Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehak Rabnawaz
  4. Urdu Zuban Ki Naqabil e Faramosh Mojuda Surat e Hal

Urdu Zuban Ki Naqabil e Faramosh Mojuda Surat e Hal

اردو زبان کی ناقابل فراموش موجودہ صورتحال

اے پروردگار ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔ (سورۃ الکہف)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ جس سے علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپا لیا (اور بتایا نہیں) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے آگ کی لگام دے گا۔ (سنن ابو داؤد)

یونائیٹڈ اسٹیٹس ہر سال چند مخصوص دنوں کو عالمی سطح پر مناتی ہے۔ ان دنوں میں ایک دن 21 فروری ہے جب مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 2 نومبر 2001 کو یونیسکو نے یہ اعلان کیا تھا کہ تمام اقوام اپنی مادری زبانوں میں اپنی تخلیقی صلاحیت اور خیالات کا پرچار کریں۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں جس کے باعث ان کی ثقافت کی شناخت کی جا سکے۔

Stemphem A warm اپنی کتاب Atlas of the world's languages in danger of disappearing میں لکھتے ہیں۔ اس وقت کم و بیش 6000 زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سے آدھی سے زیادہ زبانیں مستقبل قریب میں ختم ہو جائیں گی۔ اردو کی ابتداء سے متعلق مختلف نظریات سامنے آتے رہے ہیں۔ ابتداء میں اردو کو ہندی، ہندوی، ریختہ، دہلوی، ہندوستانی، دکنی، اور گجراتی ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر، کیمپ، سپاہی، خیمے، وغیرہ کے ہیں۔

چار صدیاں پہلے آیا ایک انوکھا انقلاب

محفل فطرت میں ایک ہنگامہ ہر سو ہوگیا

چاندنی، شبنم، شفق، نکہت، تجلی، کہکشاں

جب ہوئے یکجا تو ان کا نام اردو ہوگیا

قومی زبان ملک میں رہنے والے لوگوں کو متحد رکھنے اور علاقائی تعصب و سوچ سے بچاتی ہے۔ بات کرنے کا انداز لفظوں کا چناؤ ہماری سوچ، تہذیب، اطوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔

بات کرنے کا حسین طور طریقہ سیکھا

ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

بعض علماء کے نزدیک عربی کے بعد اسلام کی سب سے بڑی زبان اردو ہے۔ بیشتر ماہرین لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم دینے کا بہترین میڈیم مادری زبان ہے۔ ذی شعور قومیں اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ بھارت پرائمری جماعت تک اپنے بچوں کو قومی زبان میں تعلیم دیتے ہیں جبکہ ہائی لیول پر انگلش میڈیم زبان کو نصاب کا حصہ بناتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، شعور بیدار کرنے کے لیے وہی زبان موضوع ہوتی ہے جس سے تعلیم پانے والے اور ملک میں رہنے والے سب باشندے باآسانی پڑھ، لکھ، بول اور سمجھ سکیں۔

ساؤتھ افریقہ کے فارمل پریزیڈینٹ Nelson Mendela نیلسن منڈیلا ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ پاکستان کہتے ہیں۔ جس کا ترجمہ ہے۔ "اگر آپ کسی سے ایسی زبان میں بات کرتے ہیں جسے وہ جانتا ہے تو آپ کی بات سننے والے کے ذہن پر اثر کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی سے اسکی اپنی زبان میں بات کرتے ہیں تو آپ کی بات سننے والے کے دل پر اثر کرتی ہے"۔

غالباََ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اپنی قومی زبان کی بجائے غیرملکی زبان کو نصاب تعلیم اور بشمول امور زندگی میں درجہ اہمیت کا شرف حاصل ہے۔ ہمارے نصاب میں تعلیم کے آغاز کیساتھ ہی زیادہ تر انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔ نہ صرف سرکاری و غیرسرکاری ادارے پیشہ وارانہ معاملات، روزمرہ کے معمولات زندگی میں بھی انگریزی زبان کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

اندازے کے مطابق آدھی سے زیادہ دنیا میں انگریزی زبان کا راج ہے۔ انگریزی زبان کو جو وقار، عزت، رتبہ، لگاؤ میرے آبائی وطن پاکستان میں حاصل ہے شاید وہی مقام امریکہ انگلستان میں بھی اسے حاصل نہ ہو۔ کسی بھی زبان کا شوق سے بولنا یا ضرورت کے تحت استعمال ایک الگ بات ہے۔ لیکن کسی غیر ملکی تہذیب اور طرز زندگی کی اندھا دھند تقلید کرنا، اسے اپنانا انکی زبان سے غلامانہ طور پر متاثر ہونا، اور اپنی تہذیبی زبان کو فراموش کر دینا نہایت غلط فعل ہے۔

