Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Babar Taimoor/
  4. Jo Ruke To Kohe Giran Thay Hum

Jo Ruke To Kohe Giran Thay Hum

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم

"جوپیٹر، ہمارے آباؤاجداد کا خدا، جس نے آج ہمارے عظیم ساتھی، بادشاہوں کے بادشاہ، رہنما، ریاستدان اور اس عظیم الشان رومن ریپبلک کے جرنیل سائیبیریس سرمپونیس گرئیکس کو ابدی موت سے ہمکنار کیا اور اسکی روح کو اپنی مقدس تحویل میں لے لیا۔ اے نوجوان ٹائیبیریس رہتی دنیا تک جب جب روم کو یاد کیا جائے گا تب تب تمہارے مرحوم والد کو بھی یاد کیا جائے گا۔"

یہ الفاظ 2160 سال پہلے، جب روم پر شہنشاہ حکومت نہیں کرتے تھے، رومن سپریم کونسل کے باہر سائیبیریس سرمپونیس گرئیکس کی آخری رسومات کے موقع پر اسکے ساتھی جرنیل کے ہیں۔ وہاں پر موجود ہزاروں کے مجمع میں رومن ریپبلک کی اشرافیہ، متوسط طبقہ اور غربت میں پسے ہوئے کسان بھی موجود ہیں۔ سبھی کی زبان پر انکے عظیم رہنما اور مسیحا کا نام پورے کرب اور غم کیساتھ گونج رہا ہے۔

انہی ہزاروں کے درمیاں، کارنیلیا اپنے مرحوم شوہر کی لاش کے پاس اپنے کمسن بیٹے ٹائیبیریس کو لیے کھڑی ہے۔ یونہی تقریر ختم ہوئی، کارنیلیا گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی اور اپنے کمسن بیٹے ٹائیبیریس کے کان میں کہا، "تمہارے والد، سائیبیریس، ایک عظیم آدمی تھے۔ تم بھی اسکے ہی بیٹے ہو، دیکھنا تم اس سے بھی اعلی مرتبہ پر پہنچو گے۔ بس ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا، اپنے اصولوں سے، جن پہ تمہیں پروان چڑھایا گیا ہے، کبھی منحرف نا ہونا، اور وہ اصول "انصاف اور تمہارے کردار کی پختگی اور عزت سے منسلک ہیں۔"

ٹائیبیریس سرمپونیس گرئیکس 144 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ وہ عظیم کلادئیس خاندان کا وارث تھا۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز رومن فوج میں بحیثیت جونئیر افسر سے کیا۔ اپنے حلقہ میں وہ جلد ہی مشہور گیا۔ 149 قبل مسیح میں رومیوں اور کارتھیج کے درمیاں ہونے والی 6 دنوں پر مشتمل لگاتار جنگ میں ٹائیبیریس نے بہادری اور ہمت سے کام لیتے ہوئے روم کو اسکے سب سے بڑے حریف کارتھیج پر فتح دلوائی۔

تاریخ میں کسی بھی تہذیب کے تمدن اور ثقافت کی اسطرح سے پامالی اور ناپیدگی کبھی دیکھنے میں نہیں آتی جیسے اہل روم نے فتح کے بعد کارتھیج کی اینٹ سے اینٹ بجا کرکی۔ ٹائیبیریس اب ہیرو بن چکا تھا مگر اسے ابھی روم کی اشرافیہ ہی جانتی تھی اور وہ ابھی رومن سپریم کونسل میں بیٹھی اس اشرافیہ اور عظیم رومی سلطنت کے عوام کی اصلی حالت سے نا واقف تھا۔

وہ اصولوں کا پکا اور عوام دوست تھا۔ اسپین میں جب اسے بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا گیا تو وہاں پر رومی فوج باربیرین فوج کے سامنے ہار مان گئی اور یوں مہینوں کی لڑائی کے بعد 20 ہزار رومی فوجی چاروں اطراف سے باربیرینز سے گھر گئے۔ رومی جرنیل مانسینس کے پاس پیغام آیا کہ باربیرین جرنیل اگر مذاکرات کرے گا تو تمہارے ساتھ نہیں بلکہ ٹائیبیریس کیساتھ۔ یہ انکشاف وہاں پر موجود ہر سینئر افسر کے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ وہ کسی صورت بھی 20 ہزار رومی سپاہیوں کی قسمت کا فیصلہ ایک جونیئر افسرکے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے تھے۔

مانسینس نے بادل نخواستہ اجازت دی۔ ٹائیبیریس مذاکرات میں کامیاب ہوا اور اس نے باربیرینز کے سامنے ایک پتھر اٹھایا اور دور پھینکتے ہوئے قسم کھائی کہ "اگر روم باربیرینز پر حملہ کرے تو اسے اسکا خدا اس پتھر کی طرح اسے اپنوں سے جدا کر دے۔" اور یوں اس نے 20 ہزار رومی سپاہیوں کو باربیرینز کے نرغے سے بحفاظت روم پہنچا دیا۔ اہل روم کو اسکی خبر ہوئی۔ یوں اب وہ اشرافیہ یا حاکموں کا نہیں بلکہ روم کے لاکھوں لوگوں کے دل کی آواز بن چکا تھا۔

ٹائیبیریس کوجب اسپین میں بغاوت کچلنے کی ذمہ داری دی گئی تھی تو اسی مہم پہ سفر کے دوران وہ روم کے مفلوک الحال عوام کو قریب سے دیکھنے میں کامیاب ہوا۔ راستے میں احتجاج کرتی ہوئی ایک عورت نے اسکا راستہ روک لیا جس کی زمیں پر کسی اشرافیہ خاندان نے قبضہ کر لیا تھا۔ عین اسی وقت وہ اپنے ایک دوست اوکٹیویس سے ملا جس نے اسے اپنی شاہانہ زندگی کا راز بتاتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ فوج کی زندگی چھوڑ کر کسی کی زمین ہڑپ کرو اور اس پر خوب دولت کماؤ۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے ایک فوجی افسر کو انقلابی ٹائیبیریس بنا دیا اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب تو نا ہوسکا مگر اسکا انقلاب اس قدر مضبوط اور گہرا تھا کہ اس نے رومن ریپبلک کی آئندہ تاریخ یکسر تبدیل کر دی۔

اس نے پہلی مرتبہ کسانوں کے لیے ذرعی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ وہ اپنے عزیز و اقارب کے خلاف گیا۔ اس نے اپنے دوست اوکٹیویس کو سپریم کونسل سے خارج کروا دیا۔ وہ جبر اور ظلم کے خلاف لڑتا رہا اور یوں انتہائی کم عمر میں شہنشاہ بننے کے جھوٹے الزام میں اشرافیہ کے ہاتھوں روم کی گلیوں میں سرعام قتل کر دیا گیا۔ اسے نشان عبرت بنانے کے لیے دفنانے بھی نا دیا گیا اور یوں اسکی لاش روم سے باہر ایک تالاب میں پھینک دی گئی تا کہ کوئی اور کبھی آزادی اور حقوق کے لیے آواز نا اٹھا سکے۔ مگر آج نا تو رومن اشرافیہ کا نام باقی ہے، نا ہی اوکٹیویس کا، نا ہی مانسینس کا، مگر آزادی اور حقوق کے لیے لڑنے والے ٹائیبیریس سرمپونیس گرئیکس کا نام اور کام آج بھی تاریخ میں زندہ ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں جدوجہد اور مسلسل تگ ودو کا عنصر بکثرت رکھا ہے۔ یہ امر ہے کہ جب بھی کسی معاشرہ میں ظلم، ناانصافی، جبر، زیادتی اور حقوق کی پامالی حد سے تجاوز کر جائے تو حضرت انسان ہمیشہ سے ہی اسکے خلاف برسرپیکار نظر آیا ہے۔ ہم ماضی میں نا جھانکیں، چلیں آج کو ہی دیکھ لیں۔

آپکا اپنا پاکستان کیسے طرح طرح کی بیرونی اور اندرونی اشرافیہ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ آپ مانیں یا نا مانیں مگر یہ عین سچ ہے کہ امریکہ بہادر پاکستان کے ہر سیاسی و غیر سیاسی کام میں ہمیشہ سے مداخلت کرتا آیا ہے۔ سکولوں میں فنڈنگ کا معاملہ ہو یا کسی این جی او کو فنڈز دینا ہوں، کوئی منصوبہ شروع کرنا ہو یا بجٹ بنانا ہو، یونیورسٹیز میں تعلیمی نظام نافذ کرنا ہو یا کاروباری اصلاحات نافذ العمل کروانی ہوں، مجاہدین تیار کرنے ہوں یا پھر انہی مجاہدین کو ختم کرنا ہو ہر جگہ امریکہ بہادر پیش پیش نظر آتا ہے یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں جانے والے ممبر کی تربیت کرنی ہو تو اسکے لیے بھی پیسہ امریکہ ہی دیتا ہے۔

آج کے موجودہ دن میں جب ہم بحیثیت قوم اس امریکی مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو پھر تنقید کس بات کی؟ کیا ہم لوگ مزید کچھ سال اپنا استحصال کروا کر اس امریکی مداخلت سے جان نہیں چھڑوا سکتے تا کہ ہم لوگ دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد قوم کے طور پر ابھر سکیں؟ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے ہی انکی پیروی کرتے رہیں گے؟

میرے الفاظ ہیں ان پاکستانی لوگوں کے لیے جو اس وقت موجودہ اشرافیہ کے خلاف ٹائیبیریس بنے ہوئے ہیں، جو آج ظلم کے خلاف جناب عمر فاروقؓ کا عکس بنے ہوئے ہیں۔ ، جو امریکہ کو للکارتے ہوئے حضرت جعفر بن طیارؓ کی یاد تازہ کر رہے ہیں، اس عزم اور امید کے ساتھ کہ ہم کامیاب لوٹیں گے۔

کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں

کچھ کہتے رہے راستہ ہموار نہیں ہے

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer