1.  Home
  2. Blog
  3. Mirza Yasin Baig
  4. Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

آج کی رانیاں و رعنائیاں

کل موسم، سردی سے بچ کر تھوڑی دیر کیلئے نکل پڑنے والی معمولی مزاج والی گرمی جیسا تھا چنانچہ کچھ وقت مونال ریسٹورنٹ برامپٹن کی چرسی کڑاھی کھانے کے بعد دریائے کریڈٹ کے کنارے واقع مسسی ساگا روئنگ کلب کے قریب گذارا۔ کلاس روم کے بنچ اور دریا کنارے پڑی بنچ کا فرق زیر گفتگو تھا کہ کشتی رانی (rowing) دیکھنے کو ملی۔ بنچ سے توجہ ہٹ کر ساری کی ساری کشتی رانی کی جانب ہوگئی کیونکہ کشتی تو کشتی اس پر بیٹھی رانی زیادہ پرکشش تھی۔

پاس بیٹھی بطخوں کی ٹانگوں پر گزارا کرنے کی حاجت بھی نہ رہی۔ پھر تو یکے بعد دیگرے کئی کشتیاں اور رانیاں نکل آئیں۔ راجہ مہاراجہ بھی کشتیاں دوڑارہے تھے مگر ہماری آنکھوں کو ادھر دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔ چپّو چلانے کا بھی اپنا مزہ ہے۔ بچپن میں بنگلہ دیشی "پوکور" یعنی تالاب میں ہم بھی کشتی کو چپو سے چلاتے رہے تھے۔ پانی، ہوا، مزاج اور جبر کی مخالفت صبر آزما کام ہوتا ہے مگر اس سے اپنی تشفی بھی ہوتی ہے۔

ڈوبتے سورج کو بچانے کا دل چاہا کیونکہ اتنی جلدی رانیوں کو گھر بھیجنے کا من نہ تھا۔ پھر کافی کی چاہت میں پاس ہی موجود "Starbuck" میں چلے گئے۔ bucks کا s اس لئے غائب کردیا کہ اپنی بک بک کو کافی کے ساتھ جوڑسکیں۔ کافی شاپ کے باہر پڑی بنچوں سے تین رخی نظارے اور اس پر اداسی دھل جانے کی شبیہہ لطف دے رہی تھی۔

ہم تو صرف ہوائی جہاز بنانے والے رائٹ برادران سے واقف ہیں مگر آج یہ بھی جان لیں کہ ہم کریڈٹ ریور کے پاس جس Don Rowing Club کے ساتھ بیٹھے تھے اسے Christie برادران نے 1878 میں قائم کیا تھا۔ یہ ہے مسسی ساگا کا کلچر اور فطرت سے محبت۔

اردگرد جتنے لوگ آ، جا رہے تھے اس میں بڑی تعداد انڈینز کی تھی۔ آج کل تو کینیڈا میں بیٹھ کر بھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم انڈیا ہجرت کرگئے ہیں۔ گوروں اور انگریزی کیلئے تلاش گمشدہ کا اشتہار دینے کو دل کرتا ہے۔ کانوں اور آنکھوں میں پنجابیوں اور "ہندیوں" کے ہی شبھد ناچتے رہتے ہیں۔ یہی یہاں بھی ہورہا تھا۔ کینیڈین سرکار نے یہ بھی خوب کیا کہ دو سال میں ہی ملینز بھارتیوں کو کینیڈا بلالیا۔ اب رہائش اور ملازمتوں کے مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔

دیکھ لیں کہ اتنی اچھی تفریح، معلومات اور اس کی پرلطف منظرکشی میں بھی یہ نئے باشندے گھس آئے۔ قصہ مختصر شام اچھی گزری۔ دوبارہ سے ہمارے اندر الفاظ جاگ گئے ورنہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ گوروں کے پاس gum زیادہ ہوتا ہے اور ہم دیسیوں کے پاس غم۔ گرمی بڑھے گی تو آؤٹ ڈور ملاقاتوں میں بھی تیزی آ جائے گی۔ اندر و باہر کا موسم زندہ باد۔۔

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla