Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saeed Arshad/
  4. Halwa

Halwa

حلوہ

75 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ایک معاشرہ اور ایک قوم بن سکنے میں فی الحال ناکام ہیں۔ ہم بس ایک ہجوم ہیں کہ جسے چند جتھہ دار ڈنڈے کے زور پر اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا چاہتے ہیں۔ ہم سے ہر کوئی اپنی بات زبردستی منوانا چاہتا ہے نہ کوئی دلیل دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی کوئی دلیل سننے کو تیار ہیں۔ آپ کسی سے سیاسی اختلاف کرکے دیکھ لیں، مسلکی اختلاف کرکے دیکھ لیں یا آپ تمام مسالک کو ماننے سے انکاری ہوجائیں لوگ آستینیں چڑھا کر آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔

غصے سے اُبلتی آنکھیں اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے وہ آپ کو غدار، جاہل اور کافر قرار دے دیں گے اور اگر کوئی بہت نرم ہاتھ رکھنے والا بھی ہوگا تو پھر بھی آپ کی تواضع ماں بہن کی گالیوں سے ضرور کرے گا چاہے آپ کی بات میں کتنا ہی دم کیوں نہ ہو یا آپ کی دلیل کتنی ہی وزن دار کیوں نہ ہو آپ کے سامنے والے کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُس نے آپ کو غدار اور اسلام سے خارج کردیا تو بس کردیا۔

آپ سب کو لاہور کے علاقے اِچھرہ میں ہونے والے واقعے کا علم ہوگا اور آپ سب نے اُس واقعے کے متعلق ویڈیوز بھی دیکھ رکھی ہوگی۔ اُس عورت نے جو کُرتا پہن رکھا تھا اُس میں بس ایک ہی لفظ "حلوہ" عربی میں جس کے معنی خوبصورتی کے ہوتے ہیں، متعدد بار آڑے ترچھے انداز میں لکھا ہوا تھا۔ وہ کوئی قرآنی آیت نہیں تھی۔ لیکن آپ ہماری جہالت کا حال ملاحظہ کریں کہ اُس عورت پر قرآن کی توہین کا الزام لگا کر اُس کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔ وہاں پر نعرے بازی شروع ہوگئی، لوگ اکٹھے ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ سنگین ہوگیا۔ مگر واقعہ پر موجود کسی بھی مومن کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اُس عورت کا موقف سن کر ایک دفعہ گوگل کرکے بھی دیکھ لیں کہ آیا یہ کیا چیز ہے جبکہ آج کل ہر کسی کے پاس اسمارٹ موبائل فون موجود ہوتے ہیں اور جن میں انٹرنیٹ کی سہولت 24 گھنٹے موجود رہتی ہے لیکن کیا کِیا جائے کہ ایسی توقع مہذب معاشرے سے کی جاسکتی ہے کسی بے لگام ہجوم سے نہیں۔

مجھے سب سے زیادہ حیرت مولوی حضرات سے ہوئی کہ چلیں اُن کے نزدیک عوام تو دینی معاملات میں قدرے جاہل ہیں، حلال اور حرام کی سمجھ نہیں رکھتے مگر وہ تو خدا کے راستے کے مسافر ہیں بلکہ خود کو خدا کا مستند نمائندہ سمجھتے ہوئے لوگوں کے ایمانوں کے فیصلے کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ حضور آپ بھی ایک قرآنی آیت اور ایک عام بولے جانے والے عربی حَرف میں فرق نہیں کر سکیں، آپ بھی یہ نا پڑھ سکے کہ یہ قرانی آیت تو بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ بھی ہجوم کی رہنمائی نہیں فرماسکے کہ جاہلوں مائیں بہنیں سب کی برابر ہوتی ہے کسی کو بھی عورت کو ہراساں کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ جناب آپ بھی لوگوں کو یہ نہیں بتا سکے کہ اپنے محدود علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان کے فیصلے نہیں کیا کرتے۔ مگر نہیں۔۔ بس سب کا ایمان ایک کمزور عورت کو دیکھ کر جاگ گیا۔

ہمارا ایمان بھی کتنا عجیب ہے کہ صرف کمزور کو دیکھ کر ہی جاگتا ہے۔ ورنہ طاقتور کے سامنے تو ہماری بولتی بند ہوجاتی ہے۔ سود کو شریعت میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے مگر اُس سودی نظام کے سامنے ہمارا ایمان کبھی نہیں جاگتا۔ ملاوٹ، رشوت، ذخیرہ اندوزی، جعلی چیزیں اور نقلی ادویات بیچتے ہوئے ہمارا ایمان پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کو نکل جاتا ہے۔

ہمارے الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدوار کلمہ طیبہ کی قسمیں کھا کر سیاسی پارٹیوں سے ٹکٹ لیتے ہیں، بعد میں اُسی ٹکٹ پر عوام سے ووٹ لینے کے بعد اسمبلی میں پہنچ کر اپنے وعدوں سے مکر جاتے ہیں اور دوسری پارٹی کو جوائن کرلیتے ہیں تب اِن جیسے لوگوں کے سامنے بھی ہمارا ایمان نہیں جاگتا بلکہ اگر آج ایسا کوئی MNA اِن کے سامنے آجائے تو یہی مومنین اُس کیلئے کرسیاں سیدھی کریں گے اور اُن کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں گے تب اِن کا ایمان ستو پی کر سوتا رہے گا۔

کل ایک مولوی ٹائپ بندے کی پوسٹ آنکھوں کے سامنے سے گزری جس میں وہ فر مارہے تھے کہ "حلوہ" نامی سوٹ پرنٹ کرنے والی کمپنی نے جان بوجھ کر ایسا سوٹ پرنٹ کیا، پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ ایسی کمپنی کو بند کریں اور عوام اس کمپنی کا بائیکاٹ کریں۔ یہ ہے ہماری جہالت۔ یہ کمپنی پاکستانی ہے ہی نہیں بلکہ یہ کمپنی سعودی عرب کی ہے جہاں شیمپو سے لیکر ٹو تھ پیسٹ تک اور چاکلیٹ سے لےکر کھانے پینے کی چیزوں تک پر عربی لکھی ہوتی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہےحضور کہ جس کانام سُنتے ہی نا جانے کیوں آپ جیسے مولوی حضرات کے ہونٹوں پر گہری چُپ کے پر اسرار تالے لگ جاتے ہیں۔

بہرحال ایس پی شہر بانو کو سلیوٹ کرنا بنتا ہے کہ جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرہ خاتون کو ہجوم سے بحفاظت باہر نکالا اور اُس کی جان بچائی۔ مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پولیس اسٹیشن میں دو مولوی اُس عورت کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ عورت ہاتھ جوڑ کر اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی۔ جب کوئی گناہ ہی نہیں کیا تو معافی کیسی۔ معافی تو اُنہیں مانگنی چاہیئے کہ جنہوں نے اپنی کم علمی کی بناد پر اُس عورت کو پریشان کیا۔ مگر دونوں آس پاس بیٹھے مولویوں کے چہرے پر موجود اطیمنانیت یہ چیخ چیخ ظاہر کررہی تھی کہ ہم ایک قوم کی بجائے بس ایک ہجوم ہے اور ہمیں کوئی بھی بزور طاقت ہانک سکتا ہے۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal