Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qamar uz Zaman/
  4. Khud Mukhtari Ya Bajguzari?

Khud Mukhtari Ya Bajguzari?

خودمختاری یا باجگزاری؟

امتِ مسلمہ کے اکابرین کی طرف سے مذمتی بیانات ہیں یا پھر مطالبات۔ ہماری مذمت سے اسرائیلی ہاتھوں میں لرزش آ رہی ہے نہ ہی ہمارے مطالبات سن کر ان کی آنکھیں خوف سے پتھرا رہی ہیں۔ فلسطینیوں کی جاں بخشی تبھی ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کو رحم آ جائے یا امریکہ کو شرم۔ گویا فلسطین کی صورتحال میں امت مسلمہ بالعموم اور فلسطینی بالخصوص اس وقت غریب کی جورو بنے نظر آرہے ہیں۔ ملی حمیت عملی صورت میں کہیں نظر نہیں آتی البتہ اسلامی رومان پسندوں کی تحریر و تقریر کو حسرت و تاسف سے پر تاثیربنانے کا ذریعہ ضرور ہے۔

قوتِ بازوئے مسلم کا مصرف اب اعلائے کلمۃ الحق اور مظلومین کی دادرسی نہیں بلکہ مسلسل بڑھتی معاشی مسابقت میں اپنی بقا کو یقینی بنانا ہے تاکہ مادی سہولیات کے حصول میں کوئی خلل نہ آئے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور عرب لیگ کے 11 نومبر کے مشترکہ سربراہی اجلاس کا اعلامیہ در حقیقت اعلانِ بےچار گی تھا۔ مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیلی مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں۔ در حقیقت بین السطور پیغام یہ تھا کہ ہم آپ کا ہاتھ روکنے کی جرآت نہیں رکھتے۔

خودفریبی اور جاہ و منصب کیلیئےکاسہ لیسی کی یہ المناک داستان بیسیوں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی جب عرب عصبیت اور ہوسِ اقتدار کے ملاپ نے عالمِ عرب کے چند طالع آزماؤں کو کمزور پڑتی عثمانی سلطنت کے خلاف تاجِ برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ پر مائل کیا اور پھر تیرہ صدیوں سے پے در پے صدمے سہتے وحدتِ اسلامی کےنحیف و نزار وجود کو منبعِ اسلام یعنی سرزمینِ حجاز میں اہلِ بیت کے ساتھ نسبت کے دعویدار شریفِ مکہ نے جان لیوا ضرب لگائی۔

عثمانی دور کے آخری شریفِ مکہ حسین بن علی نے عرب عصبیت کو بنیاد بنا کر عرب عوام کو ترکوں کے خلاف ابھارا اور ساتھ ہی برطانیہ سے بھی مدد حاصل کی اس وعدے پر کہ بغاوت کی کامیابی کی صورت میں وہ خطۂ حجاز کے ساتھ ساتھ موجودہ اردن، عراق، اسرائیل، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان پر مشتمل علاقے میں اپنی خلافت قائم کرے گا۔

دوسری طرف برطانیہ کے در پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ وہاں حکومتی زعما صیہونی اثرات کے نتیجہ میں یا ان کی سازشوں سے حفظِ ماتقدم کے طور پر یورپی یہودیوں کو خطۂ فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست میں آباد کرنے کا منصوبہ پہلے ہی بنائے بیٹھے تھے۔ اس منصوبہ میں بڑی رکاوٹ عثمانی سلطنت کا یورپی اقوام پر چار صدیوں سے قائم رعب و دبدبہ تھا۔ شریفِ مکہ کی خواہشات کو بھانپتے ہوئے برطانوی حکمرانوں نے اس کی ترکوں کے خلاف بھرپور مدد کی اور جب خطۂ عرب سے عثمانی پسپا ہوئے تو 2 نومبر 1917ء کو اپنے ان عزائم کے برملا اظہار کے لئے برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور نے برطانیہ میں یہودیوں کے سر کردہ رہنما روتھس چائلڈ کو ایک خط لکھا جس میں برطانوی صیہونیوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ ان کیلیئے فلسطین میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس خط کو بعد میں"اعلانِ بالفور" یعنی Balfour Declaration کا نام دیا گیا۔ یہ بھی انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا کہ ایک ملک کسی دوسری قوم کو ایک تیسری قوم کے خطہ میں نئی ریاست قائم کرنے کی یقین دہانیاں کروا رہا تھا اور پھران یقین دہانیوں کو عملی شکل بھی دی۔

برطانوی حکمرانوں نے خطۂ عرب میں شریفِ مکہ کی مطلق العنانیت کا توڑ کرنے کے لیئے عالمِ عرب کو موجودہ سات ممالک میں تقسیم کر دیا اور جیسے جیسے حکومت و امارت کا نشہ ان ممالک کےعرب زعما کے شب و روز گرماتا گیا ویسے ویسے فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ ٹھنڈا ہوتا گیا۔ پھر جب 1948ء میں اسرائیلی ریاست قائم ہوگئی تو اس ریاست کے آس پاس عرب عصبیت میں مبتلا ہوئے ممالک نے وقفہ وقفہ سے اسرائیل کے خلاف تین بڑی جنگیں لڑیں اور ہر دفعہ ہزیمت اٹھائی۔ ملی وحدت کو پہلے ہی بھلا دینے والے ان عرب برادران نے عرب عصبیت جیسے "منفی" اور"ناپسندیدہ" جذبے کو بھی 1973ء میں لڑی جانے والی آخری جنگ کے بعد اپنے دلوں سے کھرچ کر فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ اب فلسطین اور فلسطینی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں۔

آج فلسطین اور عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل کا وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں کسی بھی قسم کی نرمی برتنے سے انکار کر رہا ہے۔ وہ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر بھی کسی سمجھوتے کو رد کرتے ہوئے اسے دوسری النکبہ بنانے پر بضد ہے۔ خیال رہے کہ النکبہ اس مہم کو کہا گیا تھا جس کے تحت اسرائیل نے 1948ء میں تقریباً 700 شہری اور دیہاتی بستیوں سے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرکے ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سانحہ میں تقریباً 700,000 فلسطینیوں کو ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینی پڑی تھی۔

اسرائیل یہ ہٹ دھرمی اس لئے دکھا رہا ہے کیونکہ اسکی جارحیت کو امریکہ کی بھرپور اور اعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت صرف بیانات تک اور امریکی حکومت تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ بھی بحیرہ روم میں بھیج دیا ہے اور اس کے زیرِ اثر تمام مغربی ممالک بھی اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ تمام ممالک اسرائیل کی غزہ میں جاری نسل کش مہم کو اس کاحقِ دفاع قرار دے کر کسی بھی عالمی ادارے میں اس کے خلاف کاروائی تو دور کی بات کسی مذمتی قرارداد کی بھی اجازت نہیں دے رہے۔

سوشل میڈیا پر اور عوامی مظاہروں میں تنقید کے بعدامریکہ کا وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن یہ اعلان کرتا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی قبضہ کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا اور امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ حماس کی بیخ کنی کے بعد غزہ کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے۔ لیکن اس وقت مغربی ذرائع ابلاغ ایک اعلی امریکی عہدیدار کے حوالہ سے انکشاف کر رہے ہیں کہ امریکی صدر کے مشرقِ وسطی میں انسانی امداد کے متعلق خصوصی ایلچی ڈیوڈ سیٹرفیلڈ نے غزہ میں گذشتہ ماہ کی اسرائیلی جارحیت کے دوران یہ مشورہ دیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرکے مصر کے صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے۔ ابھی تک امریکہ کی طرف سے سرکاری طور پر اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ تاہم امریکہ کے ممکنہ دوہرےکردار پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ استعماری طاقتوں کیلیئے اس طرح کی چالیں عام سی بات ہے اور دشمن کی چالوں پر سوال اٹھانا بنتا بھی نہیں۔

البتہ یہ سوال بنتا ہے کہ کیا آج کی مسلم ریاستیں خود مختار ہیں یا مغرب کی باجگزار؟ کیا ہمارا خراج خونِ مسلم اور ملی حمیت تو نہیں؟ اگر ہماری ملی حمیت آج زندہ ہوتی تو مطالبوں کی بجائے دھمکیاں ہوتیں۔

ہم عسکری کمزوری کا شکار ہو چکے ہیں تو خودداری کا کم از کم تقاضا تھا کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے پشت پناہ عالمِ مغرب کا اقتصادی مقاطعہ کرتے ہوئے ایک اسلامی اقتصادی بلاک تشکیل دیتے۔

مگر صد حیف کہ مغرب کے بلوری کنڑ اس میں رکاوٹ ہیں۔ غزہ کے ملبے تلے دبےیا ہسپتالوں میں بے یارو مددگار دم توڑتے ننھے فلسطینی بھی ہماری مومن ارواح کو مضطرب نہیں کر سکے۔

Check Also

Batu Caves Of Kuala Lumpur

By Altaf Ahmad Aamir