازوں کے براؤن ہونے والے بال، فکروں میں کٹی راتیں، بڑھاپے میں محنت سے چٹختی ہڈیاں، سوکھی آنکھوں میں اولاد کے لیے ذاتی گھر کا خواب پالنے والے کو کون یاد رکھتا ہے؟

میں سوچتا ہوں کہ جس دن والد صاحب نے اولاد میں یہ گھر تقسیم کیا ہوگا، تو وہ رات، وہ کیا سوچتے رہے ہوں گے؟

اس رات انہوں نے یہ تو سوچا ہوگا کہ اب میں کس کمرے میں رہوں گا؟ اس رات ان پراسرار آنکھوں سے نیند تو کوسوں دور ہی رہی ہوگی۔ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے ہوئے دل تو کئی مرتبہ ٹھہر گیا ہوگا۔

شاید میں ابھی اُس بوڑھے جسم کی، عشروں سے تھکے ہوئے دل و دماغ کی یہ کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔

شاید مجھے یہ کیفیت سمجھ آئے، جب میں اپنا گھر تقسیم کروں گا، جب میں خود یہ سوچوں گا کہ مجھے اب کون سا کمرہ ملے گا، پتہ نہیں ملے گا بھی نہیں؟

اپنا گھر لیا ہے تو پہلی مرتبہ یہ سارے سوال ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ چند برسوں پہلے یونہی بے دھیانی میں سنا ہوا فقرہ بار بار یاد آ رہا ہے۔

سوچ رہا ہوں کہ جب میں دنیا میں نہیں رہوں گا تو کسی محفل میں ایسا ہی کوئی فقرہ گونجے کہ والد صاحب تو ہمارے لیے کچھ خاص نہیں بنا سکے تھے۔

ایک وقت آتا ہے، آپ سوچتے ہیں کہ او میرے خدایا! ہمارے والدین ہم کتنی محبت کرتے تھے لیکن جب تک یہ ادراک پیدا ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس ادراک اور فہم کے بیچ عشروں کا فاصلہ ہے، آپ کی اور میری جوانی کو جھریوں والے چہرے میں تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ خیال ہے، ادراک ہے، نہروں میں چھوٹی چھوٹی چکیوں کی شکل گھومنے والے پانی کی طرح ماضی میں ڈبکیاں ہیں۔

یہ ڈبکیاں لمحوں کی نہیں عشروں کی ہیں اور پھر یہ احساس پیدا ہوتا کہ والدین ہم سے کتنی محبت کرتے تھے۔ لیکن تب تک ٹرین اسٹیشن سے نکل چکی ہوتی ہے، صدیوں سے زندگیوں کو نگل جانے والی موت اولاد کے لیے قربانیاں دینے والوں کو اپنی چادر میں لپیٹ چکی ہوتی ہے۔

جو جوانی کبھی برف تھی، وہ سورج کی تپش میں پگھل چکی ہوتی ہے، گزرنے والی ٹرین کی گرد تک بیٹھ چکی ہوتی ہے اور قبروں پر کنندہ نام تک مٹ چکے ہوتے ہیں۔

والدین کی بے لوث محبت کا ادراک پیدا ہوتا ہے لیکن اس میں عشرے لگتے ہیں، آپ کو اپنے ہاتھوں کی جھریوں میں والدین کی جھریاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

جس نے ہماری پرورش کے لیے اپنی زندگی نچوڑ دی، جس کی جوانی مزدوری کرتے ہوئے ہوا میں تحلیل ہوگئی، جس نے ہماری زندگیوں کے کھارے پانی میں رس گھولنے لیے اپنی کمر جھُکا دی، جس کی آنکھوں کے خواب ایک مکان کی تعمیر کا حساب کتاب کرتے ہوئے بوڑھے ہو گئے، آج اس محنت کش کی بارہویں برسی ہے۔

آپ سب دوستوں سے ان کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین

یٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

Check Also

Teen Hath

By Syed Tanzeel Ashfaq