1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Taxi Driver

Taxi Driver

ٹیکسی ڈرائیور

یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کا واقعہ میں نے ایک پوسٹ میں پڑھا تھا کہ وہ ایک خستہ حال زخمی بیہوش عورت کو لیکر ہسپتال کی ایمرجینسی وارڈ میں داخل ہوا۔ جسکے ساتھ دو نو عمر بچے تھے۔ شکل و شباہت سے بھکاری لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھا اور بولا۔ اس بی بی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اگر فوری امداد نہ دی گئی تو یہ مر جائیگی۔ فوری علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے "یہ سنتے ہی بچوں نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ وہ شخص کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا، کبھی مریضہ کو اور کبھی ان چیختے چلاتے بچوں کو دیکھتا۔ یہ کیا لگتی ہیں یہ آپ کی؟" ڈاکٹر نے اس شخص کو تذبذب میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

کچھ نہیں! میں ٹیکسی چلاتا ہوں اسے سڑک پہ لیٹے دیکھا، اسکے پاس بیٹھے یہ دونوں بچے رو رہے تھے۔ میں ہمدردی میں اسے اپنے رکشہ پر یہاں لے آیا ہوں۔ میری جیب جو ہے وہ دے دیتا ہوں۔ اس نے جیب سے جمع پونجی نکال کر میز پر رکھ دی۔ ڈاکٹر نے پیسوں کیطرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا بابا جی! یہ بہت تھوڑے پیسے ہیں۔ ڈھیر سارے پیسے کی ضرورت پڑے گی وہ بےبسی سے ادھرادھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی آسمان کیطرف دیکھتا کبھی دیواروں کیطرف۔ اچانک ایک چمک سی اسکے چہرے پر عیاں ہوئی یہ میری گاڑی کے کاغذات ضمانت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب! آپ اسکی جان بچائیں۔ میں ابھی پیسے لیکر آتا ہوں وہ چلا گیا۔ ڈاکٹر نے ابتدائی طبی امداد شروع کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دو لوگوں کے ساتھ واپس آیا۔

ڈاکٹر صاحب! میں نے ٹیکسی بیچ دی ہے۔ آپ پیسوں کی فکر نہ کریں"اس نے گاڑی کے کاغذات ساتھ آنے والوں کو دیتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر کے قریب کھڑا ایک خوش باش نوجوان صورت حال کو بھانپتے ہوئے پوچھنے لگا کیا لگتی ہیں یہ خاتون آپکی؟ رکشہ والا بولا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟ مگر کوئی رشتہ ضرور ہے جو مجھے اسکی زندگی اپنے روزگار سے زیادہ اہم لگی ہے؟ ٹیکسی کا کیا ہے یہ تو میں کرائے پہ لیکر چلا لوں گا۔ اگر یہ مر گئی تو اس کے یہ معصوم بچے بھی جیتے جی مر جائیں گے۔ قیامت کے روز میں اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاوں گا کہ مجھے ایک انسان کی زندگی سے زیادہ اپنی ٹیکسی عزیز تھی؟ اسکے ساتھ آنے والے ساتھ آنے والے دینے کے لیے پیسے گن رہے تھے اور ساری رام کہانی بھی سن رہے تھے۔ اس نوجوان نے کہا آپ رکشے کا سودا نہ کریں اس عورت کا تمام تر علاج میں کراونگا۔

نہیں نہیں بابو! سودا تو ہوگیا ہے رکشے والے نے کہا تو وہ خریدار بولا بھائی ہم ٹیکسی بھی نہیں لے جارہے ہیں اور پیسے بھی دے رہے ہیں۔ یہ رقم ٹیکسی کے لئے نہیں علاج کے لیے میں خود دونگا وہ نوجوان خریدار کہنے لگا۔

آپ اسکی ٹیکسی اسی کے پاس رہنے دیں یہ غریب آدمی ہے ٹیکسی اسکا روزگار ہے۔ علاج کے پیسے میں ادا کر دیتا ہوں۔ مگر رکشے والا کسی طرح ماننے کو تیار نہ تھا رکشہ خریدنے والے دونوں شخص یک زبان بولے۔ یہ شاید بڈھا تو پاگل ہوگیا ہے؟ اس عمر میں کون اسے کرائے پر ٹیکسی دے گا۔ ہم تو کمانے آئے تھے۔ یہ آدھی قیمت پر ٹیکسی بیچ رہا تھا ہمیں دگنا منافع ملنا تھا۔ اب ہم ستر گنا منافع کمائیں گے۔ پیسے نہیں تو نہ سہی، ایک نیکی ہی سہی وہ پیسے میز پر رکھتے ہوئے اٹھے اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! اگر اور رقم کی ضرورت پڑے تو ہمیں اس نمبر پر کال کر دینا اور اپنا کارڈ ڈاکٹر کو دے دیا۔ ہسپتال سے باہر نکل کر وہ ٹیکسی والا زار و قطار روئے جا رہا تھا۔ بابو جی شاید اللہ کو میری ٹیکسی پسند نہیں آئی؟ پیسے والے نیکی لے گئے میں غریب پھر خالی ہاتھ ہی رہ گیا۔

مجھے بےشمار ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو سڑکوں زخمی پڑے اور فٹ پاتھوں پر بھوکے لیٹے کسی ایسے ہی ٹیکسی ڈرائیور کے منتظر ہوتے ہیں۔ جوان پر توجہ دے سکے ورنہ ہم جیسے تو اپنی اپنی کاروں، موٹر سایکلوں، اور گاڑیوں میں بیٹھے گزر جاتے ہیں اور حادثے کی جگہ پر ٹھہرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ شاید ان تڑپتے لوگوں کی مدد تو دور کی بات ہے ان کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ کسی زخمی یا مریض کو اُٹھا کرہسپتال لانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمیں ہی نہ دھر لیا جاے اور پھر عمر بھر گواہی دیتے پھریں۔ پھر بھی ہم سب اللہ سے جنت کے طلبگار ہیں۔ اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، زکوۃ بھی شاید ادا کر دیتے ہوں؟ پھر اپنے گناہوں کی معافی کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے عمرہ اور حج جیسی عظیم سعادت کےذریعے اپنی بخشش کا سامان بھی کرتے ہیں۔

یہ بھوکے لوگ، لاوارث مریض اور حادثات سے دوچار زخمی دراصل ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ یہ وہ جنت ہے جو اللہ نے ہماری بخشش کے لیے جگہ جگہ رکھی ہوئی ہے۔ یہ ناجانے کیوں ہمیں نظر نہیں آتی؟ کہ ایک جانب ہمارا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہو پاتی۔ غریب لوگ جب گرمی اور حبس میں تڑپ رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے ائیر کنڈ یشن کمروں اور گھروں میں سے نکلنا تک گوارا نہیں کرتے۔ جب کم سن معصوم بچوں اور بچیوں جن کی پڑھنے کی عمر ہے کو مزدوری کرتا دیکھتے ہیں تو ناجانے کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان کے پھٹے کپڑے اور ننگے پیر ہمیں نظر نہیں آتے، بلکہ ان پر ہونے والے مظالم اور تشدد کی داستانیں سن کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ظلم کرنے والے بااثر لوگوں کی زد میں نہ آجائیں۔ یوں ہم اپنے بے حس رویے اور لاپرواہی سے خدا کی آسانی سے دی ہوئی جنت کو ٹھکرا کر پھر عبادات کے کٹھن راستوں میں بخشش تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکسی والا درست رو رہا تھا وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید اللہ نے اس کی قربانی قبول نہیں کی لیکن در حقیقت اسکی قربانی کا جذبہ قبولیت کی معراج حاصل کر چکا تھا۔ اس کا رونا اسکے زندہ ہونے کا ثبوت ہےاور اسکے احساس اور ضمیر کی موجودگی کی علامت ہے ورنہ جو لوگ یہ سب دیکھ کر بھی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ وہ دراصل مر چکے ہیں کیونکہ موت صرف سانسوں کے ختم ہونے کا نام ہرگز نہیں ہے۔ انسان تو اسی وقت مر جاتا ہے جب اسکا ضمیر اوراحساس مرتا ہے۔ ہماری بے حسی، لاپرواہی اور بےضمیری بتاتی ہے کہ ہم سانس تو لے رہے ہیں مگر زندہ نہیں ہیں۔

آج ہمارے معاشرے کا غریب مر رہا ہے۔ کہیں بھوک سے، کہیں مہنگائی سے، کہیں ظلم سے، کہیں محرومیوں اور معذوریوں سے، کہیں طویل اور لاعلاج بیماری سے اور ہر ہر گھڑی اور ہر ہر جگہ ہمیں مدد کو پکار رہا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے سنتے اور جانتے ہوے بھی خاموشی سے کنارہ کشی کر تے چلے جارہے ہیں۔ سوچتے یہ ہیں کہ شاید ہماری عبادات ہی ہمارا ذریعہ نجات ہیں، ہرگز نہیں معاملات سے چشم پوشی وہ سنگین جرم اور گناہ ہیں جو ہم سے ہماری بخشش اور جنت چھین رہے ہیں۔ آگے بڑھیں ہماری بخشش ہمارے اردگرد سڑکوں، چوراہوں اور ہمسا یوں کے گھروں میں موجود پڑی ہے۔ اسے اُٹھا لیں یہ جنت حاصل کرنے کا قریب ترین اور آسان ترین طریقہ ہے۔ یاد رہے سکون بھی ایک طرح کی جنت ہوتی ہے۔

انسان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو جاے اپنی تکلیف بیچ نہیں سکتا اور سکون خرید نہیں سکتا۔ دراصل سکون تو انسانیت کی خدمت سےہی ملتا ہے۔ خدارا! اپنے سکون کی قدر کریں۔ خوبصورت انسان وہ ہے جس سے بات کرنا آسان ہو جس سے مشکل میں مدد مانگنا آسان ہو جو دوسروں کے دکھ سکھ میں شامل رہے جو آنسو پونچھنا جانتا ہو جو مرہم بننا جانتا ہو اور مرہم لگانا جانتا ہو۔ اگر آپ ایسے انسان ہیں تو یقناََ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت خاص بنایا ہے لہذا خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں ! یہی دین و دنیا کی کامیابی ہے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz