Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Data Aur Faisla Sazi

Data Aur Faisla Sazi

ڈیٹا اور فیصلہ سازی

یہ 1955 کا امریکہ ہے مشہور سائنسدان ڈاکٹر جونس سالک اپنی نئی ایجاد شدہ ویکسین کامیاب تجربوں کے بعد پبلک کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس ویکسین کی ایجاد اس وقت دنیا کی سب سے بڑی خبر تھی اور امریکن صدر آئزن ہاور اس خبر کو سناتے ہوئے جذباتی ہو گئے ان کی آنکھوں میں موجود نمی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔

یہ ویکسین ہزاروں سالوں سے انسانوں کو نقصان پہنچانے والی بیماری پولیو کے خلاف بنائی گئی۔ اہرام مصر سے ملنے والی قدیم تصویروں میں بھی پولیو سے متاثرہ لوگ نظر آتے ہیں۔ ہم دوبارہ سے 1955 میں واپس آتے ہیں۔

1952 میں امریکہ میں 57 ہزار بچے پولیو سے متاثر ہوئے جن میں سے 3145 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

نئی ایجاد شدہ ویکسین پوری دنیا میں بچوں کو لگائی جاتی ہے۔ پولیو وائرس کمزور ہونا شروع ہوتا ہے اور 1979 میں صرف 24 سال کے بعد امریکہ کو پولیو فری ملک کا درجہ مل جاتا ہے۔ ویکسین کی ایجاد کے بعد ڈاکٹر جونس سالک اس کو پیٹنٹ کروانے سے انکار کر دیتے ہیں اور اپنی ایجاد کو پوری دنیا کے لیے اوپن کر دیتے ہیں۔

ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ اگر وہ اس کے رائٹس کو ریزرو کر لیتے تو بل گیٹس سے پہلے دنیا کے سب سے امیر آدمی بن جاتے یقینا ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

میں اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو پاکستان میں ہر گاؤں، گوٹھ میں پولیو سے متاثر لوگ نظر آتے تھے۔ 1994 میں جب سرکاری سطح پر پاکستان میں پولیو کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم شروع کی گئی تو پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد تھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی بیٹی بختاور بھٹو کو قطرے پلا کر اس مہم کا آغاز کیا۔

ہمارا ملک پاکستان اپنے ہمہ جہت کلچر اور بدلتے رویوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ کام کرنے پر آئے تو ایٹم بم بنا لیا لیکن مشین کی سوئی باہر سے امپورٹ کرتے ہیں۔ محنت کی تو ہاکی اور سکوائش کے عالمی چیمپین بن گئے اور محنت چھوڑی تو آج ان کھیلوں میں نچلے نمبر پر نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں پولیو ویکسین کے حوالے سے بہت سی منفی آرا پائی جاتی ہیں یہاں جب کوئی بچہ بیمار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر یہ کہتا ہے کہ اس کے جسم میں جراثیم داخل ہو گئے ہیں جس سے یہ بیماری ہوگئی ہے مریض یہ دوائی کھائے گا تو اتنے عرصے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ طبیب کہتا ہے کہ اس کے دماغ سے رطوبت کم ہوگئی ہے جس وجہ سے یہ بیماری ہوگئی ہے موسم بدلے گا خشکی ختم ہوگی تو رطوبت زیادہ ہو جائے گی اور مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ نجومی کہتا ہے اس شخص پر مریخ کے نحس اثرات پڑ رہے ہیں جب ستارے اپنی چال بدلیں گے اور عطارد سعید ساعت میں آئے گا تو مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ مولوی کہتا ہے گناہ کی وجہ سے بیماری آگئی ہے مریض توبہ کرے گا تو ٹھیک ہو جائے گا عامل کہتا ہے مریض پر جادو کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بیماری آئی ہے جادو کا توڑ کیا جائے گا تو مریض ٹھیک ہو جائے گا۔

تو ان تمام سوچ کے گوشوں کے ہوتے ہوئے سچائی کی تلاش ایک مشکل امر بن جاتی ہے۔ لیکن کامیابی کو پانے کے لیے کچھ نیا کرنا پڑتا ہے این۔ ایل۔ پی کا مشہور پرنسپل یاد آگیا۔

اگر تم وہی کچھ کرتے رہو گے جو ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہو تو تمہیں وہی کچھ ملے گا جو ہمیشہ سے ملتا آ رہا ہے۔ کچھ نیا کرنے کی اس سوچ نے پولیو پروگرام میں کام کرنے والے لوگوں میں ڈیٹا کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

سائنسی طور پر تسلیم شدہ اعداد و شمار یقینا ایک بڑاامپیکٹ تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مشہور برطانوی ریاضی دان کلائیو ہمبلی کہتے ہیں ڈیٹا ایک نئی کرنسی ہے۔ یہ آئل کی طرح اہمیت رکھتی ہے۔

جیفری مور کہتے ہیں ڈیٹا کے بغیر آپ ایک شاہراہ پر اندھے اور بہرے کی طرح سفر کر رہے ہیں۔

امریکن کمپوزر ایڈورڈر نے کہا کہ خدا کے بعد جس چیز پر اعتبار کیا جا سکتا ہے وہ ڈیٹا ہے۔ ایک اور جگہ انہوں نے کہا ڈیٹا کے بغیر آپ کی بات معنی نہیں رکھتی۔

ڈیٹا کی اسی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے 2015 میں پاکستان میں ڈیٹا سپورٹ سنٹرز کی بنیاد پڑی۔ اور ان سنٹرز نے کمال کر دیا وہ بچے جو پچھلے چار سالوں سے قطرے نہیں پی رہے ان کا ریکارڈ بھی ایک کلک پر دستیاب ہے۔

ان سینٹرز نے اپنے کام کے دائرہ کار کو بڑھایا اور آج 2024 میں ا نٹیگریٹڈ کمیونیکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (Integrated Communication Management Information System) کے نام سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

آنکھوں میں ایک پولیو فری پاکستان کا خواب سجائے کراچی میں اس سنٹر کے روح رواں عزیز خان سے پوچھا کہ آپ کی اس کامیابی کے پیچھے کون سے اصول کام کر رہے ہیں ہلکی سی مسکراہٹ سے علامہ اقبال کا ایک جملہ دہرایا "امید مرد مومن خدا کی رازوں میں سے ہے"۔

نیشنل کوآرڈینیٹر شہزاد بیگ صاحب کے سنٹر کے وزٹ کے دوران دیے گئے ریمارکس کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے کہا کہ آپ کا ادارہ ڈیٹا کی طاقت کی وجہ سے سونے کی کان کی طرح ہے۔

عزیز خان نے مزید بیان کیا کہ "دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو آپ کو بڑا خواب دیکھنے اور ان کو پورا کرنے سے روک سکے"۔ انہوں نے کہا ہماری کامیابی پانچ اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔

1۔ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر کچھ تخلیقی کام کرنا۔

2۔ ٹیم مینجمنٹ سے بھی ایک لیول اوپر جا کر فیملی کی طرح کام کرنا۔

3۔ ایک بڑے مقصد کے لیے کام کرنا۔ اپنے وائی کو پہنچانا۔

بقول میر درد

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان

4۔ ٹریننگ اور کپیسٹی بلڈنگ پر مستقل بنیادوں پر کام کرنا۔

5-مستقل مزاجی سے کام کرنا کہ کوشش ترک کر دینے کا آپشن ہماری ڈکشنری میں موجود نہیں۔

ڈیٹا کی اس طاقت نے مختلف علاقوں میں وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے پروگرام کے لوگوں کو حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد فراہم کی۔ آج پاکستان پولیو کے خاتمے سے صرف چند قدموں کی دوری پر ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہم پولیو فری پاکستان کی خبر اپنے کانوں سے سنیں گے۔ اس خواب کی تکمیل کا سفر جاری ہے۔

منو بھائی یاد آ گئے

ہونئیں جاندا کرنا پیندا ہے
عشق سمندر ترنا پیندا اہے

حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا ہے

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz