1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Nasir Saddeqi/
  4. Aik Aur U-Turn, Aik Aur Extention

Aik Aur U-Turn, Aik Aur Extention

ایک اور یوٹرن ، ایک اور ایکسٹینشن

کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عمران خان جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا مطالبہ کریں گے۔ یہ ایک بڑا پتہ کھیلا گیا ہے۔ مخالفین تو اب یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے عمران خان نئے الیکشن تک جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن یہاں عمران خان نے بڑی پیاری چال چلی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ رجیم نے جس بھی آرمی چیف کو منتخب کرنا ہے، تحریک انصاف کےلیے اس میں خیر کا پہلو نہیں نکلتا لہذا الیکشن کسی بھی آرمی چیف کے ہوتے ہوئے ہوں، پی ٹی آئی کےلیے تو یکساں ہے لیکن اس مطالبے کے کچھ نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔

اول یہ کہ عمران خان نے اگلے آرمی چیف کی میرٹ پہ تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اختیار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بجائے اگلی منتخب حکومت کو ہونا چاہیے۔ اب انھوں نے بڑے خوبصورت انداز میں حکومتی ٹولے کو یہاں گھیر لیا ہے اور یہ فیصلہ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

دوم یہ کہ گر حکومت ایکسٹینشن دیتی ہے تو پھر وہ بھائی لوگ جو اس امید پہ ابھی تک ساتھ دے رہے تھے کہ ان کی ترقی ہو گی، وہ تپیں گے۔ اگر کسی سے وعدہ کیا گیا ہے تو اس نے بھی سخت مشکلات پیدا کرنی ہے اور خطرے ناک ہونا ہے۔

سوم یہ کہ اگر حکومت ایکسٹینشن نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر موجودہ چیف ضرور سوچیں گے کہ عمران خان سے تعلقات بحالی کی کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔

چہارم یہ کہ اگر ایکسٹینشن دی جاتی ہے تو یہ تاثر بھی مضبوط ہو گا کہ یہ فیصلہ عمران خان کے پریشر میں دیا گیا ہے لہذا وہ اب بھی اہم قومی فیصلوں پہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس طرح کٹھ پتلی حکومت کی حیثیت مزید ڈاؤن ہو جائے گی جو وہ کسی صورت نہیں چاہتے۔

پنجم یہ ایک پریشرائزنگ ٹول بھی ہے کیونکہ اب حکومتی ٹولہ پریشان ہو جائے گا کہ اگر ایکسٹینشن دی جاتی ہے اور عمران درپردہ ڈیلنگ کر لیتے ہیں اور آگے بھی اسے ہی برقرار رکھنے کی ڈیل کر لیتے ہیں تو اس صورت میں الیکشن مینیج نہیں ہو گا اور بعد میں عمران خان ان پارٹیوں پہ فوری سے کرپشن کے مقدمات چلا دے گا۔ پہلے سے محدوم ہوتی پارٹیوں کی پریشانی اب سو گنا بڑھ جائے گی۔

ششم یہ کہ عمران خان کے اس مطالبے سے یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ وہ صرف الیکشن چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اہم فیصلے وہ خود کریں گے۔ حکومت اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہے کہ یہ پتا اب عمران خان کے ہاتھ میں آگیا ہے اور وہ پتہ نہیں اس کا ابھی اور آگے کیسا استعمال کریں گے کیونکہ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ عمران خان رجیم چینج کے ہر کردار کے "کردار" کو جانتے ہیں۔

عمران خان نے یہ مطالبہ کر کے حکومتی ٹولے اور بھائی لوگوں کو سخت کنفیوژ کر دیا ہے۔ یہ اعصابی جنگ ہے اور کپتان اعصابی جنگ میں ان سب سے بہت آگے ہے۔ اب سب سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ وہ ان کو اپنی مرضی کے میدان میں لا کر اپنے اشاروں پہ چلا رہا ہے۔ یہی اس کی خاصیت ہے۔

اس وقت ملک کو فوری اور شفاف الیکشن کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان شروع سے ہی یہی مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ملک میں جاری عدم استحکام کا ختم کیا جائے۔ موجودہ کٹھ پتلی اکٹھ ایک مکس اچار ہے جو کسی بھی اہم فیصلے پہ متحد نہیں ہو سکتا کیونکہ سب پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ کسی کو کسی پہ اعتماد نہیں ہے۔ اہم فیصلے بھی پردے کے پیچھے سے ہو جاتے ہیں اور حکومت کو ان فیصلوں کا بس دفاع کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی و بربادی کی جانب جا رہے ہے۔

اپنے اپنے مفادات پہ مشتمل یہ گروہی حکومت کسی صورت ملک کےلیے اہم فیصلے نہیں لے سکتی۔ یہ تجربہ مکمل طور پہ ناکام ہو چکا ہے اور قوم نے اس مضحکہ خیز تجربے کو مکمل مسترد کر دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے اور شفاف الیکشن کروا کر عوام کی حاکمیت قائم کی جائے اور ملک میں استحکام پیدا کیا جائے۔ مانا کہ پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے لیکن آپ ت ذاتی مفاد کےلیے ملک پہ بات بار تجربے کرنے کے بجائے جمہوریت کو تسلسل دیا جائے۔

پوری دنیا اب عوامی حاکمیت مان رہی ہے۔ ہمارے طاقتور حلقوں کو اب عوام کو "ال انفارمڈ" قرار دے کر خود سے جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز رہنا ہو گا کیونکہ اس کا براہ راست نقصان پاکستان اور قوم کو ہوتا ہے۔ موجودہ تجربے سے بھی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ عمران خان عوامی پریشر کے بل بوتے پہ پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ عوام اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اب عام انتخابات کروا کے عوامی فیصلے کے احترام کا وقت آ گیا ہے۔

امریکہ کی لگائی ہوئی رجیم چینج کے ذریعے کسی بھی آرمی چیف کا انتخاب امریکہ کا انتخاب تصور ہو گا جس سے ادارے کا وقار مجروح ہو گا۔ بہتر ہے کہ عام انتخابات کے بعد عوام کا منتخب نمائندہ خود یہ انتخاب کرے۔ ڈیوٹی کے دوران پہلے سے موجود آرمی چیف ک ہٹانے سے وزیر اعظم کی حثیت بھی بحال ہو گی اور عوام کے منتخب نمائندے اور کسی سرکاری ملازم کے دوران فرق بھی واضح ہو گا۔ نیز منتخب نمائندے کے زریعے آرمی چیف کے انتخاب سے ادارے کا وقار بھی بڑھے گا۔

Check Also

Allah Taala Ke Pasandida Bande

By Saira Kanwal