Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Javed Ayaz Khan/
  4. Ghurbat Aur Hamara Buland Miyar e Zindagi

Ghurbat Aur Hamara Buland Miyar e Zindagi

غربت اور ہمارا بلند معیار زندگی

آجکل ہر شخص غربت کے ہاتھوں تنگ نظر آتا ہے غربت کے مارے پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر بے حد تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے اخراجات ان کی آمدنی سے زیادہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور مہنگائی سے تنگ عوام خودکشیوں تک سوچنے پر مجبور ہے ضروریات زندگی رفتہ رفتہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بجلی اور گیس کا بل اور پیٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں ہیں سادہ زبان میں کہیں تو مہنگائی کسی چیز کی قیمت میں اضافے کا نام ہوتی ہے موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ لوگوں کی قور خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگوں نے یا تو خریدنی چھوڑ دی ہیں یا پھر ان کا متبادل تلاش کر رہے ہیں اقتصادی ماہرین اسے "ڈیمانڈ ڈسٹرکشن " کہتے ہیں یعنی طلب کا ختم ہو جان۔

مہنگائی کی ایک وجہ اشیاء کی طلب اور رسد کا فرق بھی ہوتا ہے کسی بھی چیز کی رسد اگر طلب سے کم ہو تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جبکہ اس وقت اجرتیں اور تنخواہیں بلکل بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھ رہیں ہیں لیکن معیار زندگی دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے بہت سی چیزوں کی طلب کم ہونے سے قیمتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے جیسے بجلی اور گیس کے کم استعمال سے ان کا بل کم آے گا گاری اور موٹرسایکل کے کم استعمال سے پیٹرول کم خرچ ہوگا ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طلب میں کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو ان کے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے جب تک لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر منتقل نہ ہو جائیں مہنگائی کا مقابلہ صرف سادگی اپنانے اور بلند معیار زندگی کے لیے طلب میں کمی سے کسی حد تک ضرور کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی آبادی میں ہر سال اڑتالیس لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے ان سب کو رہائش، خوراک، پانی، تعلیم، علاج، روزگار، سیوریج وغیرہ کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور پیٹرول کی سہولتیں درکار ہوتی ہیں اس آبادی میں اضافے سے پاکستان کے وسائل پر دباو بڑھ رہا ہے جو طلب اور رسد کے توازن کو یکساں نہ رکھ پا رہا ہے۔

پچھلے دنوں میرے ایک پرانے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو بڑے عرصہ بعد امریکہ سے آے ُ تو ملاقات کے دوران کہنے لگے یار یہ غربت پاکستان میں کیوں بڑھ گئی ہے؟ تو میں نے کہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور بےروزگاری کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی آمدنی کے مقابلے میں اس کے اخراجات میں اضافہ دراصل ہماری غربت کی اصل وجہ ہے۔ تو انہوں نے میری بات سے اتفاق نہ کیا اور کہنے لگے یار جاوید تمہاری یہ بات بھی شاید کسی حد تک درست ہو مگر میری راے ُ میں آجکل ہم جسے غربت کہتے ہیں وہ دراصل ہماری بے تحاشا خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔

ہم نے اپنے معیار زندگی اسقدر بڑھا لیے ہیں کہ جنہیں پورا کرنا مشکل ہوتا چلا جارہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری خواہشات اور ہمارا معیار زندگی تو بڑھ رہے ہیں مگر آمدنی اور روزگار وہی کے وہی ہیں اب یا تو ہم اپنی آمدنی بڑھا لیں یا پھر اپنی خواہشات کو محدود کرلیں تو بہتری آسکتی ہے پھر وہ کہنے لگے میں بڑے عرصے بعد پاکستان آیا ہوں تو بڑی حیرت ہوئی ہے کہ ہمارا معیار زندگی بڑھتا چلا جارہا ہے ہم سہولیات کے مزے لینے کے چکر میں اپنی آمدنی سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید اتنی غربت نہیں ہے جتنا لوگ شور مچاتے ہیں پاکستان میں آج ہر گھر میں کام کرنے والی ملازمہ نظر آتی ہے جسکا امریکہ اور یورپ میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ کہنے لگے کہ ہمارے اباجی نمبردار تھے اور ان کی دو مربع زمین تھی اور ہم آٹھ بہن بھائی تھے ہمارا شمار خوشحال گھرانوں میں ہوتا تھا جبکہ ہمارا معیار زندگی یہ تھا کہ ہم اپنے دیہات کے کچے گھر میں رہتے تھے۔

جہاں گھروں میں واش روم تک کا کوئی تصور نہ تھا ہمارے گھر کی ڈیوڑھی ہوتی تھی دروازے نہیں تھے۔ دو وقت کھانا کھاتے تھے گھر میں دن میں ایک دفعہ سالن بنتا تھا گھر میں بجلی گیس فون جیسی چیزوں کا کوئی تصور نہ تھا رات کو مٹی کے دئیے جلاتے اور گوبر کے گوہے اور لکڑیوں سے آگ جلاتے تھے سردی دور کرنے کے لیے سب بہن بھائی چولہے کے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے اور گرمی سے بچنے کے لیے نیم کی گھنی چھاوں سکون بخشتی تھی۔ سواری کے لیے سایکل کسی کسی کے پاس ہوتا تھا ورنہ گدھے اور گھوڑے کی سواری دستیاب تھی یا پھر پورے گاوں میں ایک گھوڑا تانگہ ہوتا تھا جو لوگوں کو سفر کی سہولت فراہم کرتا تھا ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استعمال کرتے تھے۔

اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کرکے بار بار پہنتے تھے جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔

آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل، کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ہے میں غریب ہوں آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے شاید ہم ناشکرے ہوگئے ہیں، اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔

آج ہمیں دنیا کی تمام تر نعمتیں میسر ہیں ہر ایک پختہ گھر میں فرج، ائرکنڈ یشن، ہیٹر، استری، ٹی وی، فون اور موبائل فون، سواری کے لیے گاڑیاں اور موٹر سایکل پہننے کو قیمتی کپڑے اور جوتیاں غرض گھریلو استعمال کی تمام تر سہولتیں میسر ہیں جو ہمارے اخراجات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

پہلے دو وقت کھانا کھایا جاتا تھا اب بیڈ ٹی، ناشتہ، ظہرانہ، عصرانہ اور پھر عشائیہ پہلے مہمان نوازی لسی پانی سے کی جاتی تھی اب چاے، کولڈ ڈرنک عام ہو چکی ہے۔ سادگی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تو پھر خرچ بڑھنا ہی ہے۔ ترقی یافتہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں توانائی کی بچت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں ہے وہاں گھر گھر میں گھریلو ملازم کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان کے خیال میں سادگی اپنا کر اور اپنے غیرضروری اخراجات میں کمی سے گو ہم غربت ختم نہٰیں کر سکتے مگر اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان تو بنا سکتے ہیں جس کے لیے ہمیں اپنے معیار زندگی کو بدلنے کے لیے سادگی کو اپنانا ہوگا۔

قوم کا معیار زندگی بڑھانے کے لیے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے نئی اور موثر حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ آبادی بڑھنے کی شرح کم ہوسکے تبھی وسائل پر دباو ُ بھی کم ہو سکے گا مثلا" قیام پاکستان کے وقت ہر پاکستانی کو چھپن سو کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو اب آبادی کے بڑھنے سے سات سو کیوبک میٹر رہ گیا ہے اسی طرح غذاوں کی پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں ہوا مگر کھانے والے زیادہ ہو گئے ہیں اس وجہ سے غذاوں کی قلت ان کو مہنگا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی اہم وجہ ہے لیکن توانائی کی بچت کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی سامنے نہیں آرہی جو عام آدمی کو ریلیف دے سکے۔ مہنگائی سے متاثر لوگوں کی تعداد اسی فیصد ہے جو اب مزید مہنگائی کے کسی بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے سواے اس کے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی اپنا کر اپنے معیار زندگی کو کم کر لیں تو بہتر ہے۔

جبکہ باقی بیس فیصد اشرافیہ جو بیشتر وسائل پر قابض ہے اور مزے سے زندگی بسر کر رہی ہے اگر ہماری حکومت واقعی غربت اور مہنگائی میں کمی لانا چاہتی ہے تو ان بیس فیصد اشرافیہ سے قربانی طلب کرنی پڑے گی آج اسی فیصد غریب طبقہ کو ائیر ایمبونس، ائرپورٹ اور آئی ٹی سنٹر سے زیادہ تین سو یونٹ فری بجلی اور مہنگائی بےروزگاری میں فوری کمی کے وعدوں کے پورے کرنے کا انتظار ہے۔ یاد رہے مہنگائی غربت اور بےروزگاری کا معاشی دباو ہمیشہ سیاسی دباو سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman