Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Bachpan Ki Eid

Bachpan Ki Eid

بچپن کی عید

لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بچپن کی عیدیں ایسی تھیں ویسی تھیں لیکن میرے نزدیک ماں باپ کے ساتھ گذاری ہر عید یادگار ہوتی ہے اور انسان اس وقت تک بچہ ہی رہتا ہے جب تک اس کے سر پر ماں باپ کا سایہ رہے۔

میں اپنی ہر عید اگر میں پاکستان میں ہوتا تو امی ابو کے ساتھ ہی مناتا اور پھر 2016 میں ابو کے جانے کے بعد امی کے ساتھ مناتا اور ابو کے بعد امی لازمی عیدی دیتی تھیں۔ پھر 2020 میں امی کے جانے کے بعد یہ سوچ کر کہ اس دفعہ عید بغیر امی کے ہوگی تو دل میں ایک عجیب سی ویرانی اتر آئی تھی۔

میرے خیال سب کے بچپن کی عیدیں میرے جیسی ہی ہونگی بالخصوص اسی نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کی۔۔

انتیسویں روزے کو ہم سب اپنے چوبارے کی چھت پر چڑھ جاتے اور شدومد سے چاند دیکھنے میں لگ جاتے جیسے ہی چاند نظر آتا ہم دوسرے بہن بھائیوں اور دوستوں کو جو ساتھ والے چوبارے پر چڑھے ہوتے تھے انہیں بھی چاند دکھانے کی کوشش کرتے اور جو ساتھ کھڑا ہوتا تو اس کو انگلی کی سیدھ میں دیکھنے کا کہہ کر چاند دکھانے کی کوشش کرتے۔

پھر افطاری کے بعد نعرے لگاتے گلی میں نکل آتے اور "عید آئی خوشیاں لائیں" اور بہت سی نظمیں گاتے۔۔ اپنے عید کے کپڑے دوسروں سے چھپاتے کہ ہم صبح ہی کو دکھائیں گے۔ رات کو بڑی مشکل سے ہم سوتے اور صبح امی نے سب کے کپڑے استری کرکے رکھےہوتے اور جوتے بھی ترتیب سے رکھےہوتے۔ سویاں اور چھوارے دودھ والے جو میں بہت شوق سے کھاتا تھا تیار رکھے ہوتے تھے۔

عید گاہ میں نماز پڑھنے کے لئے صاف ستھری چادریں گھر سے لے جاتے اور ہر بھائی کی کوشش ہوتی کہ اس کو چادر اٹھانی نہ پڑے۔

عید گاہ میں داخل ہونے والوں میں ہمارا اور ہمارے محلے دار محترم ماسٹر صاحب کا نمبر پہلا ہوتا تھا اور ابو ہمیں راستے میں باآواز بلند تکبیر پڑھنے کا بھی کہتے رہتے تھے۔ واپسی پر ہم ابو کی نصیحت کے مطابق دوسرے راستے سے قبرستان جاتے اور دادا دادی اور چچا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے تھے۔

پھر ہم گھر میں داخل ہوتے ہی امی کو عید مبارک کہہ کر دعا اور عیدی وصول کرتے۔ اس کے بعد محلے سے عیدیاں سمیٹنے نکل جاتے اور ہر گھر سے کچھ نہ کچھ کھا کر نکلتے۔

پھر ہمارے دوست ہمارے گھر آجاتے اور سویوں اور دہی بھلوں سے ان کی خاطر تواضع کی جاتی۔ اکٹھے بیٹھ کر عیدی گنی جاتی کہ کس کو کیا ملی اور پھر گھومنے پھرنے اور چنا چاٹ، رواں کھانے نکل جاتے حالانکہ یہ سب گھر میں بھی موجود ہوتا تھا۔ لیمن سوڈے کی بوتلوں سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔

بعض اوقات ڈاکیا انکل عید کی صبح عید کارڈ لے کر آتے اور عیدی کا بھی مطالبہ کرتے۔ پھر رات گئے تک اکٹھے بیٹھ کر ٹی وی پر عید پروگرامز سے لطف اندوز ہواجاتا تھا۔

جن جن کے والدین زندہ ہیں اللہ انہیں ان کی خدمت اور ان کے ساتھ عید کی خوشیاں لطف اندوز ہونے کی توفیق دے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں اللہ انہیں ان کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq