Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mubashir Ali Zaidi/
  4. Mazeed Ki Pyas

Mazeed Ki Pyas

مزید کی پیاس

امریکا میں ٹیچنگ لائسنس کے بغیر پڑھانے کی اجازت نہیں۔ لائسنس لینے کا ایک طریقہ بی ایڈ یا ایم ایڈ کرنا ہے۔ وہ نہ ہو تو آلٹرنیٹ روٹ لینا پڑتا ہے۔ جس کے لیے کئی امتحان پاس کرنا پڑتے ہیں۔ ان میں اس مضمون کا امتحان بھی ہوتا ہے، جو آپ پڑھانا چاہتے ہیں۔ میں اب تک تین مضامین کے امتحان پاس کرچکا ہوں۔

سب سے مشکل امتحان انگلش لینگویج آرٹس کا ثابت ہوا۔ کہنے کو ہائی اسکول سطح کا ہے، لیکن شاید ہمارے ہاں کے ایم اے سے بھی مشکل ہو۔ بڑا مسئلہ یہ کہ ان امتحانات کا کوئی کریکیولم نہیں ہوتا۔ بس ایک آؤٹ لائن ہوتی ہے کہ امتحان میں کون سے موضوعات پر سوال آسکتے ہیں۔ میں نے ایک گائیڈ بک خرید کر تیاری شروع کی۔ جن ادیبوں شاعروں اور ان کی تخلیقات کا ذکر آیا، ان کی فہرست بناتا گیا۔ وہ کوئی دو سو نام بنے۔ فہرست بنانے کے دوران ہی ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔ نروس بریک ڈاؤن کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ پہلے سوچا کہ اس مضمون کو چھوڑ دیتا ہوں۔ دو دن اس خیال میں خوش رہا۔ پھر دل کو سمجھایا کہ جب میں نے یہ مضمون پڑھانا ہی نہیں تو امتحان دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ ایک تجربہ ہی سہی۔

میں اگر آصف فرخی یا کم از کم سید کاشف رضا ہوتا تو صفر سے آغاز نہ کرنا پڑتا۔ کاشف نے انگریزی میں دو ایم اے کیے ہیں۔ ادب میں بھی اور لسانیات میں بھی۔ میں اردو میڈیم اسکولوں والا ہی نہیں، اردو ایم اے والا بھی ہوں۔ امریکا میں ماسٹرز کرنے کے باوجود اردوواپن برقرار ہے۔

خیر، پڑھائی شروع کی۔ کوئی توپ قسم کا پڑھاکو ہوتا تو بھی یولیسز جیسے پچاس ناول، الیاڈ جیسی نوے نظمیں اور ہیملٹ جیسے چالیس ڈرامے کیسے پڑھتا۔ یہ پوری عمر کا نصاب ہے۔ سائنسی بنیادوں پر تیاری یوں کی کہ ادیبوں شاعروں کی مختصر سوانح اور ببلیوگرافی ذہن نشین کی۔ کون کم بخت کس دور کا تھا، کس تحریک سے وابستہ رہا اور کون سے یونرا کو خراب کرنے میں لگارہا۔ بڑے ناولوں اور ڈراموں کے مشہور پیسجز اور مکالموں پر نظر دوڑائی۔ نظموں کو یاد کرنے کے بجائے ان کے مفاہیم پر توجہ رکھی۔

انگریزی والے، خاص طور پر امریکی انگریزی والے جاپانی صنف ہائیکو میں کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ لیکن وہ رائم یعنی قافیے کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ مجھے محسن بھوپالی اور دوسرے اردو شعرا کے ہائیکو یاد آئے جن کے پہلے اور تیسری مصرع میں قافیہ بھلا لگتا ہے۔

زیادہ انگریزی شعرا سونیٹ میں کلام کہتے ہیں، لیکن مجھے ویلینل زیادہ پسند آئی۔ یہ انیس مصرعوں کی نظم ہوتی ہے۔ جس کے پانچ بند تین مصرعوں کے اور آخری چار مصرعوں کا ہوتا ہے۔ قافیہ بھی ہوتا ہے اور تکرار بھی۔

جو چیز کوشش کے باوجود نہیں سمجھ سکا، وہ انگریزی شاعری کی بحر ہے۔ اسے سمجھنے کا طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ پابند مصرع میں بعض سیل ایبلز پر اسٹریس ہوتا ہے اور بعض پر نہیں۔ میں نظم پڑھ لیتا ہوں، سمجھ لیتا ہوں لیکن بیٹس کے معاملے میں کورا ہی رہا۔

میں پہلے ہندوستانی فلمیں دیکھتا تھا اور ہالی ووڈ کی فلموں سے بچتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ ایک زندگی بولی ووڈ کے لیے کم ہے تو انگریزی فلموں کا رخ کیوں کروں۔ لیکن جب انھیں دیکھنا شروع کیا تو پھر لت لگ گئی۔ اب انڈین فلم نہیں دیکھ پاتا۔

اردو ادب اتنا بہت سا ہے اور میرے پاس اتنی زیادہ تعداد میں کتابیں ہیں کہ انگریزی ادب کو چوم کے چھوڑ دیتا تھا۔ شارٹ اسٹوریز بہت پڑھیں، لیکن ناولوں اور شاعری کو دور سے سلام کرتا رہا۔ اب ادھر کا رخ کیا ہے تو حیرت اور تشویش میں مبتلا ہوں۔ زندگی مختصر ہے اور سامنے لامحدود کائنات۔ پیاس تو ہے اور دریا بھی لیکن دو ہاتھوں کی اوک سے کتنا پیا جاسکتا ہے۔

Check Also

Azad Kashmir Ki Ehtejaji Tehreek Aur Media Ki Hudood

By Nusrat Javed