1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Nasir Saddeqi/
  4. Mujhy Kyun Nikala?

Mujhy Kyun Nikala?

مجھے کیوں نکالا؟

عمران خان کے لانگ مارچ کی جڑیں نواز شریف صاحب کے "مجھے کیوں نکالا" مارچ سے جا ملتی ہیں۔ یہی سے نتائج بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک لانگ مارچ نواز شریف نے بھی کیا تھا۔ جب پانامہ لیکس آئی تو اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے نواز شریف کا نام بھی اس میں شامل تھا۔ عمران خان نے فوراً تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور چہیتے خواجہ آصف کو اپنے آقاؤں کی وجہ سے اس قدر غرور تھا کہ انھوں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ وزیراعظم صاحب فکر نہ کریں کچھ دنوں میں عوام سب بھول جائے گی جس پہ عمران خان نے کہا کہ بیشرم آدمی تمہارے باپ کا پیسہ ہے جو لوگ بھول جائیں گے۔ یہ وہی خواجہ آصف ہیں جو 2018 میں رات گئے ہار چکے تھے اور انھوں نے جنرل باجوہ صاحب کو ایک کال کی اور رزلٹ بدل گیا۔ اس کال کا اعتراف خود جنرل باجوہ صاحب خواجہ آصف کے سامنے کر چکے ہیں۔

خیر خواجہ آصف کی یہ بڑھک اسی وجہ سے تھی۔ عمران خان نے احتساب کا نعرہ لگایا لیکن نہ تو پارلیمنٹ اس کا ساتھ دے رہی تھی اور نہ عدالتوں کو یہ کیس لینے کی اجازت دی گئی۔ اور پھر عمران خان نے اپنا عوامی طریقہ استعمال کیا جو دو سال قبل ہی وہ چار حلقوں کی تحقیقات کے لیے استعمال کر چکے تھے جس میں پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، عدلیہ، سب یہی کہہ کر جان چھڑا رہے تھے کہ یہ ہمارا اختیار نہیں۔ عمران خان نے عوامی اختیار استعمال کیا اور دھرنے کا اعلان کر دیا۔

عمران خان کے اعلان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی کانپیں ٹانگنے لگیں۔ عمران خان کو منانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ نہ مانا۔ بالآخر اسے گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان نے کارکنان کو بنی گالہ پہنچنے کی کال دے دی۔ سڑکوں کے جام کے باوجود رات کو ہی عوامی جم غفیر بنی گالہ کو گھیر چکا تھا۔ خیبر پختونخوا سے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں قافلہ نکلا جسے پنجاب میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ پوری رات پنجاب بارڈر پہ جنگ کا سا گھمسان رہا۔

رات کو تو پنجاب پولیس نے کارکنوں پہ فائرنگ کی لیکن دن کے اجالے میں وہ اس منہ زور لشکر کو روکنے میں ناکام ہو گئے۔ پنجاب میں اس قافلے کے داخل ہوتے ہی عدالت نے اعلان کر دیا کہ چلو ٹھیک ہے ہم کیس سن لیتے ہیں۔ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ نے بچاؤ کی یقین دہانی کروائی اور وہ بھی مان گیا۔ ابتدائی کیس کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ ہوا اور ن لیگ نے حسب معمول مٹھایاں بانٹیں۔

تحقیقات ہوئیں تو والیم ٹین کو اسٹیبلشمنٹ کے آرڈر پہ اوپننگ سے روک دیا گیا جو تاحال عدالت کی فائلوں میں کہیں چھپا پڑا ہے۔ نواز شریف کو بچانے کے لئے چودہ ماہ تک کیس چلا لیکن وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی پیش نہ کر سکا۔ عمران خان نے اس دوران اپنا بیانیہ مضبوط کر کے سب کو ٹکر دی۔ عوامی رائے بدل گئی۔ سب کچھ سامنے آنے کے بعد نواز شریف کا بچاؤ تقریباً ناممکن بن گیا۔ عمران خان نے کسی کی نہیں سنی۔ عوام بپھری ہوئی تھی۔

بالآخر نواز شریف کو انقلابی بنانے کے لئے اسے کہا گیا کہ ایک کمزور کڑی پکڑ کر اسے نااہل کیا جائے گا اور وہ اسے ظلم قرار دے کر بیانیہ بنائے گا اور پھر اسے واپس لایا جائے گا۔ نواز شریف کو سیف پیکج دے دیا گیا۔ وہ اس "ناانصافی" کے خلاف میدان میں نکلا۔ راولپنڈی سے لاہور تک لانگ مارچ کا فیصلہ ہوا۔ عوام سے بار بار پوچھا گیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے چلائے گيے۔

