1.  Home
  2. Blog
  3. M Bilal M
  4. Madad Karna, Bhikari Na Banana

Madad Karna, Bhikari Na Banana

مدد کرنا، بھکاری نہ بنانا

آپ سڑک پر کھڑے ہو کر، کسی کے بھی نام پر مانگیں، یہ ایسی زندہ دل و خدا ترس عوام ہے کہ بغیر تحقیق کے بھی دل کھول کر عطیات دے گی۔ دنیا کی سب سے زیادہ ڈونیشن دینے والی اقوام میں ان کا نام آتا ہے۔ عطیات دینے کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ یہاں بڑے بڑے مدارس اور فلاحی اداروں سے لے کر ہسپتالوں تک عطیات پر چل رہے ہیں۔

گویا یہاں مسئلہ مستحقین کے لئے امداد اکٹھی کرنا نہیں، بلکہ مشکل کام تو یہ ہے کہ امداد ٹھیک جگہ اور اصل حقدار تک پہنچے۔ کیونکہ ایک طرف عطیات دینے والے ہیں تو دوسری طرف پیشہ ور بھکاری اور سانحات سے فائدہ اٹھانے والے بھی موجود ہیں۔ بہرحال عطیات لوگوں کی امانتیں ہوتے ہیں اور اگر امانت اپنے اصل حقدار تک نہ پہنچی تو خیانت کا شدید خطرہ ہے۔

سیکھنے کے واسطے اک مختصر واقعہ سناتا ہوں۔ زلزلہ زدگان کے لئے امداد اکٹھی اور ٹرک پر لوڈ ہوئی۔ ڈرائیور کو بولا گیا کہ "چھک دے ول فلاں متاثرہ علاقے"۔ امداد لے جانے والوں کو چند سنی سنائی خبروں کے علاوہ کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اُدھر اصل صورتحال کیا ہے؟ کیسے اور کسے امداد دینی ہے؟ بس ایک ہی شوق تھا کہ فلاں علاقے میں امداد پہنچانی ہے۔ خیر جب متاثرہ علاقے میں پہنچے تو سڑک کنارے ٹرک کھڑا کیا اور تقسیم کرنے لگے۔ جب کچھ سامان تقسیم کر چکے تو اندازہ ہوا کہ یہ تو وہی لوگ بار بار آ رہے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ تو سرے سے مقامی اور متاثرین ہیں ہی نہیں۔ بلکہ دیگر علاقوں کے پیشہ ور گداگر یہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ پھر کچھ مقامی ذمہ دار شخصیات کو ڈھونڈا گیا اور ان کی مدد سے مشکل پہاڑی اترائیوں چڑھائیوں کے بعد متاثرین کے ٹھکانوں تک سامان پہنچایا گیا۔ وہ حقدار مگر خوددار لوگ تھے۔ مرتے مر جاتے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتے۔ اس لئے ان کی عزت نفس مجروح ہونے سے بچانے کے لئے بطور تحفہ تحائف ان کے گھر سامان دیا گیا۔

زلزلے کے دوران ریلیف آپریشن کے بڑے واقعات ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر جن کا تجربہ ہوا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اک لاچار و مجبور خاندان کو جب امدادی سامان دیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا کہ ہم آلِ رسول ہیں اور صدقہ زکٰوۃ نہیں لے سکتے۔ مگر دوسری طرف اُن کو سخت ضرورت بھی تھی۔ بس پھر انہیں یہ کہہ کر مدد کی گئی کہ یہ صدقہ ہے نہ زکٰوۃ بلکہ اک پنجابی کی طرف سے اپنے پہاڑی بھائی کو قرض حسنہ ہے۔ اللہ نہ کرے کہ اگر کبھی ہمارے اوپر آفت آئی تو یہ قرض چُکا دینا۔ یا پھر جب حالات بہتر ہوں تو ہماری طرف سے کسی غریب کی مدد کر دینا۔

امید ہے کہ حالیہ سیلاب زدگان کی امداد کرنے والے چند نکات سمجھ چکے ہوں گے۔ امدادی سامان کے حوالے سے تین بڑے مراحل ہوتے ہیں۔ درست اور ضروری سامان اکٹھا کرنا اور اسے اچھے طریقے سے پیک کرنا تاکہ مطلوبہ جگہ تک ٹھیک ٹھیک پہنچے۔ دوسرا مرحلہ حفاظت کے ساتھ دور دراز مطلوبہ جگہ تک بروقت پہنچانا۔ سب سے مشکل اور نہایت ذمہ داری والا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اصل حقدار ڈھونڈ کر امانت اس کے حوالے کرنا۔

بتانا صرف یہ چاہتا ہوں کہ او میرے بھائیو، کسی آفت زدہ علاقہ میں امدادی سامان کی تقسیم کاری کا اگر پہلے سے تجربہ نہیں یا کسی فلاحی تنظیم وغیرہ کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا تو سیلاب زدگان میں سامان کی تقسیم کاری کے لئے خود سے "سُپر مین" بننے کی بجائے بہتر ہے کہ ساز و سامان اکٹھا کر کے اُن تجربہ کار لوگوں، تنظیموں یا اداروں کو دے دو، جن پر آپ کو بھروسہ ہے۔ یوں امید ہے کہ مال ٹھیک جگہ پہنچے گا۔ البتہ سانحات سے فائدہ اٹھانے والوں سے ہوشیار رہنا۔

اور اگر خود متاثرہ علاقوں میں جا کر اپنے ہاتھ سے دینا چاہتے ہو تو ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا کہ وطن عزیز میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو پیشہ ور بھکاری فوراً سے پہلے اس علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان سے حتی المقدور بچنا۔ ٹھیک ہے کہ کچھ واقعات کی بنیاد پر انتظامیہ کو کوس لو لیکن سچ یہی ہے کہ بے شک گئی گزری ہی ضلعی انتظامیہ کیوں نہ ہو، مگر ان کا ایک مکمل نیٹ ورک ہوتا ہے۔

ان کے پاس سارا ریکارڈ ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا حالات ہیں اور وہاں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ دل مانے تو ان کے ریکارڈ سے مدد لے لینا۔ ورنہ مقامی ذمہ داروں یا فلاحی شخصیات وغیرہ کو تلاش کر کے اُن کی مدد سے اصل حقداروں تک پہنچنا اور خود بھی چھان پھٹک کرنا۔ لازمی نہیں کہ آپ ٹرکوں کے ٹرک بھر کر ہی سامان لے جاؤ۔ بلکہ ایک دو خاندانوں یا فقط ایک متاثرہ شخص کی عارضی کفالت یا بحالی کا ذمہ ہی اٹھا لو تو یہ بھی بہت بڑی بات ہو گی۔

یہ بھی لازمی نہیں کہ آپ مال و دولت سے ہی کسی کی مدد کرو۔ بلکہ اگر آپ کوئی ہنر جانتے ہیں تو اپنے ہنر کی خیرات نکالیے اور متاثرین کو اپنے ہنر کی مفت سروس فراہم کریں۔ ویسے پیاسوں کو پانی پلانے والے ماشکی کو خود بھی پیاس لگتی ہے، اس ماشکی کو پانی پلانا گویا پیاسوں کو پانی پلانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا جو لوگ اگلے مورچوں پر پہنچ کر مدد کر رہے ہیں، پیچھے سے ان کے گھر بار کی حفاظت اور خیال رکھنا بھی دراصل متاثرین کی مدد کرنا ہی ہے۔

امداد بھیجنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ متاثرین تو ہیں مگر کوئی بھکاری نہیں۔ لہٰذا بے شک رتی برابر بھیجو مگر قابلِ استعمال چیز بھیجنا۔ ورنہ اپنے "لتھے پرانے" کپڑے اور کسی نہ کام کے بوسیدہ بستر یا چادریں اپنے پاس ہی رکھنا۔ کیونکہ ایسا ناکارہ مال متاثرہ علاقوں میں لے جا کر بھی کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکنا یا آگ ہی لگانی پڑتی ہے۔ فلاحی کاموں میں مشغول تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ جو بھی کر سکتے ہو وہ ضرور کرو مگر طریقے سے۔ تاکہ ہنگامی حالات میں مزید کسی بے ہنگمی اور بدانتظامی سے بچا جا سکے۔

بہتر طریقہ اپنانا کیونکہ متاثرین کی بحالی میں مدد کرنی اور انہیں واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، انہیں بھکاری نہیں بنانا۔ اور ان سفید پوش مگر متاثرہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرنا، جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ عموماً ایسے لوگ سڑکوں اور ہجوم میں نہیں بلکہ الگ تھلگ، اپنا بھرم قائم رکھے اور اپنے ربّ کی طرف دیکھتے ملتے ہیں۔ اور ہاں! اپنی سوشل میڈیائی پوسٹوں اور سُپر مین بننے کے چکر میں، بلکہ کسی بھی حوالے سے کسی کی عزت نفس مجروح کبھی نہ ہونے دینا۔ سفید پوش مر تو سکتے ہیں مگر عزت نفس کا سودا کبھی نہیں کرتے۔

خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar