Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Babar Taimoor/
  4. Aaj Ka Julius Caesar (1)

Aaj Ka Julius Caesar (1)

آج کا جولیس سیزر(1)‎‎

آج سے لگ بھگ دوہزار سال قبل روئے ارضی پر عظیم سلطنت روم کا بول بالا تھا جہاں پر کونسلرز ایک رومی صوبے یا علاقے کی نمائندگی کرتے تھے اور انہی کونسلرز میں سے ایک کو تین سال کے لیے "سینیٹر"کا درجہ دیا جاتا تھا۔ لفظ "سینیٹ" اہلیان روم اس شخص کے لیے استعمال کرتے تھے جو عقل و دانش میں برتر سمجھا جاتا تھا۔ یوں یہ سلسلہ جس میں کسی ایک شخص کو تین سال کی مخصوص مدت کے لیے چنا جاتا تھا اپنی پوری آب و تاب کیساتھ جاری تھا۔ اسکا مقصد بادشاہت کے نظام کو روکنا تھا اور اس حکومت کو آجکے دور کے مطابق اگر نام دیا جائے تو صدارتی و جمہوری طرز حکومت ہوگا۔

وہ 100 قبل مسیح، روم کی عظیم سلطنت میں پیدا ہوا۔ فوج میں اعلی عہدہ حاصل کیا اور اپنی حرب و ضرب کی صلاحیتوں کو متعدد مواقع پر منوایا۔ وہ اہل روم کی اشرافیہ سے لے کر عام طبقہ کے انسانوں میں اپنا مقام پیدا کر چکا تھا۔ رومی جرنیل "پومپیو" کے ریٹائر ہونے پر اسے رومی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

اسکی زندگی نے تاریخی موڑ تب لیا جب وہ 8 سال کی طویل مہم پر تھا اور 52 قبل مسیح میں بے انتہا جدوجہد کے بعد ایلیسیاء کے2 لاکھ جنگجوؤں کو محض 40 ہزار رومی سپاہیوں سے شکست فاش دی اور اسکی ایلیسیاء کی فتح کو اہم سنگ میل اور اس میں استعمال کی گئی جنگی حکمت عملی کو رومی تاریخ میں آج بھی ایک منفرد مقام دیا جاتا ہے۔ تاریخ اس جرنیل کو "سیزر" کے نام سے جانتی ہے۔

جس وقت قاصد فتح کی خبر لے کر روم کیطرف سرپٹ گھوڑا دوڑا رہا تھا عین اسی وقت روم کی اشرافیہ "سیزر" کو ہٹانے کا فیصلہ کر چکی تھی اور اسی ضمن میں وہ "سیزر" کے ساتھی و ماتحت جرنیل "لابیئنیس" کو بغاوت میں شامل ہونے کا عندیہ بھیج چکی تھی۔ ادھر جب "سیزر" کو اسکا علم ہوا تو اس نے حفاظتی فصیل پر کھڑے ہو کر وہ جاندار تقریر کی کہ سبھی سپاہی روم کی اشرافیہ کیخلاف اسکے روبرو ہو گئے۔

بس یہیں سے روم میں انقلاب کا آغاز ہوا اور آخرکار بادشاہت کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا، وہ بادشاہ تو بن چکا تھا مگر اس نے اپنے دشمنوں میں بھی بتدریج اضافہ کر لیا تھا اور 44 قبل مسیح، 15 جولائی کی وہ اندھیری صبح جب رومن سپریم کونسل میں سازشیوں کے ساتھ مل کر "سیزر" کے سب سے قریبی ساتھی "بروٹس" نے اسے قتل کر ڈالا اور یوں وہ وقتی طور پر ایک آمر سے تو چھٹکارا پا چکے تھے مگر اسکا انقلاب روم کی تہذیب میں سرایت کر چکا تھا۔

اب ایک منظر ملاحظہ کیجیئے۔ روم کے پہلے بادشاہ جولیس سیزر کو اسکا سب سے قریبی دوست بروٹس قتل کر چکا ہے۔ لوگوں کو جب اس حادثے کی خبر ملتی ہے تو وہ سبھی روم کی سپریم کونسل کے باہر ہجوم کی شکل میں جمع ہو کر اسکی وجہ دریافت کرتے ہیں۔ بروٹس روم کا مانا ہوا دانشور اور سیاست دان بھی ہے اور جولیس سیزر کا سب سے قریبی رفیق بھی۔ وہ منبر پر کھڑے ہو کر تقریر کرتا ہے۔

بروٹس کہتا ہے، "روم والو! میرے ہم وطنو! محبت کرنے والو! میری بات سنو، خاموش ہو جاؤ۔ مجھے اپنی عزت کے لیے وہ بات کہنے دو جسے سن کر تم یہ فیصلہ کر سکو کہ مجھے ملامت کی جائے یا نہیں، کیونکہ تمہی تو بہترین منصف ہو۔ اگر اس مجمع میں "سیزر"کا کوئی دوست ہے تو وہ سن لے کہ میری سیزر کے لیے محبت قطعی طور پر اسکی محبت سے کم نہیں۔ اگر وہ پھر بھی پوچھے کہ میں اس محبت کے باوجود سیزر کے خلاف کیوں اٹھا تو میرا جواب یہ ہوگا کہ میری سیزر سے محبت کم نہیں بلکہ میری سیزر کے لیے محبت پہ روم کی محبت غالب آ گئی ہے"

(بروٹس رکا، سانس بحال کیا اور مجمع پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور لوگوں کو اپنی طرف دم بخود پا کر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے گویا ہوا)

"لوگو! کیا تمہیں یہ پسندہے کہ سیزر زندہ رہتا اور تم غلاموں کی موت مر جاتے یا یہ بہتر ہے کہ سیزر مر گیا اور تم آج آزاد ہو۔ سیزر مجھ سے محبت کرتا تھا۔ میں اس کے لیے روتا ہوں۔ اسکی کامیابیاں میری کامیابیاں ہیں اور میں دل ہی دل میں اس پر خوش ہوتا رہتا ہوں۔ وہ بہادر تھا اور میں اسکی بہادری کی قدر کرتا ہوں مگر وہ اندر ہی اندر سے اقتدار کا لالچی بھی تھا۔ وہ آمر بننا چاہتا تھا اس لیے میں نے اسے قتل کر ڈالا۔ تم دیکھ لو اسکی محبت میں میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور اسکی کامیابیوں کے لیے میں آج بھی خوش ہوں۔ اسکی دلیری کے لیے میرا احترام آج بھی قائم ہےمگر اسکی حرص اقتدار کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں تھا"

(اہلیان روم نمناک آنکھوں سے بروٹس کی شاندار تاریخی تقریر کو سن رہے ہیں اور دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہے ہیں کہ بروٹس انکے لیے نجات دہندہ ثابت ہوا ہے۔ ادھر بروٹس نے مجمع پر گہری نگاہ ڈالی اور انکے تاثرات کو اپنے حق میں دیکھ کر گویا ہوا)

"اے روم کے باشندوں! اگر یہاں کوئی اتنا حقیر ہے کہ وہ غلام رہنا چاہتا ہے تو ہاں میں اسکا مجرم ہوں، اگر کسی کو رومن ہونے سے انکار ہے تو ہاں میں اسکا مجرم ہوں، اگر کوئی اتنا کمینہ ہے کہ وطن سے محبت نہیں کرتا تو ہاں میں اسکا مجرم ہوں، " (سارے مجمع کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، ہر کوئی بروٹس کو تعظیمی نگاہ سے دیکھ رہا تھا اور جولیس سیزر کو دل ہی دل میں کوس رہا تھا) بروٹس پھر سے گویا ہوا، "اگر کوئی ہے تو بولو، اگر نہیں تو پھر میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں نے سیزر کے ساتھ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جو تم میرے ساتھ کرتے اگر میں سیزر ہوتا۔ یہ دیکھ لو "مارک انتونی" سیزر کی لاش لے آیا ہے، اسے قتل کرنے میں انتونی کا کوئی ہاتھ نہیں مگر اسکے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ انتونی کو ہی ہوگا۔ اب یہ حکمراں ہوگا جو تم نہیں بن سکتے۔ میں نے روم کے لیے اپنے عزیز ترین دوست کو مارڈالا اور اگر روم کو ضرورت پڑی تو میں اسی تلوار سے اپنی گردن کاٹ ڈالوں گا جسے میں نے اپنے دوست کے سینہ میں گھونپا تھا"۔

(بروٹس کی یہ تقریر سن کر لوگ اش اش کر اٹھتے ہیں اور بروٹس کو اگلا سیزر بنانے کا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں۔ بروٹس بڑی عاجزی کے ساتھ منبر سے اترتا ہے اور لوگوں کو مارک انتونی کی تقریر سننے کو کہتا ہے۔ عظیم روم کے لوگ مارک انتونی کو تنبیہ کرتے ہیں کہ خبردار بروٹس کے خلاف کوئی بات نا کرنا۔ اب منظر کچھ یوں ہے کہ انتونی منبر پر ہے اور اپنی تقریر شروع کرتا ہے۔)

جاری۔۔

Check Also

Kya Ye Khula Tazad Nahi?

By Javed Chaudhry