Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Kitabon Ki Faryad

Kitabon Ki Faryad

کتابوں کی فریاد

وفا کے تذکرے بس رہ گئے کتابوں میں
ستم تو یہ کہ کتابوں کا دور بھی نہ رہا

وطن عزیز میں ہر سو مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ عوام وخواص ضروریات زندگی تک محدود ہو چکے ہیں۔ ایسے میں انسان کا کتاب سے رشتہ کمزور ہوتا چلا جارہاہے۔ دوسری جانب انٹرنیٹ نے رفتہ رفتہ کتابوں کی جگہ لے لی ہے۔ موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال سے کتابوں کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔۔

پچھلے دنوں مجھے ایک ردی خریدنے والے کباڑیے کی ریڑی پر بہت سی پرانی کتب نظر آئیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی ان کتب میں بہت سی نایاب اور عمدہ کتب شامل تھیں۔ کئی شعری مجموعے، نثر نگاری، سفر نامے، معلوماتی تحریریں، بچوں کی کہانیوں کی کتب اور طلبہ کے کورس دیکھ کر بے حد دکھ ہوا کہ ہمارا ادبی اور تعلیمی اثاثہ اب ردی کے بھاو بک رہا ہے اور مزید دکھ یہ دیکھ کر ہوا کہ یہ کتب ہمارے شاعر اور ادیب حضرات نے اپنے قریبی دوستوں کو ہدیہ یا تحفہ دی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان پر ان کے "بصد خلوص" کے لکھے لفظ دینے والوں کی محبت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ جنہیں کھول کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ بیشتر صفحات آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔

آجکل کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں کوئی چیز چھپانی ہو تو ہے کتابوں میں رکھ دینا۔ یہ نسل اب کتاب نہیں کھولتی اس لیے محفوظ رہے گی۔ اس سے قبل لاہور مال روڈ پر اتوار کے دن پرانی کتابوں کو فٹ پاتھ پر بکتے دیکھ چکا ہوں۔ میں جب بھی لاہور جاتا ہوں وہاں سے کوئی نہ کوئی نایاب کتاب کوڑی کے بھاوُ ہاتھ لگ ہی جاتی ہے۔ اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں تو آپکو سڑک کنارے ایسی ایسی کئی زمینی لائبریریاں لاہور مال روڈ اور انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ہر اتوار باآسانی مل سکتی ہیں۔ جہاں سے مفت برابر کتاب لیکر اسکے اوراق پلٹتے ہوے کاغذ کی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مطالعہ کی حس کو آپ تسکین بھی پہنچاسکتے ہیں۔

اس مرتبہ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں گیا تو حیرت ہوئی کہ پہلے کی طرح وہاں لوگوں کی بھیڑ اور رش نہ تھا۔ شاید ہم چند بوڑھے لوگ ہی کتابیں دیکھ رہے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ پرانی کتب فروشی کا کاروبار اس وقت بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ مہنگائی اور حکومتی عدم توجہی کے ساتھ ساتھ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہیں اور یہ سب سمارٹ فون کی ہی کارستانی ہے کہ پرانی کتابوں کے اتوار بازار بھی اب خریداروں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ جسکی ایک وجہ قاری اور کتاب کے باہمی رشتے کی زوال پذیری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ کتب ردی کے بھاو بک رہی ہیں لیکن دوسری جانب بڑے بڑے بک فیر منعقد ہورہے ہیں جہاں نہایت مہنگے داموں کتب شاید اس لیے خریدی جاتی ہیں کہ انہیں گھروں کے شیلف میں سجا کر اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کیا جا سکے۔

کتابوں کے مطالعہ کا شوق دم تور رہا ہے۔ اکثر لوگ نے اخبار اور رسائل تک پڑھنے چھوڑ دیے ہیں حالانکہ جو کتاب پڑھنے کا فائدہ ہے وہ آن لائن پڑھنے سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن نئی نسل تو شارٹ کٹ کی عادی ہو چکی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچھتر فیصد طلبہ نے اپنے کورس کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی اور صرف پانچ فیصد نوجوان ادبی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ بھی اپنا شوق انٹرنیٹ سے پورا کر لیتے ہیں۔ مشہور دانشور گوئٹے نے کہا تھا "بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہےکہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے میں نے اپنے اسی سال لگا دئیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صیح سمت کی جانب ہوں"۔

روشن ہے یہ جہان
کتابوں کے نور سے

کہتے ہیں کہ مصر کے ایک بازار میں ایک کتب فروش اکثر اپنی دوکان کھلی چھوڑ کر چلا جاتا تھا ایک روز کسی نے پوچھا کہ میاں تجھے کتب چوری ہونے کا ڈر نہیں ہوتا؟ اس نے ہنس کر کہا بھائی چور کبھی مطالعہ نہیں کرتا اور جو مطالعہ کرتا ہے وہ کبھی چوری نہیں کرتا کاش چوروں کو مطالعہ کا شوق ہوجاے!

آجکل میڈیا پر توشہ خانہ کے بارے میں خبریں گرم ہیں حیرت اس بات کی ہے کہ توشہ خانہ میں موجود ہر تحفہ خریدا گیا لیکن کتب کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے انہیں لائبریری میں جمع کرادیا گیا جہاں وہ اپنی کم مائیگی پر آج بھی فریاد کناں ہیں۔ مجھے ایک دوست نے کہا تم اردو میں یہ طویل کالم کیوں لکھتے ہو؟ اردو میں یہ لکھنا، اور اردو میں بات کرنا، آپ کو رسماََ فرسودہ اور پرانے دور سے تعلق رکھنے والا ظاہر کرتا ہے تو میں نے اسے جواب دیا کہ اس لیے نہیں کہ میں انگریزی میں کالم نہیں لکھ سکتا بلکہ اس لیے لکھتا ہوں کے مجھے لکھنے سے پہلے پڑھنا پڑتا ہے اور مجھے اپنی قومی زبان پر فخر ہے۔

کوئی پڑھے یا نہ پڑھے میں کتابیں پڑھتا اور کالم لکھتا رہوں گا۔ کیونکہ ایک چینی کہاوت ہے کہ "جب آدمی دس کتابیں پڑھتا ہے تو وہ دس ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے" اور میں سمجھتا ہوں"یقیناََ میرے کالم میرے دوستوں اور چاہنے والوں کے لیے میرے وہ خطوط ہیں جن کے ذریعے مجھے اپنا دکھ اور خوشیاں انکے ساتھ بانٹنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک فلسفہ دان کے بقول "کتابیں ایک طویل ترین خط ہے جو ایک دوست کے نام لکھا گیا ہو "ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس اوسطا" صرف چھ پیسے سالانہ کتاب کے لیے خرچ کئے جاتے ہیں۔

ہمیں پہننے کے جوتے تو خوبصورت شوکیس میں رکھ کر دیکھاے جاتے ہیں لیکن کتابیں ڈھیریوں، رہڑیوں، تھڑوں، زمین اور فٹ پاتھ پر پڑی نظر آتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ جس معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا شوق نہ ہو وہ معاشرے کبھی شعور کی اعلیٰ منزل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کہ کتابیں خاموش استاد ہوتی ہیں۔ مطالعہ زندگی کو مزید زندگی عطا کرتا ہے۔ جرمن کہاوت ہے کہ اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کردیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔۔ زندگی کو جاننے کی بھوک!

میں اس دن سے حراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو نہ کتابوں میں نہ رکھے کوئی

خدارا! کتابیں پڑھیں، چاہے جس زبان میں بھی ہوں اور جس موضوح پر بھی ہوں۔ ہر ایک کتاب سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ کتابیں خاموش استاد ہوتی ہیں اور استاد ہمیشہ قابل قدر ہوتے ہیں آپ نے یقیناََ کئی ایسی کتابوں کے بارے میں ضرور سنا ہوگا جو پڑھنے والے کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں کتابیں ہمیں شعور حیات دیتی ہیں اور ہماری انفرادی اور اجتماعی کردار سازی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کتابیں ہمارے ادیبوں، دانشوروں، شاعروں اور ماہرین فن کا سرمایہ حیات ہوتی ہیں انہیں اپنے سینوں سے لگا کر رکھیں ایک عربی کہاوت ہے " کتاب جیب میں رکھا ہوا ایک گلستان ہے"۔ بقوم میر تقی میر ؔ

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد وغم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

کاش ہم یہ جان سکیں کہ سڑکوں، فٹ پاتھوں اور تھڑوں پر یہ کتابیں کیسے تخلیق ہوتی ہیں؟ کتنے ہی شاعروں اور ادیبوں کا خون جگر ان میں شامل ہوتا ہے؟ اور زندگی کے کتنے قیمتی لمحات ان کی نذر ہو جاتے ہیں؟ کاش ہم پچیس روپے کلو ردی کی قیمت میں ان فن پاروں کو بیچنے کی بجاۓ ہر شہر میں ایک دیوار کتب یا بک بنک بنا دیں جہاں ایک محفوظ لکڑی یا لوہے کی الماری میں ہر شخص اپنی فالتو کتاب رکھ جاے اور ہر ضرورت مند اور مطالعہ کے شوقین وہاں سے مفت حاصل کر سکیں۔

دوسرے ایک مرتبہ پھر پہلے کی طرح گلی محلوں میں نجی مفت لائبریریوں کو پھر سے فروغ دیا جائے۔ حکومتی سطح پر ہر شہر میں بک بینک بناۓ جائیں جہاں فالتو کتب عطیہ کی جاسکیں اورطلبہ کو مفت دی جائیں۔ میری ان شاعروں اور دانشوروں سے بھی گزارش ہے کہ کسی بےذوق کو اپنی زندگی کا یہ سرمایہ ہدیہ نہ کریں جو انہیں شوکیس میں سجادیں یا پھر کوڑیوں کے بھاو ردی میں بیچ دیں بلکہ ایسے ضرو رت مند شوقین حضرات کو دیں جو ناصرف پڑھیں بلکہ انہیں اپنے سینے سے لگا کر رکھیں۔

خدارا! کتابوں کی فریاد سنیں انہیں وہ عزت دیں جسکی یہ حقدار ہیں ہم نے اپنی وارثت میں آنے والی نسلوں کو ہر طرح کی خوشیاں، آسودگی، تعلیم تو دی لیکن انہیں کتاب آشنا بنایا نہ انہیں کتابوں کی عظمت، اہمیت، افادیت اور ضرورت کے بارے میں بتا کر انہیں کتابوں کی قدر کرنا سکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ قیمتی اثاثہ ردی کے بھاوُ بک رہا ہے۔

سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra