Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saqib/
  4. Leadership Aur Mustaqbil Shanasi

Leadership Aur Mustaqbil Shanasi

لیڈرشپ اور مستقبل شناسی

مستقبل شناسی اور ویژنری اپروچ زندگیوں کو کیسے بدلتی ہے یہ ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے۔ اس فلسفے کو ہم مولانا جلال الدین رومی کی ایک حکایت سے سمجھتے ہیں۔ ایک بوڑھے میاں ہانپتے ہوئے زرگر کے پاس پہنچے اور کہنے لگے بیٹا سونا تولنے والی اپنی ترازو تو تھوڑی دیر کے لیے مجھے دے دو گھر پر میں نے سونے کا برادہ تولنا ہے زرگر نے جواب دیا "بڑے میاں معافی چاہتا ہوں میرے پاس چھلنی نہیں"۔

بڑے میاں نے حیرت سے کہا "ارے ارے مجھ بوڑھے سے تو مذاق کرتا ہے میں تو سونا تولنے والی ترازو مانگ رہا ہوں اور تو کہتا ہے میرے پاس چھلنی نہیں ہے بھائی مجھے چھلنی نہیں ترازو چاہیے ترازو"۔

سنار نے کہا "قبلہ میں سچ کہہ رہا ہوں میری دکان میں جھاڑو نہیں ہے بڑے میاں کو غصہ آگیا اور کہنے لگے تجھے خدا کا خوف نہیں تو کیسی باتیں کر رہا ہے یا پھر تو بہرا ہے کہ میری بات کو سمجھ نہیں رہا۔

سنار نے کہا "جناب میں بہرا نہیں ہوں میں آپ کی باتیں سن رہا ہوں اور نہ ہی دیوانہ ہوں کہ آپ زمین کا پوچھیں اور میں آسمان کی کہوں۔

آپ شاید حقیقت پر غور نہیں کر رہے میں آپ کی حالت دیکھ کر انجام پر غور کر رہا ہوں کہ آپ کے ہاتھوں میں رعشہ کا عارضہ ہے اور نظر بھی کمزور ہے اور اس عمر میں وہم کی بیماری بھی ہو جاتی ہے آپ کے پاس ٹھوس ڈلی تو ہے نہیں جس کا آپ نے وزن کرنا ہے پھر سونا بھی جو برادے کی شکل میں ہے ظاہر ہے جب آپ سونا تولنے لگیں گے تو ہاتھ میں رعشہ کی وجہ سے سونے کی زرات زمین پر گر پڑیں گے پھر انہیں اکٹھا کرنے کے لیے آپ کو جھاڑو کی ضرورت پڑے گی جب آپ جھاڑو سے مٹی اکٹھی کر لیں گے تو پھر لامحالہ آپ کو چھلنی کی بھی ضرورت پڑے گی میں نے پہلے ہی آپ کا انجام دیکھ لیا ہے اس لیے آپ کو ترازو نہیں دے سکتا"۔

درس حیات

جو شخص صرف آغاز پر نظر رکھتا ہے وہ بصارت سے محروم ہے اور جو انجام پر نگاہ رکھتا ہے وہ دور اندیش اور عقلمند ہے وہ کبھی شرمسار نہیں ہوتا۔

پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارے SZABIST (Shaheed Zulfikar Ali Bhutto Institute of Science and Technology) کے بانی ممبران میں سے ایک عبدالحفیظ عباسی نے اس فلسفے کی عملی تعبیر اپنی زندگی میں پیش کی جب انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر نگرانی چلنے والے ادارے کو اس کے ابتدائی دنوں میں جوائن کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بے نظیر بھٹو کی بین الاقوامی مقبولت کے بارے میں مشہور رائٹر عرفان جاوید اپنی ترکی کے سفر کے دوران سناتے ہیں کہتے ہیں۔۔

ترکش ڈیلائٹ کی مرکزی دکان استنبول میں ریلوے اسٹیشن کے قریب تھی یہ وہی ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے یورپ کے سفر کے لیے مشہور اور افسانوی اورینٹ ایکسپریس چلا کرتی تھی اس کا تذکرہ اگاتھاکرسٹی نے اپنے ایک معروف ناول میں کیا ہے اور ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اس کی عکس بندی بھی کی گئی ہے۔

میں ترکش ڈیلائٹ کی مرکزی دکان میں گیا تو مجھے خاصی حیرت ہوئی وہاں کے مین کاؤنٹر کے پیچھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصویر لگی ہوئی تھی ایسا نہ تھا کہ وہ کئی تصاویر میں سے ایک تصویر تھی بلکہ وہ وہاں لگی واحد اور بڑی فریم شدہ تصویر تھی۔

محترمہ چند برس قبل ہی دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ میں نے منیجر سے اپنا تعارف کروایا اور تصویر کی بابت دریافت کیا وہ بہت گرم جوشی سے ملا اور اس نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو پوری مسلم دنیا کے لیے بالعموم اور روشن خیال طبقے کے لیے بالخصوص قابل فخر شخصیت ہیں۔

اس نے بتایا کہ صرف وہی نہیں پورا ترکی محترمہ سے بہت محبت کرتا ہے۔

بی بی شہید نے ڈاکٹر جاوید لغاری جیسے ویژنری انسان کو SZABIST (Shaheed Zulfikar Ali Bhutto Institute of Science and Technology) کا پہلا وائس چانسلر منتخب کیا۔ عبدالحفیظ عباسی نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی لیڈر شیپ سکلز ناقابل بیان ہیں۔

دھیما لہجہ، فیصلہ سازی کی طاقت اور ٹیم بلڈنگ انہوں نے ڈاکٹر جاوید لغاری کے ساتھ کام کرکے سیکھی۔ اپنے سٹوڈنٹس کو بھی یہی پیغام دیا کہ اگر کوئی شخص یہ فیصلہ کر لے کہ اسے کیسی زندگی گزارنی ہے تو کیا کوئی اسے روک سکتا ہے۔ عبدالحفیظ عباسی کے والد پنوں عاقل کے قریب واقع ایک گوٹھ میں پرائمری سکول میں ٹیچر تھے۔

گفتگو کے دوران ایک نایاب بات بتائی، کہا ثاقب صاحب آج 40 سال سے زائد عرصہ گزر گیا اپنی سکول لائف کو چھوڑے ہوئے اور یہ بات میں نے نوٹ کی کہ جو ٹیچر فرض شناسی اور ایمانداری سے بچوں کو پڑھاتے تھے ان کی اولاد آج بہترین جگہوں پر ہے اورجو ٹیچر پڑھانے میں ڈنڈی مارتے تھے ان کی اولاد ایوریج لائف گزار رہی ہے۔

عبدالحفیظ عباسی سکھر ڈویژن سے نکلنے والے پہلے سٹوڈنٹ تھے جن کا قائد اعظم یونیورسٹی میں ماسٹرز میں ایڈمیشن ہوا اس سے پہلے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں 80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں شارٹ کمپیوٹر کورسز کیے اور ایک جنون اور عشق کے ساتھ اپنے کیریئر کو آگے بڑھایا۔

کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی

قائد اعظم یونیورسٹی میں سکالرشپ بھی حاصل کی ان کی صلاحیتوں کو نکھار کراچی شہر میں آیا۔

کراچی کا اصل حسن اس کے رہنے والے ہیں۔ وسیع القلب جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل پیرا زبان کے پکے، پیشہ ور، دوسروں کے زندگیوں میں مداخلت نہ کرنے والے، بقائے باہمی کے جذبے کے حامل شہری زیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے وضع دار اور درگزر کرنے والے، فلاح عامہ اور چندے میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والے اور خوف خدا کے عملی مظاہرے کرنے والے شاید اسی لیے ایدھی، چھیپا اور سیلانی جیسے بڑے فلاحی اداروں نے ادھر جنم لیا۔

کراچی کے لوگ عموما کسی دوسرے کی ترقی پر خوش ہونے والے لوگ ہیں۔

سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ تمہیں تمہارا رزق کمزوروں کے صدقے میں ملتا ہے تمہاری مدد انھی کے سبب ہوتی ہے اور تمہاری کامیابی کا دامن انھی سے بندھا ہے۔

عبدالحفیظ عباسی جس ٹیم کا حصہ تھے اس نے پاکستان میں نئے ٹرینڈز دیے۔

ایم ایس سافٹ ویئر انجینئرنگ کا پہلا بیج، کیمپسز میں وائی فائی کی سہولت، آن لائن ایڈمیشن ٹیسٹنگ ٹیم، پہلی ان ہاؤس ویب سائٹ اور سب سے پہلے ایجوکیشن سیکٹر میں ERP سسٹم کا استعمال ان کی کامیابیوں میں شامل ہے۔

مسلسل سیکھتے رہنے کی اہمیت اپنی ذات سے ثابت کی اور 52 سال کی عمر میں تمام تر مصروفیت کے ساتھ ایک اور مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

اپنی والدہ کی شفقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کہتی تھیں بیٹا کبھی ایسی بات نہ کرو جس پر بعد میں پچھتانا پڑے اور ہمیشہ جھوٹ سے دور رہو۔

پوچھا آپ کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے جواب دیا۔۔

1۔ انسان کو بنیادی طور پر جنونی ہونا چاہیے اسے اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہونی چاہیے۔

2۔ انسان کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے کالم کے شروع میں مولانا روم کی حکایت بھی سبق واضح کرتی ہے کہ انسان ایک کام کر رہا ہو تو اس کی نظر اگلے منٹ اگلے کام اگلی منزل کی جانب ہونی چاہیے۔

3۔ آپ کا جو بھی خواب ہے اپنے پاس موجود ہر اضافی روپیہ اس کی تکمیل کے لیے خرچ کر ڈالو۔

4۔ -کیریئر کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ مت دیکھو کہ فوری طور پر آپ کو اس کا نفع مل رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ 10 سال بعد یہ شعبہ آپ کو کہاں لے کر جائے گا۔

فیملی لائف کو بیلنس کرنے کی اہمیت پر زور دیا اپنی کامیابیوں کے پیچھے اپنی شریک حیات کے کنٹریبیوشن کا تذکرہ کیا انہوں نے اپنی گورنمنٹ جاب گھر کی خاطر چھوڑی اور آج عبدالحفیظ عباسی ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں جو ٹرانسفارمیشن لا رہے ہیں اس میں ان کا بھی کلیدی کردار ہے۔

ان کی ہمہ جہت شخصیت گویا یہ پیغام دے رہی ہے۔۔

سلوٹیں ہیں میرے چہرے پہ تو حیرت کیسی
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا

اور آخر میں برازیلین رائٹر پاؤلوکوئیلو یاد آگئے، جب کھلی آنکھوں سے خواب دیکھا جائے اور اس کے نیچے جگ راتوں اور پسینوں کی کھاد بھری جائے تو پھر اوپر والا پوری کائنات کو اس سازش میں شریک کر لیتا ہے کہ خواب دیکھنے والے کا خواب پورا ہونا چاہیے۔

Check Also

Falasteeni Be Rozgari Bharat Ke Liye Kitni Faida Mand?

By Wusat Ullah Khan