زبان فقط زبان ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیب کا اکبری دروازہ ہوتا ہے۔ چین، سعودیہ عرب، بنگلہ دیش، بھارت، اسرائیل بےشمار ممالک اپنی زبان میں ہی اپنی عوام کو تعلیم دیتے ہیں۔ اگر کبھی ہمارے وزراء اور بین الاقوامی صدر، وزیر سفیر کا ایک دوسرے کی جانب دورے پر جانے کا اتفاق ہو تو انکے ترجمان ان کے بیان کا ترجمہ وضاحت کرتے ہیں۔ صاف الفاظ میں وہ ہمارے سمجھنے کے لئے اپنی زبان کا نعمل البدل گوارا نہیں کرتے۔

کچھ تاریخی بیان، جملے ایسے بھی ہیں جو ہمارے لئے وقت آنے پر نصیحت آموز ثابت ہوتے ہیں۔ وائسرائے ہند، مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے اپنے ترجمان کے ہمراہ انکے گھر جاتا ہے اور ترجمانِ وائسرائے کی انگریزی کا ترجمہ کر کے مولانا آزاد کو سناتا ہے اور مولانا آزاد کی گفتگو کا ترجمہ کر کے وائسراے ہند کو سناتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ترجمان انگریزی کا ترجمہ کچھ درست نہ کر سکا جس پر مولانا آزاد نے ان سے کہا یہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔

گفتگو کے اختتام پر وائسرائے ہند نے مولانا سے فرمایا آپ کو انگریزی آتی ہے تو انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کی؟ مولانا آزاد نے بڑا عجیب تاریخ کن جواب دیا۔ فرمایا آپ پانچ سو میل دور سے آ کر بھی اپنی زبان نہیں چھوڑتے میں اپنے ہی گھر میں کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں۔ یہ اقتباس ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو انگریزی کے دو لفظ سیکھ یا بول کر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔

غور طلب بات ہے آج اسرائیل کامیاب کیسے ہوا۔ چین کامیاب کیسے ہے۔ امریکہ کامیاب کیسے ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی سامنے آتی ہے۔ وہ اپنی قوم کو اپنی زبان میں ہی میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر تعلیم مہیا کرتے ہیں۔ ان قوموں نے زبانوں کی نقل کرنے، غلامی کا راستہ اختیار کرنے میں ہماری طرح اپنا وقت برباد نہیں کیا۔ جبکہ ہم نے 70 سے 75 سالوں میں ہی اردو کو ناپید کر کے رکھ دیا ہے جبکہ انہوں نے ہزاروں سالوں میں بھی اپنی زبان کو نہی چھوڑا۔

جونہی اسرائیل کو اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے ملک کے نظام تعلیم، دفاتر، بینکنگ نظام میں ہبری زبان کو فروغ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ کامیاب ہیں۔ پھر ہم نے بھی ان غیر اسلامی و ملکی طاقتوں کی ایسی پیروی کرنا شروع کی کہ غیر ملکی زبان کو سیکھنا اصل کامیابی گردانا۔ اپنی تہذیب، اپنی شناخت، اپنی زبان کو انگریزی کے قدموں تلے روند دیا۔ اردو ایک نام نہاد مضمون کے طور پر جبکہ باقی تمام مضامین انگریزی زبان میں نصاب میں تبدیل کر دیئے گئے۔

انگریزی زبان سمیت کوئی بھی دوسری غیرملکی زبان سیکھنے اور بولنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے مگر اختلاف رائے ضرور ہے۔ کیونکہ کوئی بھی زندہ قوم کبھی اپنی زبان ترک نہیں کرتی۔ اپنی زبان پر کسی غیرملکی زبان کو فوقیت نہیں دیتی۔ اپنی قومی زبان بولنے پر ندامت محسوس کرنا اور ایک غیرملکی زبان بولنے میں فخر محسوس کرنا۔ میری نظر میں حماقت کے سوا کچھ نہی ہے۔

اردو زبان کی سب سے بڑی خاصیت جو اسے دوسری زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ اردو زبان میں شائستگی ادب و آداب تمیز لحاظ بہت زیادہ ہے۔ بڑوں چھوٹوں سے بات کرنے کے صیغے الگ الگ ہیں۔ بات کرنے کا انداز، طرز زندگی، لب و لہجہ، لفظوں کا انتخاب، خوبصورت ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پہلے فرقہ بندی ذات پات، رنگ نسل، مذہب، رسم و رواج، زبان، صوبائیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ مگر اب لوگ ایک ہی خطے میں دو متضاد زبانیں اردو انگریزی کو لیکر متفرق طبقوں میں بٹ چکے ہیں۔ جبکہ اس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔

اسلامی لٹریچر اردو زبان میں اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی حفاظت خاص کر برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اس زبان پر موقوف ہے۔ ہندوستان برصغیر کے بعض اکابرین کا فتویٰ ہے کہ ہماری زبان کی حفاظت فرض کفایہ ہے۔ اگر پاکستان کے آئین کی بات کی جائے تو 1973ء کے آئین آرٹیکل 251 کے تحت صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ قومی زبان اردو کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیئے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔

مگر وطن عزیز پاکستان میں تعلیمی اعتبار سے مادری زبان کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں قائم کردہ قومی کمیشن نے رپورٹ تیار کی تھی۔ جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ بچوں کو انکی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ تب سے اب تک اس پر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ اسے ہمیشہ کیلئے پس پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ میرا مقصد یہاں کسی بھی زبان پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اپنی جگہ ہر زبان کئی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔

مقصد فقط اتنا ہے ہم اپنی زبان اردو کو اتنا کمتر نہ سمجھیں کہ اردو بولنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں اور انہیں کم تعلیم یافتہ سمجھتے ہوئے عزت دینے اور اعلٰی عہدوں پر فائز کرنے سے محروم رکھیں۔ ہمارے بڑے بڑے راہنما عزیز و اقارب علماء مصنفین محدثین شاعروں نے اسی زبان اردو کی مرہون منت علوم پر سے دسترس حاصل کر کے عزت، شہرت، نام، مرتبہ تاریخ میں رقم کیا ہے۔

ہم کسی بھی غیر ملکی زبان بولنے، جاننے والوں کو اس بنیاد پر عالم فاضل یا دانشمند تصور نہیں کر سکتے کہ وہ اس زبان پر عبوریت رکھتا ہے۔ زبان بحیثیت زبان ہی ہوتی ہے۔ یہ کوئی ذہانت ماپنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ اگر بوقت ضرورت کبھی کوئی ہم سے ہماری زبان سے متعلق کسی لفظ کا بامعنی ترجمہ پوچھ لے تو ہمیں اپنی ڈکشنریوں سے چھان پھٹک کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کی وجہ اپنی زبان سے لاعلمی ہے۔

اگر اب بھی ہم نے اپنی قومی زبان کا دامن نہ تھاما تو عنقریب یہ خدشہ لاحق ہے کہ ہماری نوجوان نسل لبرل ہونے کے چکر میں اپنے مذہب اور شریعت سے محروم ہو جائے گی۔ لیکن مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ ہمارے یہاں قابلیت اور اہلیت کا معیار ہی انگریزی کو قرار دے دیا گیا ہے۔ تمام اقوام عالم اپنی مادری زبان کا یوم بڑے ادب اور ذوق و شوق سے مناتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں قومی زبان فقط کتابوں کی تاریخ میں پوشیدہ ہو کر رہ گئی ہے۔

جس سے آئے مہک محبت کی، وہ گل زعفران ہے اردو

نعرہ انقلاب جس نے دیا، ملک کی آن بان ہے اردو

ماضی میں بھی ہمارے ملک کو صوبائیت کی بنیاد پر آپس میں جھگڑے کرنے پر اکسایا جاتا رہا ہے ہم صوبائی زبانوں کے دن تو مناتے ہیں مگر قومی زبان کا دن نہیں مناتے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں اردو کی اہمیت کو واضح کریں۔ طلبہ کے مابین اردو تقاریر، تحریر، مشاعرہ بمقابلہ پروگرامز تشکیل دیے جائیں۔ اس سے نہ صرف ہماری ثقافت کے رنگ نمایاں ہوں گے بلکہ اردو زبان مزید پختگی جاذبیت اور وسعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرے گی۔

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat