Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qamar uz Zaman/
  4. Gehri Neend

Gehri Neend

گہری نیند

مغرب نے اسلام کو ہمیشہ سے اپنا دشمن سمجھا اور اس سے نبٹنے کیلیئے تدبر اور مکر سمیت ہر حربہ استعمال کیا۔ نپولین 1798ء میں مصر پر حملہ کے وقت مختلف علوم کے تقریباً 200 محققین بھی ساتھ لے کر آیا۔ ان میں سے بشریات، اسلامیات اور لسانیات کے ماہرین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسلام اور عالمِ اسلام کو سمجھیں اور پھر مناسب حکمت عملی کیلیے حکومت کی رہنمائی کریں۔

عالمِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی اور بے وقعتی کے باوجود آج بھی مغرب بالخصوص امریکہ اسلام سے غافل نہیں ہے۔ متعدد حکومتی اور نجی تحقیقی ادارے یعنی تِھنک ٹینکس اسلام اور عالمِ اسلام پر تحقیق میں مصروف ہیں۔ گزشتہ 200 سال سے مغرب کی تقریباً ہر بڑی جامعہ میں اسلامیات کا الگ شعبہ قائم ہے جہاں مغربی طلباء کو عربی زبان اور اسلامی علوم میں مہارت مہیا کی جاتی ہے تو مسلم طلباء کو بھی تشکیک اور معذرت خواہی میں مبتلا کرنے کیلیے خصوصی وظائف پر داخلے دئیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ابلاغ کے محاذ پر اسلام اور شعائرِ اسلام کے متعلق انتہائی مؤثر انداز میں منفی تاثر قائم کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مغرب کی خیرہ کن مادی ترقی کا تعلق ہے تو یہ اب کوئی راز نہیں کہ اس کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی 400 سالوں کی محنت اور حکومتی سطح پر تحقیق کیلیے موزوں ماحول اور وسائل کی فراہمی ہے۔

دوسری طرف امتِ مسلمہ ہے۔ اکثر مسلم ممالک نے گزشتہ 200 سال کے دوران مغربی استعمار کے ہاتھوں غلامی کی ذلت برداشت کی لیکن مغربی فکر اور حکمتِ عملی کا محاسبہ اور جوابی تیاری کا تردد کسی نے نہیں کیا۔ نہ ہی مغرب کی دنیاوی ترقی بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس کی حیران کن کامیابیاں ہمیں مہمیز دے سکی ہیں کہ ہم ان علوم و فنون پر کما حقہ توجہ دے کر خود کو مغرب کا ہم پلہ بنا سکیں۔ اس مقصد کیلیے نیم دلی کے ساتھ کچھ ادارے بنائے گئے جن کا ماحصل چند لوگوں کا روزگار ہے یا پھر موٹی موٹی فائلیں۔

ہماری حالت یہ کہ اس وقت عالمِ اسلام غذائی تحفظ سے لے کر عسکری دفاع تک ہر شعبۂ زندگی میں مغربی تحقیق اور فنی مہارت کا محتاج۔ مخصوص حلیوں اور مناہج کے حامل نت نئے مذہبی گروہوں کی بھرمار کے باوجود ہمارے علماء اس زوال کا سبب بتاتے ہیں دین سے دوری اور علاج تجویز کرتے ہیں طویل دعائیں اور قنوتِ نازلہ۔ اقبال کو در پیش ایک صدی قبل کا یہ معما آج بھی برقرار ہے کہ اسے خود فریبی کہیں یا خدا فریبی کہ عمل کو چھوڑ کر مسلمان تقدیر کو کوس رہا ہے یا اس کے علماء اسے یہ خواب آور گولی دے رہے ہیں کہ یہ جہان کافر کے لئے ہے اور اگلا جہاں ہمارا ہے جس میں کافر کا کوئی حصہ نہیں۔ نجانے یہ قناعتی رویہ صرف مغربی ترقی کے مقابلہ میں محنت سے کترانے کیلیے ہی کیوں اپنایا جاتا ہے۔ اس ترقی کے ثمرات یعنی پرتعیش گاڑی، ہوائی جہاز اور موبائل فون وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے وقت کیوں نہیں۔

کیا مذہب واقعی ہمارے لئے افیون بن چکا ہے؟ دینِ اسلام کے کسی ایک پہلو کو اپنی جدوجہد کا مرکز و محور بنا کر حال مست دکھنے والے افراد اور گروہ تو یہی تاثر دے رہے ہیں۔ حقیقی مسائل اور مصیبتیں فراموش۔ فضائل اور فضیلتیں یا پھر مسلکی دلائل اور عقیدتیں ہماری ترجیح۔ کسی کو سنہرے ماضی کا خمار حرکت سے روک رہا ہے تو کوئی امام مہدی کے انتظار میں اس طرح مگن ہے کہ اپنی آج کی ذلت و خواری کو بھلائے بیٹھا ہے۔ ذکرِ صبحگاہی کی طمانیت نشترِ تحقیق اٹھانے میں رکاوٹ ہے۔ نہ احتسابِ کائنات ہے اور نہ ہی احتسابِ ذات۔

آبا کی کتابوں یعنی علم کے موتیوں کو یورپ میں دیکھ کر جن کا دل سیپارہ ہوتا تھا وہ اگر آج امت کی علمی سیپیوں یعنی علم کے موتی عطا کرنے والے روشن دماغوں کو مغرب میں مصروفِ کار دیکھ لیتے تو کیا حالت ہوتی۔ ان روشن دماغوں کا مطمعِ نظر صرف مالی آسودگی ہے اور ان کی تگ و تاز کا ثمرہ ہے مغرب کے استحصالی اور اسلام مخالف نظام کی پختگی۔ یہ افراد اگر کوئی اعلی مقصد اور امت کا درد رکھتے بھی ہوں تو ان کی آبائی ریاستوں یا امت کے پاس ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انکے مفید استعمال کا کوئی منصوبہ اور مواقع نہیں ہیں۔ انتہائی قیمتی ملی اثاثہ یعنی انسانی وسائل ہمارے انتشار اور بے حسی کے باعث دشمن کی تقویت کا سبب بن رہے ہیں۔

گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ کے مغربی ابلاغی مکر اور دماغی غسل کی مشق کا نتیجہ ہے کہ اب جہاد پر مغرب کم اور عالمِ اسلام میں اس کےعشاق بالخصوص مسلم حکمران زیادہ لعن طعن کر رہے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے "مشاغلِ لطیفہ" میں خلل واقع ہوتا ہے اور اپنے محبوب عالمِ مغرب کے سامنے صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ جہاد کو گالی بنا دینے والے عالمِ کفر کا یہ حال ہے کہ اکیلے امریکہ کے دفاعی اخراجات 688 ارب ڈالر، یورپی یونین کے ممالک کے 258 ارب ڈالر اور برطانیہ کے 69 ارب ڈالر جبکہ عالمِ اسلام کے مجموعی دفاعی اخراجات تقریباً 190 ارب ڈالر ہیں جن کا زیادہ حصہ مغرب سے اسلحہ کی خریداری میں خرچ ہو جاتا ہے کیونکہ تقریباً تمام اسلامی ممالک کا اسلحہ کیلیے بالعموم اور اعلی کارکردگی والے جدید ہتھیاروں کیلیے بالخصوص مغرب پر انحصار ہے۔ اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی اپنے دشمن کو اپنے بہترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی دے گا یا کمترین۔ اس صورتحال میں دفاع اور دفاعی تیاری چہ معنی؟ مقصد تو صرف مغرب کے اسلحہ ساز کار خانوں کا فروغ اور مغربی معیشت کی ترقی ہی نظر آتا ہے۔

امتِ مسلمہ کی اس خود فراموشی اور بے حسی کی بنیادی وجہ انتشار ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ نفوس پر مشتمل امت 57 ممالک اور اتنے ہی نظاموں میں بٹی ہوئی ہے جبکہ چین میں ایک ارب بیالیس کروڑ افراد ایک ہی نظام میں پروئے ہوئے ہیں اس لئے وہ اس وقت سائنسی، معاشی اور عسکری میدانوں میں مغرب کا بھر پور مقابلہ کرتا نظر آ رہا ہے۔

متاعِ کارواں لٹے تو عرصہ گزر گیا لیکن کاروانِ امت ابھی تک احساسِ زیاں سے عاری۔ "اسلام ایک چورا ہے پر" کی بازگشت گزشتہ صدی سے گاہے بگاہے سنائی دے رہی ہے۔ نجانے کتنے چورا ہے گذر چکے اور سمت طے نہیں ہوئی کیونکہ سمت نما یعنی میرِ کارواں ندارد۔ اب انجام آ پہنچا ہے۔ یہ ہے کامل بے وقعتی اور بے حمیتی کا گڑھا۔ دیکھیں اس گڑھے سے نکالنے کیلیئے مردانِ کار کب اور کہاں سے نمودار ہوتے ہیں۔ فی الوقت تو کارواں کو نہ گزشتہ عروج حرکت پر ابھار رہا ہے اور نہ موجودہ حالت بے چین کر رہی ہے۔

اے چشمِ جہاں بیں، بہ تماشائے جہاں خیز

معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز

از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز

از خوابِ گِراں خیز

اے دنیا کو دیکھنے والی آنکھ، تُو بھی اْٹھ کہ دنیا تجھے دیکھے۔

اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اْٹھ کھڑا ہو۔

اْٹھ، گہری نیند سے اْٹھ، بہت گہری نیند سے اْٹھ۔

Check Also

Aik Mulaqat Ka Sawal Hai

By Najam Wali Khan