Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saeed Arshad/
  4. Election Aur Imran Khan (1)

Election Aur Imran Khan (1)

الیکشن اور عمران خان (1)

پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1959ء کے شروع میں منعقد ہونے والے تھے۔ صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء آئین منسوخ کردیا، قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ میجر جنرل اسکندر مرزا نے آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ 27 اکتوبر 1958ء کو جنرل محمد ایوب خان نے میجر جنرل اسکندر مرزا کو اُن کے عہدے سے فارغ کرکے صدر کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ جنرل محمد ایوب خان1958ء سے لے کر 1969ء تک بِلا شرکت غیرے ملک کے صدر اور حکمران رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر ایوب ملک میں عام انتخابات کروانے کی راہ ہموار کرتے اور حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کردیتے مگر اِس کے برعکس وہ اپنے اقتدار کے مزے لیتے رہے اور جو انتخابات 1959ء میں ہوجانے چاہئے تھے وہ 1969ء تک بھی نہیں ہوسکے۔

25 مارچ 1969ء کو جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے ایک اور مارشل لاء ملک میں نافذ کردیا، اُنہوں نے صدر ایوب کو چلتا کیا اور خود ملک کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ ملک میں انتخابات کو لے کر مظاہرے بڑھ رہے تھے۔ خدا خدا کرکے 7 دسمبر 1970ء کو ملک میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ تب قومی اسمبلی کی ٹوٹل 313 سیٹیں تھی۔ جن میں سے 169 سیٹیں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور 144 سیٹیں مغربی پاکستان کی تھی۔ اِن میں سے 13 سیٹیں خواتین کیلئے مخصوص تھی جن میں سے7 مشرقی پاکستان اور 6 مغربی پاکستان سے مخصوص تھی۔ الیکشن منعقد ہوئے اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 167 سیٹیں جیت لیں اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 سیٹیں جیتی۔ پہلے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے واضح برتری حاصل کی تھی۔ حکومت بنانا عوامی لیگ کا سیاسی، اخلاقی اور قانونی حق تھا اور اس حق کو دنیا کی کسی بھی عدالت میں جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔

1947ء سے لیکر 1970ء تک ملک کی 23 سالہ تاریخ میں ملک میں 12 سال تک ڈائریکٹ مارشل لاء نافذ رہا۔ ہم کو عام انتخابات کروانے اور عوام کی رائے جاننے میں 23 سال لگ گئے۔ جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت میں پہلے عام انتخابات 1951ء میں ہوگئے تھے اور وہاں عوامی حکومت بھی قائم ہوگئی تھی۔ مگر ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ پہلے عام انتخابات میں جیتنے والی پارٹی کو ہم نے حکومت سونپنے سے ہی منع کردیا۔ بار بار قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا جاتا رہا۔ ہم عوامی رائےکو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے، لوگوں میں بے چینی اور غصہ بڑھتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ اگر عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی اور حکومت عوامی نمائندوں کو سونپ دی جاتی تو شاید ملک دولخت نہ ہوتا۔ اگر قیام پاکستان کے کے بعد سے ہی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جاتا تو جتنے بھی ایشوز تھے ان کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کرکے حل کیا جاسکتا تھا۔ مگر ہم نے عوامی رائے کا گلہ گھونٹ کر ایک پوری جنریشن اور قوم کو اپنا مخالف بنا لیا۔

ملک کا دولخت ہو جانا بہت بڑا سانحہ تھا اگر یہ سانحہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں کے لوگ اس سانحے کے ذمہ دران کو عبرت کا نشان بنا دیتے، اس سانحے کی تحقیقات کی جاتی اور تحقیقات کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سانحے کے متعلق جان سکیں اور یہ غلطیاں نہ دہرائیں۔ اس سانحے سے سبق حاصل کیا جاتا اور دوبارہ ایسی غلطیاں نہ کرنے کا اعادہ کیا جاتا۔ مگر کیا کیا جائے یہ ارض پاکستان ہے یہاں غلطیوں سے سیکھنے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی کوئی روایت سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ باقی ماندہ پاکستان کی کمان ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آگئی۔ 1973ء کو ملک چلانےکیلئے پہلا باضابطہ آئین تشکیل دیا گیا۔ 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں بلائی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹوتب کے پاکستان میں سب سے مشہور ساست دان تھے۔

ایک امید ہو چلی تھی کہ اب ملک جمہوری طریقے سے چلے گا اور عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔ مگر یہ امید بھی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکی اور جولائی 1977ء کو ایک بار پھر سے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا، ضیاءالحق حکومت پر قابض ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹوکو جیل میں بند کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام بالخصوص نوجوانوں مین بہت مقبول تھے۔ 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ایک بار پھر سے ہم نے ایک پوری جنریشن کو اس نظام سے متنفر کردیا اور ملک اگلے ایک دہائی تک مارشل لاء کے زیر نگیں رہا۔ اِس ایک دہائی میں افغانستان میں جہاد کو لڑا گیا، لاکھوں افغانیوں کو پاکستان میں لاکر بسایا گیا جنہوں نے ملک کو دہشت گردی اور افیون تحفے میں دی۔

17 اگست 1988ء کو ضیاء الحق طیارے حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ نومبر 1988ء کو ملک میں ایک بار پھر سے عام انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو ملکی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئی۔ یہ اپنے آپ میں تو ایک ریکارڈ تھا مگر ان کی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ اس کے بعد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم رہے مگر شومئی قسمت وہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکے۔ محلاتی سازشیں، اپنوں اور بیگانوں کی دھوکہ دہی اور اقتدار کی حوس نے ملک میں سیاسی استحکام آنے ہی نہیں دیا۔

(جاری ہے)

Check Also

Water Futures Are On Sale

By Zafar Iqbal Wattoo