1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mubashir Ali Zaidi/
  4. AI Tools Aur Talaba

AI Tools Aur Talaba

اے آئی ٹولز اور طلباء

میں اسے اپنا کمال نہیں سمجھتا کہ بیشتر تحریریں دیکھتے ہی بتادیتا ہوں کہ انھیں کسی اے آئی ٹول نے گھڑا ہے یا کسی انسان کے بچے نے لکھا ہے۔

ساری زندگی الفاظ، جملے، محاورے اور ضرب الامثال ہی پڑھی ہیں، تحریریں جن کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ عدنان کاکڑ اور ایڈیٹنگ کرنے والے دوسرے دوست بھی باآسانی تحریریں شناخت کرکے ٹھیک ٹھیک بتاسکتے ہیں۔ اے آئی ٹولز بہتر ہورہے ہیں لیکن ابھی ان میں بے ساختہ پن نہیں۔ میں ایسے ٹولز دیکھ رہا ہوں جو اسلوب نقل کرسکتے ہیں لیکن زیادہ لوگوں کو ان کا علم نہیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور عام لوگوں کو دستیاب دوسرے ذرائع میں یکسانیت ہے۔

میں ہائی اسکول کے طلبہ کو اپنے لیسن اور کلاس ورک کے وقت کمپیوٹر کھولنے نہیں دیتا۔ موبائل فون بھی نہیں۔ سارا کام ہاتھ سے کرواتا ہوں۔ اس کا سبب تجربہ ہے۔ بچوں کو کھلا چھوڑ دیں تو وہ چند منٹ میں اسائنمنٹ یا اسسیسمنٹ پھڑکا دیتے ہیں۔ کمپیوٹر اور فون بند ہو تو انھیں آدھا پون گھنٹا لگ جاتا ہے۔

میں کلاس میں کمپیوٹر استعمال کرنے کے خلاف نہیں۔ اے آئی ٹولز کے بھی خلاف نہیں۔ میں خود انھیں وہ سب کچھ سکھارہا ہوں جو دوسرے ٹیچرز سوچ بھی نہیں رہے۔ حال میں ہمارے ڈپارٹمنٹ کے تمام طلبہ کو ایک خاص موضوع پر پریزنٹیشن تیار کرنے کا پروجیکٹ دیا گیا۔ دوسری کلاسوں کے بچوں نے ہاتھ سے، کلر مارکرز سے ٹیڑھی میڑھی لکھائی میں ایک ٹرائی فولڈ بنایا۔ میری کلاس کے بچوں نے کانوا پر ملٹی پل سلائیڈز کی پریزنٹیشن دی۔ سب کو واضح فرق نظر آیا۔

لیکن میں کلاس ورک میں کمپیوٹر کی اجازت نہیں دیتا۔ کیوں کہ پھر بچے وہ زبان لکھتے ہیں جو ان کی استعداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچے نے مارک ٹوئن کی ایک کہانی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے کیپٹی ویٹنگ قرار دیا۔ میں نے پوچھا، اس لفظ کا کیا مطلب ہے۔ وہ بوکھلا گیا کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا۔

جن لوگوں کی مادری زبان انگریزی ہے اور جن کی زبان انگریزی نہیں ہے، ان دونوں کو پڑھانے کے لیے الگ الگ کورسز ہیں۔ عام طور پر اسکول ٹیچر کوئی ایک کورس کرتے ہیں۔ میں نے دونوں کیے ہیں۔ کس عمر کے امریکی بچے اور کس عمر کے امیگرنٹ کا ذخیرہ الفاظ کتنا اور کیسا ہوسکتا ہے، یہ میں بتانے کے قابل ہوں۔

میں ٹیچنگ کا جو کورس کررہا ہوں، اس میں اپنے اسائنمنٹس کرنے کے علاوہ ہر ہفتے دوسروں کے اسائنمنٹس کا پئیر ریویو کرنا پڑتا ہے۔ میں نرم زبان میں تعریف اور تبصرے کے بعد صاف صاف لکھ دیتا ہوں کہ اسائنمنٹ میں مشینی زبان نظر آرہی ہے۔ بعض لوگ برا مان جاتے ہیں۔ کوئی کوئی اقرار کرلیتا ہے۔

ٹائم میگزین مختلف موضوعات پر خصوصی شمارے چھاپتا رہتا ہے۔ ابھی ایک خاص شمارہ آرٹیفشل انٹیلی جنس پر آیا ہے۔ اس میں ایک مضمون کلاس روم میں اے آئی ٹولز کے استعمال پر ہے۔ کل اسے پڑھ رہا تھا۔ آج یونیورسٹی کی ای میل آئی جس میں طلبہ کو اس شرط پر اسائنمنٹس میں اے آئی کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس کا حوالہ دیں اور صرف ایتھیکل استعمال کریں۔ یعنی آئیڈیاز جنریشن، برین اسٹورمنگ، بیک گراونڈ انفارمیشن اور ریسرچ کے لیے اس کا استعمال قابل قبول ہے لیکن معلومات کو خود سینتھیسائز کریں اور پیپر خود لکھیں۔

جو دوست پاکستان کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھارہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں، وہ بتائیں کہ ان کے کلاس رومز میں کس حد تک اے آئی ٹولز استعمال کیے جارہے ہیں؟

Check Also

Kya Ye Khula Tazad Nahi?

By Javed Chaudhry