جب عوام نے اس پہ توجہ نہ دی اور اسے ٹھکرا دیا تو نواز شریف اور مریم نواز کو نام نہاد جیل ہو گئی۔ لوگوں کو لگا کہ وہ واقعی جیل کے کسی مقام پہ سزا کاٹ رہے ہیں۔ عوام پھر بھی نہ نکلی۔ پھر عام انتخابات ہوئے۔ الیکشن میں ن لیگ پٹ گئی۔ عمران خان کا بلا چل گیا۔ اب عمران خان کا راستہ روکنا ناممکن تھا۔ اس نے 118 سیٹیں جیتیں جبکہ پیپلز پارٹی 33 اور ن لیگ صرف 43 سیٹیں لے پائی۔ یہ بوگس ووٹوں کے باجود تھا۔

اسٹیبلشمنٹ گھبرا گئی۔ فوراً سے آر ٹی ایس سسٹم بند کر دیا گیا۔ ایک کہرام مچ گیا۔ دھاندلی کا شور پڑ گیا لیکن یہ شور ن لیگ اور پیپلز پارٹی مچا رہی تھی تاکہ اس جیت کو دھندلا سکیں اور دھاندلی کا الزام عمران خان پہ لگا سکیں۔ آر ٹی ایس دو گھنٹوں کی بندش کے بعد کھلا تو تحریک انصاف 118 سے واپس 116 پہ آ چکی تھی اور اس کا رزلٹ رک چکا تھا لیکن ن لیگ 43 سے 64 پہ پہنچ چکی تھی جبکہ پیپلز پارٹی 33 سے 43 پہ پہنچ چکی تھی۔

عمران خان کو کمزور حکومت دی گئی۔ اپنی چھوٹی جماعتیں اس کو اتحادی کے طور پہ دی گئیں۔ پھر حکومت بنی تو اس کی کرپشن کی مہم کو ڈسکریڈٹ کرنے کی کوششیں عروج پہ پہنچ گئیں۔ عدالتوں اور نیب کو کنٹرول کر لیا گیا۔ ہر کرپٹ ضمانت پہ رہا ہو گیا۔ نواز شریف باہر چلا گیا۔ شہباز شریف کا مضبوط کیس آگے نہ بڑھ سکا۔ مریم نواز کی ضمانت ہوئی تو عمران خان سمجھ گیا۔ اسے باہر نہ جانے دیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو دوبارہ واپس لانے کے لئے ہزار جتن کیے۔

بالآخر اسے نکال کر انھی چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کو واپس قوم پہ مسلط کر دیا۔ سب کے کرپشن کیسز ختم کر دیے گئے۔ عمران خان کو ںہیں کہا گیا لیکن وہ چار سال ڈٹا رہا کہ این آر او نہیں دوں گا۔ بالآخر خود سامنے آ کر این آر او دیا۔ عمران خان نے مجھے کیوں نکالا ریلی نہیں نکالی۔ اگلی رات کو رمضان کے باجود پوری قوم سڑکوں پہ تھی۔ اس نے پانچ ماہ کے اندر قوم کے سامنے اصل ذمہ داروں کو ایسا ایکپسوز کیا کہ "خفیہ ادارے" کا چیف پریس کانفرنس کرنے آن پہنچا اور وضاحتیں دیتا رہا۔

عمران خان نے عوامی قوت سے ان کی بادشاہت ختم کر دی۔ اب وہ لانگ مارچ لیکر نکلے ہیں اور طاقت کے ایوان خوف سے کانپ رہے ہیں۔ گرتی دیوار کو آخری دھکا لگانے اب عمران خان نکلا ہے تو پوری قوم اس کے ساتھ چل رہی ہے۔ صرف لاہور سے وہ لاکھوں کے جم غفیر کو نکال لایا ہے۔ عمران خان نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور ملک کے ساتھ مخلص رہ کر عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔

آج نہ تو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو لوگ مانتے ہیں، نہ آئی ایس پی آر کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی باتوں کو سیریس لیتے ہیں۔ عمران خان نے قوم کو وہ شعور دے دیا ہے کہ اب انھیں حب الوطنی اور ڈالر خوری میں فرق واضح نظر آتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ لاکھوں کا پرجوش مجمع پچہتر سالہ تاریخ بدلنے کے لیے انقلاب کی لاٹھی لیے چڑیا گھر کی جانب رواں دواں ہے اور کنٹینر سے براہ راست نام لیکر پکار شروع ہو چکی ہے۔ ان شاءاللہ پاکستان حقیقی آزادی کے بالکل آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔

Check Also

Kamila Shamsie

By Sami Ullah Rafiq