1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Beti Baraye Farokht

Beti Baraye Farokht

بیٹی برائے فروخت

صبح گھر سے نکلی، شام ہوگئی، کسی کی کال نہیں آئی کہ میں کہاں ہوں، آوارگی کرتے تھک کر پارک میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھتی رہی۔ سیکڑوں اجنبی چہروں نے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں کسی گہری سوچ میں غرق اپنے آپ سے غافل کسی اور جہان کے تخیل میں محورہی۔ شام کے دُھندلکے میں مجھے احساس ہوا کہ گھر لوٹ جانا چاہیے، مزید یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں ہے۔

آج میں نے جی بھر کر اپنی قسمت، کیفیت، صورتحال اور نصیب پر رو نا رویا، آنسو تھم گئےاس کے باوجود رونے کو من چاہتا رہا۔ آج مجھے اس قدر رونا کیوں آرہا ہے، شاید میری بے وقعتی اور بے حیثیتی کی وجہ سے مجھے خود پر ندامت ہو رہی ہے یا میں اپنے آپ سے اُکتا گئی ہوں اور مجھ میں بے نیازی در آئی ہے یا میں کسی واہمے او ربدگمانی کا شکار ہوگئی ہوں۔ میں اکلوتی ہوں، دو بھائی ہیں جن میں ایک شادی شدہ ہے اور دوسرا پڑھائی کرتا ہے۔ اماں کو میرے لیے کوئی لڑکا پسند نہیں آتا، وہ کہتی ہیں کہ تم اکلوتی ہو، اس لیے مجھے ڈر لگتا ہے کہ پتہ نہیں تمہارے ساتھ کیا ہوگا، میں چاہتی ہوں تمہیں ایک اچھا، وفادار اور تابع فرمان خاوند ملے جو تمہیں زندگی کی سبھی خوشیاں دے سکے اور غم و آلام کے سائے سے محفوظ رکھے۔

ابا کو میں جوانی سے بڑھاپے کی طرف جاتی دکھائی نہیں دیتی، وہ مجھے گڑیا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، ان کے سامنے اماں میری شادی کا ذکر کرتی ہیں تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی تو بچی ہے، چار دن گھر میں رہ لے، شادی بھی ہو جائے گی، ابھی تو بچی ہے، اِسے دُنیا داری اور سماج کا کچھ علم نہیں ہے۔ میرے بارے میں ہر شخص اپنے تئیں فیصلہ کرکے بیٹھا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ اپنی جگہ درست ہے۔ مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ میں کیا چاہتی ہو۔ میرے کیا خواب ہیں اور زندگی کے بارے میں میرا کیا نکتہ نظر اور بیانیہ ہے۔

کیا میں ایک زر خرید جنس ہوں جس پر ہر شخص کی اجارہ داری ہے، جب سے شعور کی آنکھ کُھلی ہے خود کو جبر، گھٹن، تعصب، ذات پات، رنگ نسل کے تفاخر میں منقسم دیکھا ہے۔ یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا، یوں نہ کرو، ووں نہ کرو، یہ اچھا نہیں ہے، وہ بہت بُرا ہے، یہاں نہیں جانا، وہاں ضرور جانا ہے، تم ابھی بچی ہو، تمہیں کیا پتہ ہے، زمانہ بہت خراب ہے، دُنیا بڑی تیز ہے، تم عورت ہو، بچیاں ایسا نہیں کرتیں، یہ نہیں کھاتیں، وہ نہیں پہنتیں، بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں، انھیں ہم گھر میں نہیں رکھ سکتے، تمہیں کچھ نہیں آتا، تم مصیبت بن گئی ہو، تمہیں کیا ہوگیا، تم ایسا کیوں سوچتی ہو، تمہیں کیامسئلہ ہے، تم سے گھر میں نہیں بیٹھا جاتا، تم یہ کپڑے نہیں پہنو گی، تم یہ نہیں کھاؤ گی، ہم وہاں نہیں جائیں گے، تم گھر میں رہو، بھائی کی عزت کیا کرو، اماں کے سامنے یوں نہیں بولتے، رشتہ دار کمینے ہیں، خالہ سے دور رہا کرو، نانی کے لاڈ نے تمہیں بگاڑ دیا ہے، دادی بہت اچھی تھیں، تمہاری اماں نے یہ کیا پیدا کیا ہے، ابھی کچھ نہیں کرنا، کھانا بنانا تو سیکھ لو، کپڑے ٹھیک سے استری کیا کرو، ملازمت کرکے کیا کرو گی، بس اتنا پڑھ لینا کافی ہے، زمانے کو دیکھ کر چلنا پڑتا ہے، یہاں عورتوں کی کوئی عزت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

میں نے بڑھ کر اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا کہ میڈیم! بس کریں، آپ تو بہت کچھ کہہ چکی، ایسا نہیں کرتے، ماں باپ بیٹیوں کے بارے میں اچھا ہی سوچتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹیاں شادی کے بعد دُکھی رہیں اور۔۔ اُس نے میری باٹ کاٹی اور غصیلی شیرنی کی طرح دھاڑتی رہی اپنے اندر کا غبار نکالتی رہی۔ عورت کو اس سماج نے سمجھ کیا رکھا ہے، کیا میرا عورت ہونا میرے گھر والوں کے لیے شرم کا باعث ہے۔ مجھے اگر ملازمت نہیں کرنا تھی تو پڑھایا کیوں تھا، میری بھی کوئی مرضی ہو نی چاہیے۔ کیا یہ میرا قصور ہے کہ میں اکیلی پیدا ہو ئی ہوں، کیا میں نے اللہ میاں سے کہا تھا کہ میری کوئی اور بہن پیدا نہ کرنا۔ مجھے یہ احساس کیوں دلایا جاتا ہے کہ میں اکلوتی ہوں اور سب سے اہم ہوں اور میرے لیے کیے گئے فیصلے میرے حق میں اچھے ہی ہوں گے۔

میں اب تیس سال کی ہوں، ایم اے پاس ہوں اور شکل و صورت سے معقول لڑکی ہوں، قد کاٹھ اور وضع قطع سے شریف النفس اور معصوم و شرارتی دکھائی دیتی ہوں، میں زمانے اور سماج کے جملہ نظام کو سمجھتی ہوں۔ میری ایک ذاتی رائے ہے، میں سوچنے، سمجھنے اور غوروفکر کرنے والی ایک باشعور لڑکی ہوں جسے یہ شعور اور تعقل پسند مزاج سماج کی تعلیم اور والدین کی تربیت نے دیا ہے۔ مجھ پر کیوں بھروسہ نہیں کیا جاتا، میری کسی بھی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی، ہر بار مجھے ہرا دیا جاتا ہے، میرے دلائل میرے لیے ناسور بن گئے ہیں۔ اس معاشرے میں عورت ہونا اور اکلوتی پیدا ہونا کیا ایک سنگین جرم ہے۔ کیا میں یونہی بے یارومدگار والدین کے لیے بوجھ بنی رہوں گی۔

میری بھابھی کی عمر سولہ برس کی تھی جب وہ بیاہ کر ہمارے گھر آئی تھی، دس برس شادی کو ہوچکے، ان دس برسوں میرا ہر دن ایک نئی مصیبت اور آزمائش کے آلام میں گزارا ہے۔ میری عمر جب سولہ برس ہوئی مجھے بھی بیاہ دیا جاتا، مجھے کیوں پڑھائی اور ملازمت کے بہلاوے میں ورغلا کر تیس برس کا کیا گیا، اب میری عمر گزر چکی ہے اور میں بوجھ بن کر گھر کی خالی جگہ پر قابض ہوگئی ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ میں گھر کے باہر بورڈ پر بیٹی برائے فروخت لگوا دوں تاکہ لوگوں کو میری منہ مانگی قیمت دینے میں کوئی جھجھک باقی نہ رہے اور وہ کُھل کر بارگینگ کرکے مجھے میرے والدین سے خرید لیں اور ان کے معیار پر مجھے بیاہنے کا خواب پورا ہو جائے۔ وہ بولتی رہی اور میں سنتا رہا۔

میرے پاس یاسیت سے معمور لڑکی کو بہلانے اور مطمئن کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں تھے۔ اس لڑکی نے جو سوال اُٹھائے وہ میرے دل پر ہتھوڑے بن کر ٹیس اُٹھا رہے تھے، میں بہ حیثیت مرد یہ سوچ رہا تھا کہ اس پڑھی لکھی مجبور و مقہور لڑکی کا کیا قصور ہے جسے شعور سے آراستہ کرکے گھر کی چار دیواری میں مقید کر دیا گیا ہے، اس کی تعلیم کا کیا فائدہ جس سے سماج، ملک اور معاشرہ کوئی فائد ہ نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ لڑکی یاسیت کی آخری حد تک جاچکی ہے اور ان قریب یہ خودکُشی کے بارے میں سوچے گی اور پھر ایک دن اس عمل سے گزرنے کی کوشش بھی کرے گی۔

پاکستانی سماج میں اس طرح کی ہزاروں پڑھی لکھی لڑکیاں ابنارمل ہو چکی ہیں اور شادی کی عمر سے گزر کر بِن بیاہے بیوگی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ پاکستان میں عورت کو پڑھانے کا مقصد محض ایک اچھے رشتے کی تلاش کا جواز تراشنے سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ پاکستانی سماج میں عورت کو جائیدار کی طرح اثاثہ سمجھا جاتا ہے، اس معاملے میں ماؤں کا کردار زیادہ خطرناک اور تباہ کُن ہے۔ ماؤں نے اپنی پوزیشن کو خود کو گھر میں سیکور کرنے اور ممتا کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے خود کو ایک مصنوعی سانچے میں ڈھال رکھا ہے۔ بیٹیوں کے معاملے میں یہ مائیں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں اور نہ ہی کسی طرح کا خطرہ مُول لیتی ہیں۔ یہ مائیں خود اپنی اُولاد میں ذاتی خواہشات کی ترجیح کو کو بنیاد بنا کر اولاد کو تقسیم کر لیتی ہیں، یہ بیٹی بیٹا میرا ہے اور یہ بیٹا بیٹی خاوند کا ہے جبکہ یہ ملا جُلا مال جہاں جائے پروا نہیں۔

عورت خود عورت کی دُشمن ہے، پاکستانی سماج کے خاندانی نظام کو جتنا نقصان عورت نے پہنچا یا ہے اس کا پانچ فیصدی حصہ مردوں کے کھاتے میں نہیں آتا۔ مرد کو عورت ہر رشتے میں استعمال کرتی ہے اوراتنی صفائی، چالاکی اور ہوشیاری سے کرتی ہے کہ مرد کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ پیدا ہونے سے لے کر قبر میں اُترنے تلک عورت مرد کے سہارے، طاقت، رُعب، دولت، اختیار کا ذاتی استعمال کرتی ہے۔ عورت بھول جاتی ہے کہ اس نے ایک عورت کو جنم دیا ہے جس کے کچھ خواب ہیں اور آرزوئیں ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے۔

عورت نے ہمیشہ عورت کا راستہ کاٹا، پاکستانی سماج میں سب سے زیادہ نزاعات عورت کی عورت کے معاملے میں پائی جاتی ہے، دُنیا جہان کی دولت، شہرت، عزت، اطمینان اور تحسین عورت کے قدموں ڈھیر کر دی جائے، اس کا ناشکرا پن بھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ عورت عورت کو بہ حیثیت بہو، نند، ساس، سالی، سوتن، کزن، ہمسائی، واقف کار، عزیز وغیرہ کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتی۔

پاکستان میں ہزاروں لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں لیکن شادی نہیں ہوتی، اس کی وجہ مرد کی معاشی نا آسودگی، اچھے رشتے کا نہ ملنا، نصیب کو کھوٹا ہونا، تقدیر کا اُلٹا ہونا، کالے جادو کا سایہ ہونا، گھر کا منحوس ہونا، رشتہ داروں کی منافرت ہونا، بھائیوں کا مالی طور پر سپورٹ نہ کرنا، رنگ، شکل، قد، سوچ اور امورِ خانہ داری میں ناقص ہونا وغیرہ نہیں ہے بلکہ ایک عورت کی دوسری عورت کے لیے اپنے معیار سے نیچے اُتر کر حالات کے پیشِ نظر فیصلہ نہ کرنے کی حماقت پر بضد ڈٹے رہنا ہے۔

پاکستانی سماج آج بھی پتھر کے دور میں زندگی کی روشنی ڈھونڈ رہا ہے، اس سماج کو جہالت و تاریکی سے نکالنے کے لیے گھروں میں مقید پڑھی لکھی بچیوں کو بغاوت کرنا ہوگی اور اپنی ماؤں کے سامنے آنا ہوگا، چیخ چیخ کر انھیں اس بات کا احساس دلانا ہوگاکہ ہم آپ کا ز رخرید پلاٹ، مکان، گاڑی، سونا اور بچت کھاتہ نہیں ہیں، ہم باشعور، پڑھی لکھی، فیصلے کی اہل زمانہ ساز لڑکیاں ہیں جو ذمہ داریوں کو نبھاہنے کا سلیقہ اور ہنر آپ سے تعلیم و شعور کی بدولت آپ سے زیادہ رکھتی ہیں۔ آپ کی سوچ کی قدامت پسندی ٹوٹ کر رہے گی اور آپ کو ہمیں آزاد کرنا ہوگا، اب ہم آزاد ہو کر رہیں گی۔

Check Also

Shadi Kis Umar Mein?

By Khateeb Ahmad