1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Burhan Ul Haq
  4. Imam e Azam Abu Hanifa Aur Fiqhi Baseerat

Imam e Azam Abu Hanifa Aur Fiqhi Baseerat

اما م اعظم ابو حنیفہ اور فقہی بصیرت

نام، نعمان بن ثابت، کنیت، ابو حنیفہ، لقب، امام اعظم، ولادت، امام اعظم ابو حنیفہؓ کی ولادت باسعادت 80ھ کو کوفہ میں ہوئی۔

حضور ؐ کی بشارت، جس دور میں امام اعظم پروان چڑھے علم زیادہ تر موالی میں پایا جاتا تھا۔ وہ نسبی فخر سے محروم تھے خدا نے انھیں علم کا فخر عطاء کیا تھا، جو سب کے مقابلے میں زیادہ مقدس اور زیادہ پھیلنے پھولنے والا زیادہ پائیدار نام زندہ رکھنے والا تھا۔ رحمت عالم ؐ کی یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی کہ اولاد فارس علم کی حامل ہوگی امام بخاری و مسلم وشیرازی و طبرانی کے الفاظ یہ ہیں۔

لوکان العلم معلقاعند الثریا تناولہ رجال من ابناء الفارس، اگر علم کہکشاں تک بھی پہنچ جائے تو اھل فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر کے رھیں گے، تحصیل علم کی طرف توجہ اور تعلیم و تربیت، امام اعظم کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مذاھب وادیان کی دنیا دیکھی غور و فکر کرنے سے ان سب کی حقیقت آپ پر آشکارا ہوگئی آغاز شباب سے ہی آپ نے مناظرہ بازوں سے معرکہ آرائی شروع کر دی اور اپنی فطرت مستقیم کے حسب ہدایت اہل بدعت و ضلالت کے مقابلے میں اتر آئے۔

مگر اس کے باوجود آپ تجارتی مشاغل میں منہمک تھے اور علماء سے واجبی روابط رکھتے تھے اور بعض علماء نے آپ میں عقل و علم و ذکاوت کے آثار دیکھے اور چاہا کہ یہ بہترین صلاحیتیں تجارت کی ہی نظر نہ ہو جائیں، انہوں نے آپ کو نصیحت کی کہ بازاروں میں آمدورفت کے علاوہ علماء کی طرف عنان توجہ ہونی چاہیے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک بار شعبی کے ہاں سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا آنا جانا کہاں ہے تو انہوں نے عرض کی میں بازار ۤآتا ہوں۔

آپ نے فرمایا کہ میری مراد بازار نہیں بلکہ علماء کے ہاں آنے جانے سے ہے، میں نے کہا کہ میری آمدو رفت علماء کے ہاں بہت کم ہے، انہوں نے کہا کہ یہ غفلت نہ کیجیے علم کا درس اور مطالعہ اور علماء کی صحبت آپ کیلئے بہت ضروری ہے، کیونکہ میں آپ میں حرکت وبیداری کے آثار دیکھتا ہوں، میرے دل میں بات اتر گئی اور میں نے بازار کی آمد ورفت چھوڑ کر علم حآصل کرنا شروع کر دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی بات سے مجھے فائدہ پہنچایا۔

علم و کلام جدل و مناظرہ میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد علم فقہ آپ کی جولان گاہ اور فکر و نظر بنا، آپ کوفہ میں پروان چڑھے اور وہیں رہ کر زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور مناظرہ میں گزارا کتب تواریخ میں آپکے والد کے بارے میں کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں کہ وہ متمول تاجر اور بہت اچھے مسلمان تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے کھا ہے کہ آپکے دادا کی حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ثابت کی اولاد کےلئیے دعا کی۔

امام اعظم کی تربیت ایک خاص اسلامی گھرانے میں ہوئی، امام اعظم اور حماد بن سلیمان ؓم، آغاز فقہ اور حضرت حماد کے حلقہ تلمذ میں آنے کے وقت آپ کی عمر کا صحیح صحیح تعین تو مشکل ہے، البتہ امام صاحب کے آغاز تعلیم و تدریس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ امام حماد کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے دامن سے وابستہ رہے۔ آپ کے اساتذہ امام ابوحفص کبرٰی نے آپ کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے۔

اور دوسروں نے آپ کے استاذہ کی تعداد صرف تابعین ؓم میں چار ہزار بتائی ہے، تو غیر تابعین کی تعداد کا کون خیال کر سکتا ہے آپکے مشہور اساتذہ، حضرت امام حماد، امام زید ابن علی زین العابدین، حضرت امام جعفر صادق، حضرت عبداللہ ابن حسن بن حسن بن علی، امام شعبی، عکرمہ تلمیذ ابن عباس، نافع تلمیذ ابن عمر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات امام اعظم نے پانچ یا آٹھ صحابہ کرام سے ملاقات کی جن میں چند کے نام یہ ہیں۔

حضرت سیدنا انس بن مالک، حضرت عبداللہ ابن ادفی، حضرت سہل بن سعد، حضرت سیدناابو طفیل، حضرت عامر بن واصلہ ؓم حضرات محدثین کے نزدیک جو شخص صحابی سے ملاقات کرے اگرچہ ساتھ نہ رہے وہ تابعی کہلاتا ہے، اور اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امام اعظم ان معززین تابعین میں سے ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ والذین اتبعوہم باحسان ؓم ورضوا عنہ واعد لہم جنت تجری تحتھا النھار خلدین فیھا ابدا۔

اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، امام اعظم اور امام باقر کا مکالمہ، محمد باقر بن زین العابدین زید ابن علی کے بھائی تھے، امام باقر بہت بڑے عالم دین تھے، امام ابوحنیفہ کی ان سے ملاقات اسوقت ہوئی، جب ان کی فقہ و رائے کا نیا نیا چرچا ہوا تھا۔

ملاقات کا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں پیش آیا، امام باقر نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ آپ نے تو میرے نانا کے دین کو اور ان کی حدیث کو قیاس سے بدل دیا ہے، امام اعظم نے کہا معاذاللہ جناب باقر بولے آپ نے ایسا ہی کیا ہے امام اعظم بولے آپ تشریف رکھئے تا کہ میں بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاؤں، کیونکہ میری نظر میں آپ اسی طرح لائق احترام ہیں۔ جیسے آپ کے نانا صحابہ کی نظر میں جناب باقر تشریف فرما ہوئے، امام اعظم بھی زانوئے ادب طے کر کے آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔

امام اعظم بولے میں آپ سے باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ان کا جواب مرحمت فرمائیں

سوال نمبر 1، مرد کمزور ہوتا ہے یا عورت؟ امام باقر بولے عورت، پھر امام اعظم بولے وراثت میں عورت کیا حصہ ملتا ہے آپ نے فرمایا مرد کو دو اور عورت کو ایک۔ امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے، اگر میں ان کے دین کو بدل دیتا تو قیاس کے مطابق مرد کو ایک حصہ دیتا اور عورت کو دو کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے۔

سوال نمبر 2، فرمائیے نماز بہتر ہے یا کہ روزہ؟ امام باقر بولے نماز۔ امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے، اگر میں اس کو قیاس سے بدل دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ حیض سے پاک ہو کر روزہ کی بجائے وہ فوت شدہ نمازیں ادا کرے۔

سوال نمبر 3، فرمائیے پیشاب زیادہ نجس ہے یا کہ نطفہ؟ امام باقر بولے پیشاب۔ امام اعظم بولے اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو فتویٰ دیتا کہ پیشاب سے غسل کرے اور نطفہ سے وضو معاذاللہ بھلا میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں۔

جناب باقر اٹھے اور اٹھ کر بغل گیر ہو گئے چہرہ کا بوسہ لیا اور آپ کی تکریم بجا لائے، امام اعظم کے تدریس و افتاء کی ابتدا جب کوفہ کے رئیس العلماء اور آپکے استاد گرامی حضرت حماد کا وصال ہوگیا اور مسند تدریس خالی ہوگئی تو لوگوں کو ضرورت کا احساس ہوا کہ آپ کی جگہ کوئی رونق افروز ہو کر تشنگان علم کو سیراب کرے تو لوگوں نے پہلے حضرت حماد کے صاحبزادے کو بٹھایا۔

لیکن آنے جانے والوں کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ زیادہ تر ان کی توجہ فن نحو وعلم کلام پر مرکوز تھی، پھر موسیٰ بن کثیر بیٹھے لیکن وہ بڑے بڑوں کو ملا کرتے تھے، اس لئے لوگوں نے ان کو پسند نہ کیا، اس کے بعد باتفاق رائے امام اعظم منتخب ہوئے آپ نے بھی سب کی بات تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ علم مر جائے پھر تشنگان علم آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے اور آپ کا وسیع ترین علم و حسن اخلاق اور تحمل دیکھ کر لوگوں نے اوروں کو چھوڑ دیا۔

اور وہ سب انہی کے ہو گئے بقول(ایک جاگیر محکم گیر) پھر وہ ترقی کرتے کرتے علوم دینیہ کے ملازم ہوئے، یہاں تک کہ آپ کا حلقہ درس تمام درس گاہوں سے وسیع ہوگیا۔ اور لوگو ں کے قلوب آپ کی طرف مائل ہو گئے اور امراء آپ کی تعظیم و تکریم کرتے خلفاء ان کو یاد کرتے، اس لئے کہ جو مسند تدریس امام حماد کی وفات کے بعد سونی ہوگئی تھی۔ اس کو ہمارے امام اعظم نے زینت بخشی اور یہ ایک تاریخی مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حماد کا انتقال 125ھ میں ہوا۔

اور آپ پورے اٹھارہ سال امام حماد کی صحبت میں رہے، اس طرح کل تلمذ کی مدت اٹھارہ سال بنتی ہے، امام حماد کی وفات کے بعد آپ چالیس سال کے تھے۔ آغاز شاگردی میں 22 سال کے ہوں گے اور چالیس سال تک اخز واستفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد باستقلال مسند تدریس پر فائز ہوئے، بنائے مذہب حنفی تاریخ بغداد جلد نمبر 13 ص 368میں امام صاحب سے منقول ہے کہ میں کتاب اللہ سے سند لیتا ہوں۔

Check Also

Phoolon Aur Kaliyon Par Tashadud

By Javed Ayaz Khan