Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Babar Taimoor/
  4. Wo Baang De Ke Aasman Tarap Uthe, Laraz Uthe (2)

Wo Baang De Ke Aasman Tarap Uthe, Laraz Uthe (2)

وہ بانگ دے کہ آسماں، تڑپ اٹھے لرز اٹھے (2)

"جناب! مبارک ہو، آپ کے لیے یہ دن خوش قسمتی والا ٹھہرا"، صحافی نے بڑے پر جوش انداز میں گولڈ میڈلسٹ کی تعریف کی۔ مارک سپنٹر نے صحافی کو پاس بلایا اور بولا، "ارے بے وقوف انسان! تم مجھ سے زیادہ دیر پانی میں رہ لو، مجھ سے زیادہ خوش قسمت بن جاؤ گے۔" سارا سٹیڈیم توجیسے ساکت ہی ہو گیا۔

ایک حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہم اونٹ کو کھونٹے سے باندھ کر اللہ پر توکل کریں یا بنا باندھے ہی؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، "پہلے اونٹ کو کھونٹی کیساتھ باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرو۔" اس مختصر سی حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام عبادات و ایمانیات، دعا او روظائف کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی درس دیتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے ہمیں محنت اور سخت محنت کی تلقین حاصل ہوتی ہے۔ اسلام راہبانیت کی نہیں بلکہ ایک عملی مسلمان کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کی زندگی مختلف حالات و واقعات پر مبنی ایک تسلسل کا نام ہے جو سانسوں کی مدد سے ایک لڑی کیطرح رواں دواں ہے۔ دنیا میں آنے کا کوئی نا کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کی کم ظرفی دیکھئے کہ ہم جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو صرف دولت اور صحت ہی ہمارا موضوع ہوتا ہے۔ جبکہ میرے نزدیک زندگی جینے کا شعور اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی کہ چلتی سانسیں۔ یقین کریں بے شعور مگر مالدار لوگ سفر کے دوران اپنی چند لاکھوں کی گاڑی کی بجائے اربوں کی بنی سڑک کو کچرے سے گندا کر دینگے۔

ہمارا موضوع نوجوان نسل ہے جو پاکستان کےلیے اور ملت اسلامیہ کے لیے باعث فخر بننے کی بجائے باعث شرمندگی بنتی جا رہی ہے۔ وہ نوجوان جسے 'محمد بن قاسم '، 'ابو القاسم زہراوی'، 'الخوارزمی'، 'بوعلی سینا 'اور 'ابن الہیثیم ' بننا تھا آج وہ جسٹن بیبر، مائیکل جیکسن، ٹام کروز اور مارک ویلبرگ بنا بیٹھا ہے۔ میں یہاں کسی کی مثال نہیں دیتا۔ ہم حیات رسول اکرم ﷺ کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی کیا لازوال شخصیت کا حامل تھا، حجر اسود کے معاملے پر میان سے نکلی تلواریں آپﷺ کی حکمت عملی سے واپس میان میں چلی گئیں۔ تجارت میں قدم رکھا تو سائب بن مخزوم، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نیز جس جس نے بھی مال سونپا اس اس نے صادق اور امین ہونے کی گواہی دی۔ جب قول کی پاسداری کی بات آتی ہے تو عبداللہ بن ابی الحمساء کی گواہی آج بھی موجود ہے جو آپ ﷺ کو وہاں رکنے کا کہہ کر بھول گیا اور جب تیسرے دن اتفاقا وہاں سے گزرا تو حضور ﷺ کو وہیں انتظار میں کھڑا پایا۔ جب شریک حیات کے انتخاب کی بات آئی تو مکہ کی شوخ لڑکیوں کی بجائے اس عورت سے نکاح فرمایا جس کی سب سے بڑی خوبی انکا پاکیزہ حسب و نسب تھا۔ اس نوجوان کے دوستوں کا پتا لگائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حلقئہ احباب میں جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں، ایک شخصیت حکیم بن حزام ہیں جو حرم کے منصب رفادہ پر فائز تھے اور ایک اور موصوف ضماد بن ثعبلہ ازدی ہیں جو طبابت و جراحی کا کام کرتے ہیں۔ کیا اس اعلی مرتبت شخصیت کی نوجوانی میں کوئی کمینہ مزاج، اورسست فطرت شخص دکھائی دیتا ہے؟

نوجوانی ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ذہن کو کسی بھی مقصد کیطرف موڑنا آسان ہوتا ہے۔ یہ تربیت اور نشونما کا حساس سنگم ہوتا ہے۔ اگر تھوڑی سی لغزش دکھائی جائے تو صراط مستقیم سے پھسل جانا ممکن ہے۔

اٹلی برسوں اپنے ہی کیتھولک عیسائی گرجے کی وجہ سے کبھی فرانس اور کبھی آسٹریا کی غلامی میں رہا۔ پھر اٹلی نے گیری بالڈی جیسے سرفروش اور مازینی جیسے نوجوان مفکر پیدا کیے اور یوں 1879ء میں نپولین سوئم کی شکست کیساتھ اٹلی آزاد ہو گیا۔ گولیزپ مازینی 1841ء میں جنیوا کی جیل سے آزاد ہو تو وہاں کے چیف جیلر نے مازینی کے والد سے شکایت کی کہ، " تمہارا بیٹا ایک اچھا آدمی ہے۔ مگر یہ ہروقت کن خیالوں میں رہتا ہے؟ اسے کیا تفکرات لاحق ہیں؟ ہمیں (فرانسیسیوں) یہ بات بلکل بھی پسند نہیں کہ ہمارے نوجوان ایسی باتیں سوچیں جنکا ہمیں علم ہی نا ہو۔" ؎

الہی سحر ہے مردان خرقہ پوش میں کیا!

1968ء کے اولمپکس میں مارک سپنٹر صرف آدھے سیکنڈ کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہا یوں وہ تیراکی میں گولڈ میڈل نا لے سکا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ اگلے چار سال بعد لازمی گولڈ میڈل حاصل کر ے گا۔ اگلے اولمپکس کے آنے تک وہ مختلف ایونٹس میں تیراکی میں چھ گولڈ میڈل لے چکا تھا۔ اسکی نظریں 1972ء کے اولمپکس پر تھیں۔ مقابلے کا دن آیا، ریفری نے وسل بجائی اور مقابلہ شروع ہوا۔ اس بار جیت مارک سپنٹر کی ہوئی۔ وہ ورلڈ چیمپیئن اور تیراکی میں مسلسل سات میڈل حاصل کرنے والا انوکھا کھلاڑی بھی بن چکا تھا۔ گولڈ میڈل وصول کرنے کے بعد وہاں پر موجود صحافی نے کہا، "جناب! مبارک ہو، آپ کے لیے یہ دن خوش قسمتی والا ٹھہرا۔" مارک سپنٹر متوجہ ہوا، صحافی کو اسٹیج پر آنے کو کہا۔ صحافی تھوڑا نروس ہوا اور مارک سپنٹر کے پاس چلا گیا۔ مارک نے کہا، " تم کہتے ہو یہ میرا لکی ڈے ہے۔ میں آج سے 4 سال پہلے آدھے سیکنڈ کے فرق سے ہار گیا تھا تم جانتے ہو مجھے آدھے سیکنڈ کا فرق ختم کرنے کے لیے کتنا وقت لگا، کتنی محنت کرنا پڑی؟ " صحافی خاموش رہا۔ وہ رکا اور پھر بولا، " میں نے یہ آدھے سیکنڈ کا فرق ختم کرنے کے لیے ان 4 سالوں میں ایک بھی چھٹی نہیں کی۔ میں روزانہ 10 گھنٹے پانی میں مشق کرتے گزارتا تھا۔ میں نے35,040 گھنٹے اور 21 لاکھ سیکنڈز پانی میں گزارے ہیں، اس دوران میری بیوی اور بچے مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور آج میں وہ آدھےسیکنڈ کا فرق ختم کر پایا ہوں۔ مارک نے سانس بحال کی اور بولا، " ارے بے وقوف انسان! تم مجھ سے زیادہ دیر پانی میں رہ لو، مجھ سے زیادہ خوش قسمت بن جاؤ گے۔" سارا سٹیڈیم توجیسے ساکت ہی ہو گیا۔

ٹی وی پر بیٹھنے والے تجزیہ نگار بھی کاش حکومت کی بجائے اس نوجوان نسل کی خامیاں اس قوم کا ازبر کروائیں۔ کاش کہ کوئی مسیحا ایسا بھی آئے جو سیاست اور معیشت کیساتھ اس ملک و ملت کے سرمائے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کر دے۔ اے کاش کوئی مقرر تاریخ کی فتوحات کی بجائے اس میں شامل نوجوانوں کی کاوشوں کا باب چاک کر دے۔ کاش کوئی ایسی ماؤں کا ہی تذکرہ کر دے جو اپنے بچوں کو گھر پر ہی شعور کی دولت سے مالا مال کر دیتی تھیں۔ ورنہ ہم محمد بن قاسم نہیں جسٹن بیبر ہی تو پیدا کر رہے ہیں، صلاح الدین نہیں ایلن واکر ہی پروان چڑھا رہے ہیں۔ اگر نہیں تو ادھوری خواہشات میں اس ایک خواہش کا اضافہ کر لیجیے کہ وہ بانگ دے کہ آسماں، تڑپ اٹھے لرز اٹھے۔ (جاری)

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer